”دیانت داری کے لیے بھی ایک عمر چاہیے جاناں“

منگل 17 اگست 2021

Ahmed Khan

احمد خان

جناب فیاض الحسن چوہان پھر سے ” ادھر سے ادھر “ کے احکامات کی نذر ہو گئے اب تو شاید وزیر مو صوف کو بھی یاد نہ ہو کہ کتنی بار انہیں یہاں سے وہاں اور وہاں سے یہاں سے کی ذمہ داریاں سونپی گئیں ، مرکز اور پنجاب میں اختیار کے وصف سے لیس ہنر مندوں کا پسندیدہ مشغلہ کسی حد تک اکھاڑ بچھاڑ ہی رہا ہے ، حکومت وقت اقتدار کے آخری سالوں میں داخل ہوچکی ہنوز مگر حکومت وقت کے اعلی دماغ اپنے ” کھلا ڑ یوں “ کے مقام اور مر تبوں میں ادھر سے ادھر کا سلسلہ جاری رکھے ہو ئے ہیں ، لا ئق فائق وزیر کو بھی کسی محکمہ کو سمجھنے اور سنبھالنے کے لیے کچھ وقت درکار ہوتا ہے کم وپیش ابتدائی چند ماہ اسے اپنے محکمے کے اوصاف حمیدہ اور خامیوں کے ادراک میں لگتے ہیں اس کے بعد وہ متعلقہ محکمہ کو اپنی منشا اور پارٹی مفاد کو مد نظر رکھتے ہو ئے اس میں تغیر و تبدل کی راہ اپناتا ہے ،کس افسر کو کہاں لگا نا ہے کس افسر کو کہاں سے ہٹا نا ہے کس افسر کو کلیدی عہدے پر تعینات کر نا ہے ، اس کے محکمہ کے کون سے افسران حکومت وقت کے اہداف کے حصول میں رکاوٹ بن رہے ہیں گویا ایک محنتی اور لگن والے وزیر کے ابتدائی ماہ ان وزارتی امور کی نذر ہو جا تے ہیں اپنی وزارت کے ان امور کو بھلے طر ح سے ” ازبر “ کر نے کے بعد متعلقہ محکمہ کا وزیر اپنے محکمے میں نئی پا لیسیوں اور اقدامات کے نفاذ کی ر اہ اپنا تا ہے ، مر کز اور پنجاب میں مگر وزیروں کی اکھا ڑ بچھاڑ کا ایسا سلسلہ چل سوچل ہے جو کسی صورت تھمنے کا نام نہیں لے رہا ، اس سے ملتی جلتی صورت حال انتظامی سطح پر بھی تواتر سے دیکھی جارہی ہے تحریک انصاف نے جیسے ہی زمام اقتدار اپنے ہاتھ لیا افسران کو ادھر سے ادھر کر نے کا گویا ایک طوفان بر پا ہو ا، ایک نہیں دو نہیں تین نہیں بلکہ کئی بار وسیع پیمانے پر مرکز اور پنجاب کے افسران تقر ر و تبادلوں کی زد میں رہے انتظامی سطح پر کلیدی عہد وں پر کافی عر صہ تک افسران کو ٹکنے نہیں دیا گیا ، پنجاب میں ” افسر اعلی “ جیسے اہم عہدے پر کتنے آئے اور کتنے گئے شاید اس معاملے میں سیاست اور حکومت پر نظر رکھنے والوں کی یاد داشت بھی ان کا ساتھ نہ دے ، خدا خدا کر کے لگے چند ماہ سے حکومتی سطح پر جاری اس ” ردھم “ میں کچھ کمی واقعی ہو ئی ہے ، مر کز میں کم و پیش یہی حال تھا ، کے پی کے اور بلو چستان اس قضیے میں قدرے خوش نصیب واقع ہو ئے ، کسی بھی وزیر کی وزارتی کا رکردگی جانچنے کے لیے کم از کم چھ ماہ کا عرصہ درکار ہو تا ہے عین اسی طرح کا معاملہ انتظامی عہدوں پر فائز افسران کا ہوا کرتا ہے ، عام طور پر وزارتوں کو سیکر ٹری سطح کے افسران چلا تے ہیں بجا کہ سیکرٹری سطح کے افسران انتظامی عہدوں سے ” انصاف “ کر نے میں ایک طویل عرصہ گزار چکے ہو تے ہیں اس وصف کے باوجود مگر کسی محکمے کے بطور سیکرٹری تعیناتی کے بعد اسے کم از کم اپنی وزارت کی ” رموز اوقاف “ سمجھنے میں کچھ وقت لگتا ہے ، ، پہلے پہل وہ اپنے اردگرد تعینات اپنے ماتحت افسران کی جانچ کر تا ہے کہ ان میں سے کتنے افسران اس کے مزاج اور امور کی انجام دہی میں آسانی کا باعث بننے والے ہیں اور کو ن سے افسران اس کی راہ میں رکاوٹ ڈالیں گے اس کے بعد وہ اضلاع کی سطح پر افسران کی پر کھ کر تا ہے ، یہ اہم تر ” پل صراط“ طے کر نے کے بعد وہ اپنے ماتحت افسران کو لگا نے اور ہٹا نے کا فعل سرا نجام دیتا ہے اس کے بعد کہیں جاکر اس محکمے میں حکومتی اقدامات اور پالیسیوں کے نفاذ کاسفر شروع ہو تا ہے ، انصافین حکومت نے لگے تین سالوں میں ما سوائے چند افسران کے کسی کو ٹکنے نہیں دیا، کچھ ماہ بعد وسیع پیما نے پر اوپر سے نیچے تک افسران کے ” لگا ؤہٹا ؤ “ کا بازار گرم ہو تا تھا ، ایک وقت ایسا بھی آیا کہ جہاں دیدہ افسران ہر وقت اپنا بوریا بستر تیار رکھتے تھے کہ مباد ا اگلے آنے والے منٹ میں ان کے تبادلے کا پروانہ انہیں ہاتھ میں تھما دیا جا ئے ، دراصل ہوا کیا ، تحریک انصاف نے نظام کے ” پیادوں “ سے کس طرح سے کام لینا تھا،سرکار کے کس مہر ے کو کس اہم عہدے پر تعینات کر نا تھا ، حکومت کے دانا دوستوں نے اس اہم تر معاملے پر مغز کھپا ئی کی زحمت تک نہیں کی ، تحریک انصاف کے اعلی دماغوں کو حالات کی نزاکت کا احساس اس وقت ہوا جب کا تب تقدیر نے زمام اقتدار و اختیار ان کے ہاتھ میں دے دیا ، اس کے بعد اگر چہ تحریک انصاف سے جڑے اہم ترین اکابرین نے نظام کو صائب طور پر چلا نے کے لیے ہاتھ پاؤ ں خوب مارے مگر انصافین حکومت کی ” نظام “ سے وابستہ تو قعات پو ری نہ ہو سکیں ، دوسری جانب نظام پر ڈھیلی گرفت کی وجہ سے عوامی حلقے بھی حکومت سے نالاں دکھا ئی دیے ، کاش تحریک انصاف زبانی جمع تفریق کے بجا ئے عملی طور پر اس معاملے پر توجہ دیتی ، تحریک انصاف کے احباب بروقت نظام کو بہتر انداز میں چلا نے کے لیے سر جو ڑتے شاید انتظامی سطح پر آج اس طر ح کی ” ہڑ بونگ “ عوام اور تحریک انصاف کا مقدر نہ بنتی مگر اب کیا ہوسکتا ہے وقت ریت کی مانند مٹھی سے سرکتا جا رہا ہے ۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :