” یہ انداز خسردانہ کب تلک “

ہفتہ 17 جولائی 2021

Ahmed Khan

احمد خان

کسی بھی معاشرے میں انسانی اقدار کو پروا ن چڑ ھا نے میں خون دل جلانا پڑ تا ہے انسان کو انسانیت کے دائر ے میں ” قید “ کر نے کا سب سے پہلا فریضہ والد ین کے سر ہوا کرتا ہے بچے کی تربیت کی پہلی درس گاہ والد ین ہوا کر تے ہیں بچے کو اچھا ئی کی تر غیب اور برائی سے روکنے میں اپنا کر دار ادا کر تے ہیں جیسے ہی طفل درس گاہ جا نے کے قابل ہو تا ہے والدین اسے درس گاہ کو ” سونپ “ دیتے ہیں یہاں سے اساتذہ جو ہر قابل کی تعلیم و تربیت کے لیے اپنی تمام توانیاں صرف کر نا شروع کر دیتے ہیں یو ں درس گاہ سے نکل کر جب بچہ عملی زندگی میں قدم رکھتا ہے یہ وہ وقت ہوتا ہے جب بچہ بھلے طور پر نیکی اور بدی کی راہوں کو سمجھ چکا ہوتا ہے بلکہ اس پر یہ امر آشکار ہوتا ہے کہ نیکی کی جزا اور ” بہک پن “ کی سزا انسانی معاشرے میں رائج ہے ، اس کے بعد بھی اگر کو ئی فرد کسی منفی سرگرمی کا ارتکاب کر تاہے پھر ریاست کا کڑا قانون اس کے منفی طرز عمل پر قد غن لگانے کے لیے ہمہ وقت تیار ہو تا ہے ، مہذب معاشروں میں قانون کی عمل داری اور تابع فر مانی کا جادو سر چڑھ کر بولا کرتا ہے ، قانون کی نظروں میں شاہ اور گدا ایک ہوا کرتے ہیں دراصل قانون کی حکمرانی ہی انسانی معاشروں میں انسانی قدروں کو دوام بخشنے میں ریڑ ھ کی ہڈی کا کردار ادا کرتی ہے ، قانون منفی سرگرمی میں ملوث عناصر کو اپنے شکنجے میں جکڑتا ہے اور نظام عدل سرعت سے ایسے جرائم پیشہ عناصر کو سزائیں دیا کر تا ہے ، وطن عزیز میں مغرب اور اہل مغرب کی نظیریں حکمراں طبقے سے رعایا تک سبھی دیتے ہیں ، کیا مغرب میں فرشتہ صفت بستے ہیں قطعاً ایسانہیں اہل مغرب بھی ہمارے طرح کے گوشت پوشت کا وجود رکھتے ہیں ان کے احساسات و جذبات کم وپیش ادھر کے اولاد آدم والے ہیں ، مغرب اور ہمارے درمیاں فرق صرف اور صرف قانون کی عمل داری کا ہے ، اہل مغرب میں بھی چوریاں ہوتی ہیں قتل ہو تے ہیں مگر وہاں کا قانون جرائم پیشہ عناصر کے خلاف بلا امتیاز رنگ ونسل سرعت سے اپنے ہو نے کا عملی ثبوت پیش کرتا ہے ، مغرب کے بہت سے معاملات اور معمولات زندگی سے لاکھ اختلاف کی گنجا ئش مو جود ہے مگر قانون کی عمل داری میں مغرب ہم جیسے ممالک سے ہزار گنا آگے ہے ، قانون اور نظام عدل کی کار ستانی کہہ لیجیے کہ آج اہل مغرب کے ” طرم خاں ” باوجود کوشش اور خواہش کے قانون توڑ نے سے قبل ہزار بار سوچتے ہیں ، اب ذرا اپنے معاشرے کے معاشرتی معمولات پر نظر دوڑا لیجیے ، یہاں جس کا جب دل چاہے دوسرے کے حق پر ڈاکہ ڈال دیتا ہے یہاں جس کا دل کرتا ہے کھلنے بندوں دوسروں کے خون سے اپنے ہاتھ رنگین کر لیتا ہے ، یہاں جس کا جب دل چاہے دوسروں کا جینا حرام کر لیتا ہے ، ہما رے معاشرے کا تلخ سچ کیا ہے ، یہا ں کا ہر فرد اپنے سے کمزور اور کم تر کے لیے ” فر عون صفت“ ہے ہر طاقت ور اپنے سے کمزور کے ساتھ کھلواڑ کر نے کو فخر سمجھتا ہے ، ایسا کیوں ہے ، ہمارے معاشرے میں نئی نسل کی تر بیت باقاعدہ بحران کی شکل اختیار کر چکی ، والدین نئی نسل کی تر بیت پر اب وہ توجہ نہیں دیتے جس طر ح کا تقاضا معاشرہ اور دین حنیف کر تا ہے ، برائمری سے اعلی درس گاہوں تک اب تعلیم و تربیت دینے کی بجا ئے محض ڈگریاں دینے کی دکانیں بن چکیں ، ہمارے ہاں قانون غریب کے لیے مکڑی کا جالا اور طاقت ور کا ” رکھوالا “ بن چکا ، معاشرے میں قانون کی گرفت میں آنے کا خوف اریب قریب آخری سانسیں لے رہا ہے ، معاشرے میں قانون کی گرہ ڈھیلی پڑ جا نے کے بعد چھوٹے بڑے جرائم کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہوتا جا رہا ہے ، ہر روز ایسے ایسے جرائم ہو رہے ہیں کہ درد دل رکھنے والوں کا دل خوں کے آنسو روتا ہے ، نوحہ مگر یہ ہے کہ قانون کے ہوتے ایسا کیوں ہو رہا ہے ، تو سن لیجیے ، اگر معاشرے کی ” ہاہا کار “ سے کو ئی جرائم پیشہ قانون کی گرفت میں آبھی جاتا ہے وطن عزیز میں رائج نظام عدل میں پا ئے جانے والے سقم اور سست روی سے جرم کا ارتکاب کرنے والا چند دنوں بعد آزاد فضاؤں میں پھر سے سینہ چوڑا کر کے مظلوموں کے سینوں پر مونگ دل رہا ہوتا ہے ، عیاں سی بات ہے ، لاکھ چیخیں لاکھ روئیں پیٹیں جب تلک وطن عزیز میں محمود و ایاز کے لیے قانون ایک نہیں ہوگا جب تک نظام انصاف میں پائے جانے والے سقم اور نقائص دور نہیں کیے جاتے ، حاکم لاکھ دعوے کریں عام شہری کے ساتھ ستم بالا ئے ستم ہوتا رہے گا اور طاقت ور طاقت کی بیساکھیوں کو استعمال کر کے ستم کرتا رہے گا ۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :