”طومار“

جمعرات 24 جون 2021

Ahmed Khan

احمد خان

سالا نہ میزانیہ پر حسب دستور قومی ایوان میں زوروں کی بحث چل رہی ہے اگر چہ ابتدا کے تین دن ایوان نما ئند گان میں شعلہ سالپک جا ئے ہے والا معاملہ چلتا رہا ، تین دن کی سیاسی ہلے گلے کے بعد اب کسی حد تک مناسب سیاسی درجہ حرارت میں سیاسی پہلوان لفظوں کے داؤ پیچ کھیل رہے ہیں،سابقہ حکومتوں کی طر ح انصافین حکومت سے جڑ ے وزراء اور حکومتی نما ئندے اس سال کے میزانیہ کو عوام دوست ثابت کر نے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں جواباً حزب اختلاف کی صفوں سے بھی نشتر برسانے کا سلسلہ خوب عروج پر ہے ، طر فہ تما شا مگر ماضی کے ادوار والا چل سو چل ہے ، حکومت اور حزب اختلاف کے اعلی دماغ سالانہ میزانیہ کے نکات پر لب کشا ئی کم اور ایک دوسرے سے ” چھیڑ چھاڑ “ زیادہ کر رہے ہیں ، ہوگا کیا سیاسی گر ما گر می اور ہا ؤ ہو کی گونج میں سالانہ میزانیہ منظور کر لیا جا ئے گا اور بس بات ختم ، سالا نہ میزانیہ دراصل حکومت وقت کی پالیسیوں کا عکس ہوتا ہے ، سالا نہ میزانیہ میں شامل منصوبوں اور ان کے لیے مختص رقومات سے اندازالگا یا جاسکتا ہے کہ حکومت وقت کو عوام کے مفاد سے کتنا اور کس حد تک لگا ؤ ہے ، اسی میزانیہ کے اعدادو شمار سے واضح ہو تا ہے کہ حکومت وقت اپنے اللوں تللوں پر کتنا خرچ کر رہی ہے اور عوام پر حکومت وقت کتنی مہرباں ہے ، عوامی فلاح کے منصوبوں پر حکومت وقت نے کتنا سر کھپا یا تر جیحی بنیادوں پر حکومت کے توجہ کے طالب عوامی معاملات کی سلجھن کے لیے حکومت وقت کے اعلی دماغوں نے عملا ً کیا کر نے کی منصوبہ بند ی کی ، عیاں سی بات ہے کہ حکومت وقت کے اپنے ہاتھوں تر تیب شدہ میزانیہ میں پا ئے جا نے والے سقم پر لب کشائی سے گریز پا ہی ہو نا ہے ، سالانہ میزانیے کی بخیے ادھڑ نے کا فرض عین حزب اختلاف کے سر ہوتا ہے ، حزب اختلاف کے کرم فر ما عر ق ریزی سے سالا نہ میزانیہ کا مطالعہ کر تے ہیں اور پھر ایوان زیریں اور ایوان بالا میں حکومت کی ” غائب دماغی “ کا گر ہ کھولتے ہیں ، مملکت خداداد میں لیکن جب سے سیاست کے گرد انا کا حصار کھینچ دیا گیا اس کے بعد سالانہ میزانیہ پر بحث محض خانہ پر ی کی شکل اختیار کر چکی ، حکومت وقت میزانیہ میں جو کچھ شامل کر لیتی ہے اس سے پیچھے ہٹنے کو اپنی ناکامی گردانتی ہے ، بسا اوقات اگر حزب اختلاف کی جانب سے کو ئی صائب تجویز آتی بھی ہے ، دیکھا یہ گیا کہ حکومت وقت عوامی مفاد کے حامل تجویز کو بھی حزب اختلاف کی ” فتح “ کے زمر ے میں سمجھ کر مسترد کر دیتی ہے ، نوے کی دہا ئی سے لے کر آج تک حکومتوں نے سالانہ میزانیے پیش کیے ان میں خال خال ہی حزب اختلاف کی سنی گئی ، سیاسی جماعتوں اور سیاست دانوں کی اس آمرانہ سوچ کے تنا ئج کیا نکلے یہ کہ جمہو ر کے اسی ایوان سے ہر سال عوام کو زک پہنچا نے والی پالیسیاں اور اقدامات بصورت میزانیہ پاس ہو تے رہے ، جن کے نفاذ سے عوام کی کمر دہر ی ہوتی چلی گئی ، جمہو ریت کے خوگروں کے خیال میں جمہوری طرز حکومت عوام کی حقوق کی بہترین نگہبانی کرتا ہے ، ہمارے دیس میں مگر آمرانہ سوچ کے حامل جمہو ریت پسند سیاسی جماعتوں نے اہل جمہو ر کے ارمانوں کا خون بھی اسی طرح کیا جس طرح آمر عوام کو اپنی آمریت میں ” ایک آنکھ “ سے دیکھتے رہے ، بے روز گاری کی شرح میں اضافہ جمہو ریت کے علم برداروں کے عہد زریں میں ہوا ، جمہو ریت کے دعوے داروں کی غلط پالیسیوں سے بے روز گاری اس وقت باقاعدہ قومی المیہ بن چکی ہے ، وطن عزیز کا کو ئی گھر ایسا نہیں جس کے دیواروں پر بے روز گاری بال کھو لے نہ سو رہی ہو ، گرانی کو پر بھی جمہو ری ادوار میں لگے ،لگے تیس سالوں میں کئی اقتدار میں آئے کئی اقتدار سے دامن جھاڑ کر چلتے بنے گرانی کا توڑ کر نے میں مگر ایک حکمران بھی کامران نہ ہوسکا ، غربت کے سیلاب کی اہم وجہ بھی حکمران قبیلے کی کامل طور پر غلط پالیسیاں بنیں ، لا قانو نیت کا ناسور بھی اسی دور میں خوب پھلا پھو لا ، عوام کس چاہ سے اپنے نما ئندوں کو ایوانوں میں پہنچا تے ہیں اپنے انہی نما ئندوں کے لیے اپنوں سے ناراضی پالتے ہیں ان کے دفاع کے لیے ہر چوک ہر چوبارے میں اپنے دماغ کا زیاں کر تے ہیں ، المیہ کہہ لیجئے یا کچھ اور ، جب عوام کے منتخب یہی نما ئندے ایوانوں میں پہنچتے ہیں پھر یہ اپنے حلقوں کے باسیوں کو یکسر بھو ل جا تے ہیں ، عوام کے نمائندہ حکمرانوں کے عہد میں عوام کے حقوق پر قدغن کیوں لگتی ہے ، اس لیے کہ عوام کے نما ئندے ایوانوں میں عوام کے مفادات کے لیے سر نہیں کھپاتے ، عوام کے حقوق کے لیے ایکا نہیں کر تے ، عہد حاضر کو ہی پر کھ لیجیے ، مان لیتے ہیں کہ حکومت وقت کو عوام کے مفاد کا رتی برابر خیال نہیں ، ایک تگڑی حزب اختلاف اگر چاہے تو حکومت کو عوامی مفاد کے باب میں ناکوں چنے چبوا سکتی ہے مگر خدا جھو ٹ نہ بلوائے تو ادھر کے تلوں میں بھی تیل نہیں سو ماضی کی طرح اب کے بار بھی طومار کو من و عن قبول کر نے کے لیے تیار ہو جا ئیے ، لگے سالوں کی طر ح گرانی بے روزگاری غربت اس سال بھی آپ کا مقدر ہیں ۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :