” بس ! یہ کر لیں “

منگل 25 مئی 2021

Ahmed Khan

احمد خان

 مدتوں پہلے نظام عدل سے جڑے ایک صاحب ” مٹھی بند “ انصاف کیا کرتے تھے ایک روز گھر کی مالکہ کسی کام سے تشریف لے گئیں اور بچوں کی نگرانی انہیں سونپ گئیں مو صوف پیشہ وارانہ امور نمٹا رہے تھے یک دم خیال آیا کہ بچوں کی دیکھ بال کی ذمہ داری بھی آج انہی کے سر ہے قلم میز پر رکھ باہر آگئے دیکھا تو دونوں بچے ایک کونے میں کھیل میں مصروف تھے بچوں کے قریب پہنچنے ہی والے تھے کہ بچوں کی زباں سے اپنا ذکر سن کر رک گئے بڑا بیٹا چھوٹے سے کہہ رہا تھا کہ میں بڑا ہو کر یو رپ چلا جا ؤں گا چھوٹے نے بر جستہ جملہ کسا کہ خود باہر جا کر عیش کر یں گے اور امی ابو میرے ذمہ کر دیں گے جواباً بڑے بیٹے نے چھوٹے کو تسلی دی کہ امی ابو کو سرونٹ کوا ٹر میں رکھ لینا اور بس دو وقت کی روٹی انہیں دے دیا کر نا اس امر کے لیے ہر ما ہ میں باقاعدہ ایک خطیر رقم بھیج دیا کروں گا ، حرام حلال کی تمیز سے عاری صاحب کے پا ؤں تلے سے زمین سرک گئی اسی دن ” لے دے “ سے تائب ہو ئے اور باقی زندگی حلال رزق اور مخلوق خدا کی خدمت کے لیے سرگر داں رہے ایک اور قابل صد احترام ہستی کا واقعہ بھی سنتے جا ئیے مو صوف انتہا ئی شان دار بلکہ جان دار عہدے پر فائز تھے ان کے اکلو تے فر زند ارجمند فخریہ انداز میں اپنے حلقہ احباب میں کہتے پھر تے کہ جو من چاہے کر لو بس اتنی رقم لے کر میر ے پاس پہنچ جایا کرو کسی مائی کے لعل کی جرات نہیں کہ تمہارا بال بیکا کر سکے عرصہ دراز تک ان کا ” کا روبار “ چلتا رہا ہوا مگر یہ کہ ان صاحب کے جواں سال اکلوتے فرزند انہی کے دفتر کے عین سامنے راہی عدم ہو ئے ، وہ صاحب جتنا عرصہ جیے اپنی اکلو تی اولاد کی دائمی جدائی کے غم میں گھلتے رہے ، مسئلہ اصل ہے کیا ، نظام پر گلہ کیا جاتا ہے نظام نہیں دراصل نظام چلا نے والے تاریک راہوں کے مسافر ہیں جس کی وجہ سے نظام پر ہر دوسرا فرد انگلیاں اٹھا رہا ہے ، لگے چند سالوں کیا ہو رہا ہے سرکار کے مختلف شعبوں اور محکموں سے جڑے احباب کی کارکردگی میں نکھار پیدا کر نے کے لیے مختلف طرز کی کوششیں جارہی ہیں ، انہیں نئے ضابطے اور قاعدے پڑ ھا نے کی سبیل کی جارہی ہے ،پر مغز مکالے پڑھ کر ان میں تبدیلی لا نے کی کوشش کی جاتی ہے ، اس تمام تر ” بھیڑ چال “اور مادی سہو لیات کے باوجود مگر سر کار کمان داری میں کام کر نے والے شعبوں میں خلق خدا کو قدم قدم پر مشکلات کا سامنا ہے بلکہ بہت سی خود ساختہ مشکلات سرکار کے شعبوں میں عوام کے لیے مقرر کر دہ ” سہو لت کار “ پیدا کر تے ہیں ، عام شہر ی سے عمو ماً سیدھے منہ بات نہیں کی جاتی ، یہ کسی ایک شعبہ یا محکمہ کا خاصا نہیں بلکہ اریب قریب ہر شعبے میں یہ بدعت عام ہے ، انسانیت سے بے زار پن کی اس وجہ سے مو جودہ نظام نے اگر چہ مادی طور پر سندیسے سے بر قی خط تک ترقی کر لی مگر عام شہر ی کے لیے حسب سابق بلکہ حسب دستور قدم قدم پر پریشانی کا سامنا کر نا پڑ تا ہے ، یقین نہیں تو ایک ہی معاملے کے دو رخ آپ کی خدمت اقد س میں عر ض کیے دیتے ہیں ایک نجی دفتر سے دھا نسو قسم کے صاحب کا واسطہ پڑا مو صوف نے دفتر کا دروازہ جس طر ح سے کھو لا وہ ناقابل بیاں ہے نہ سلا م نہ کلام بس اندر آتے ہی نجی دفتر کے عملے پر چڑ ھ دوڑے عملے نے مو صوف کی زباں درازی بھی برداشت کی اور آنا ً فاناً ان کا نا جائز کام بھی کر دیا عین اسی طر ح ایک مفلس جائز مسئلہ اسی دفتر میں لے کر حاضر ہوا وہی عملہ جو طاقت کے ہنر سے لیس کے سا منے بھیگی بلی بنا رہا اپنی ساری اکڑ پن اس مفلس پر نکال دی ، نظام سے گلہ گزاری میں تیزی سے اضافہ کیو ں ہو رہا ہے صرف اس وجہ سے کہ نظام سے جڑے احباب میں انسانیت سے محبت اور دوسروں کے ساتھ بھلا ئی کا جذبہ قریباً آخری سانسیں لے رہا ہے ، نظام کو عام آدمی کا اگر تابع بنا نا ہے پھر پو ری قوت اور سرعت کے ساتھ قانون کی عمل داری کے نفاذ کی ٹھا ن لیجیے ، سرکار کے شعبوں میں تشریف فر ما احباب کو بس ایک سبق ازبر کروادیجیے کہ جیسا کروگے ویسا بھر وگے آج ااگر کسی عہد ے پر بیٹھ کر کسی کے لیے فر عون بنیں گے کل کلا ں آپ کی نسل کے لیے قدرت لا زماً کو ئی نہ کو ئی فر عون پیدا کر ے گی ، جس دن مو جودہ نظام میں نیچے سے اوپر تک خلق خدا کی خدمت کا جذبہ صحیح معنوں میں پروان چڑھا یقین کیجیے آپ کے اسی نظام کی تعریف میں خلق خدا زمین و آسماں ایک کر دے گی ، مسئلہ نظام سے نہیں نظام چلا نے والوں سے ہے ، آج قانون کی چابک کو بلا تفریق و بلا امتیاز حرکت میں لے آئیں ، دیکھ لیجیے آپ کا نظام کیسے صراط مستقیم پر چلنا شروع کر تا ہے ، ہمارا المیہ مگر یہ ہے کہ کسی بھی بیماری کو جڑ سے ختم کر نے کی طرف ہم نہیں جا تے یہی وہ کاہلی ہے جس سے آئے روز ہمارے معاشرے میں مزید مسائل جنم لے رہے ہیں ۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :