”ہر سال کا تماشا“

بدھ 14 اپریل 2021

Ahmed Khan

احمد خان

رمضان کی مبارک ساعتوں کے قریب آتے ہی حکومتی سطح پر عوام کو سبز باغ دکھا نے کا مر حلہ شروع ہو جاتا ہے عام شہر یوں کو سستے داموں اشیا ء خورد و نوش کی فراہمی کے بارے میں دھا نسو قسم کے اعلانات اور اقدامات کی نوید سنا ئی جا تی ہے اربوں کھر بوں رمضان کے نام پر عوام کے نام پر وارنے کے اعلانات اب ہر سال کا معمول بن چکے ،سستے بازار کے نام پر ضلعی اور تحصیل سطح پر بازاروں کا سلسلہ شروع ہوتا ہے ، حکومت کے خزانے سے ان بازاروں کے نام پر اربوں نکالے جاتے ہیں بڑے زور و شور سے سرکار کے پیادے ان بازار وں کے لیے سرگرم ہوا کر تے ہیں ، افسر شاہی کی چابک دستی الگ سے دیکھنے کے قابل ہوتی ہے حکومت کے وزراء الگ سے ان بازاروں کے دورے پر دورا کر تے ہیں ، افسر شاہی اور وزراء کے دوروں اور تصویر یں کھنچوانے کا سلسلہ گویا رمضان کی آمد سے چند روز قبل شروع ہوتا ہے اور رمضان کے اختتام تک یہ سلسلہ جوبن پر رہتا ہے ، عوام کے نام پر اربوں کھر بوں ہر سال حکومتی مشہوری اور سرکار کے ” اپنوں “ کی جیبوں کی نذر ہو جاتے ہیں ، رمضان کے ماہ مبارک کے نام پر مختص کر دہ اربوں کھر بوں میں سے آدھے پیسے ان بازاروں کو بنا نے سنوارنے پر صرف ہو جاتے ہیں ، سرکار کی ایک خطیر رقم سرکار کے پیادوں، افسر شاہی اور وزراء کے دوروں کے ” آمد جامد “ کے نام ہو جاتی ہے گویا معاملہ گھوم پھر کر ” دنیا گول ہے “ رک جاتا ہے ، حکومت کے بھاری بھرکم دعوؤں کے باوجود لیکن عام شہری گرانی کے ہاتھوں ” ہا ئے ہا ئے “ کر تاہے ، خدا لگتی یہ ہے کہ حکومت کی تگ ودو کے باوجود ہر شہری کو ان بازاروں سے ” ککھ “ فائدہ نہیں ہوتا ، ایسا کیوں ہے ، حکومت صرف ضلعی اور تحصیل سطح کے شہروں میں سستے بازاروں کا ڈھو نگ رچاتی ہے ، کیا مملکت خداداد کی رعایا صرف ضلعی اور تحصیل سطح کے شہروں میں بستی ہے ، کیا دور دراز گا ؤں گوٹھوں میں رہنے والوں کی رسائی با آسانی ضلعی اور تحصیل سطح پر قائم کر دہ حکومت کے سستے بازاروں تک ممکن ہے ، کیا حکومت کے قائم کر دہ بازاروں میں واقعی سستے داموں اشیا ء ضروریہ کی فراہمی یقینی ہے ، ان تمام سوالوں کا جواب نفی میں ہے ، ضلعی اور تحصیل سطح پر حکومت کی جانب سے سستے بازاروں کے انعقاد کا مقصد صرف اور صرف رعایا کا منہ بند کر وانا ہے اور کچھ نہیں ، ہو نا کیا چاہیے ، حکومت کو مشہوری طرز کے اقدامات سے ذرا آگے کا سوچنا چاہیے صرف رمضان بازار ہی کیوں حکومت کا انصرام ہی اس حد تک مو ثر ہو نا چاہیے کہ شہروں سے گاؤں گوٹھوں تک بڑے ساہو کاروں سے چھا بڑی والوں تک اشیا ء خورد و نوش کے نرخ حکومت کے احکامات سے رتی برابر ادھر سے ادھر نہ ہو ں ، ہر سال ملکی خزانے سے رمضان کے نام پراربوں کھر بوں نکلتے ہیں اور یہ اربوں کھربوں غرباء کے بجا ئے امراء کی جیبوں میں چلے جاتے ہیں ، ہو نا کیا چاہیے ، حکومت کے اعلی دماغ رمضان بازار کے نام پر ” خوش نامی “ سے نکل کر اس سلسلے کو ہر دکان ہر بازار تک پھیلانے کی سبیل کر ے ، تلخ حقیقت کیا ہے ، یہ کہ گرانی اتنی نہیں ہے جتنی ” حاجی صاحبان “ نے از خود کر رکھی ہے ، سونے پہ سہاگہ یہ حکومت کے پرزوں کی ڈھیلی گرفت نے گرانی جیسے اہم تر معاملے کو بڑھاوا دینے میں کلیدی کر دار ادا کیا ،داخلی سطح پر افسر شاہی میں وفاداروں کی طرف داری کے عنصر نے انتظامی ڈھا نچے کو تہس نہس کر کے رکھ دیا ہے ، حکو مت کے انصرام میں بگاڑ کی وجہ سے ہر ایرا غیرا قانون سے کھلواڑ کر نے میں عار محسوس نہیں کرتا ، انتظامیہ کے معاملات میں” جھول “ کی وجہ سے عام شہری ذخیرہ اندوزوں اور گراں فروشوں کے ہاتھوں لٹتے ہیں ، عام شہریوں کی چیخ و پکار کے باوجود مگر حکومت اور حکومت کے زیر سایہ انتظامیہ گراں فروشوں کو نکیل ڈالنے میں نامراد رہتی ہے ، انتظامیہ کی پھر تیاں مگر حکومت کے قائم کردہ نام نہاد سستے بازاروں تک محدود رہتی ہے ، خلق خدا کے ساتھ ” حاجی صاحبان “ کیا کر تے ہیں اشیا ء ضروریہ کی نرخوں میں کئی گنا اضافہ کر کے کس طرح سے خلق خدا کی جیبوں پر ہاتھ صاف کر تے ہیں حکومت کے اعلی دماغوں کو عام شہر یوں کی آہیں سنا ئی نہیں دیتی ، یوں آپا دھا پی کی سی کیفیت میں ہر سال رمضان گزر جاتاہے ، بس بہت ہو چکا یہ ” طریقہ واردات “ اس حد تک پٹ چکا کہ اب ” ہٹو بچو “ کے عمل سے عام شہر یوں کو بے وقوف بنا نے کا زمانہ بھی برسوں پہلے لد چکا ، خدارا ایسے اقدامات کیجیے جس سے صرف رمضان میں ہی نہیں عام دنوں میں بھی شہر یوں کو پیٹ کی آگ بجھا نے کا ساماں سستے داموں ملے ، آخر کب تلک قوم کو ” ماموں “ بنا نے کا سلسلہ چلتا رہے گا۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :