”چار آنے“

پیر 11 اکتوبر 2021

Ahmed Khan

احمد خان

نیب اختیارات میں حسب منشا کمی پیشی کی صدائیں کافی عرصہ سے سنا ئی دے رہی تھیں صدارتی حکم نامے کے تحت وہ اب حقیقت کا روپ دھار چکیں ، نیب کو اپنی مر ضی کے ہالے میں ڈھالنے کی آرزو میں آخر کار طبقہ شرفاء کامران ٹھہرا، نیب قوانین میں صدارتی حکم کے ذریعے طبقہ اشرافیہ نے اپنے لیے وہ تمام راستے کھول دئیے جن بند راستوں کی وجہ سے کل کلاں انہیں مالی بد عنوانی کی وجہ سے قانون کی حاکمیت کی ہتھکڑی لگنے کا خدشہ تھا ، محصولات کے حساب کتاب کا پتا سرے سے کاٹ دیا گیا، محصولات کی ادائیگی اور سرکار کی طرف سے عائد محصولات میں ” الجھ پھیر “ کر نے پر اب نیب کو جرات نہیں کہ بڑے مگر مچھوں سے پو چھ سکے کہ حضور کھربوں کما رہے ہیں اور محصولات کے نام پر سرکار کو چند ٹکے بھی ادا نہیں کر تے ، نیب قوانین میں حالیہ ” نوک پلک “ کی دھمک کو عر ق ریزی سے پرکھنے کے بعد جو بات سامنے آتی ہے وہ یہ کہ طاقت وروں نے نیب کے پر اس فن کاری سے کاٹ دئیے ہیں جس فن کاری کے بل پر سات آٹھ دہا ئیوں سے یہ قوم لوٹ رہے ہیں ، اب حکومت میں بیٹھ کر جس طرح کے معاہدے پر دھان کر یں ان معاہدوں اور منصوبوں سے جو وصولیاں جو ادائیگیاں کر یں محصولات کے باب میں جو چاہیں کھلواڑ کر یں نیب ان کی فن کاریوں کو دیکھ سکے گا لیکن نیب ان کے فن کاریوں پر ہاتھ ڈالنے سے محروم رہے گا ، نجی ساہو کاروں کے بھی نئے ترامیم کی وجہ سے خوب وارے نیارے ہو گئے ، عام شہر ی نجی سطح پر مالی بد عنوانی اور لوٹ کھسوٹ کے معاملات نیب میں لے جاتے اب اس پر بھی کسی حد تک ”ململ“ ڈال دی گئی ، نیب قوانین کے ترامیم کے باب میں عقل کل والوں کا کہنا ہے کہ نیب کے خوف سے سرکاری امور میں سست روی کا عنصر غالب تھا ، سرکار کے افسران کسی بھی معاملے کو ہاتھ میں لینے سے گریزاں تھے ، ایک نکتہ آفریں یہ بھی تواتر سے بیاں کیا جارہا تھا کہ حکومت کے عہدے دار بھی نیب کے خوف سے دلیرانہ فیصلوں میں پس وپیش سے کام لیتے ہیں ، سرکار کی سطح پر حکمراں قبیلے اور افسر شاہی میں پا ئے جانے والے ” نیب خوف “ کی وجہ سے نیب قوانین میں حالیہ ترامیم کی گئیں ، سیاست کے ” عطاروں “ کی شعلہ بیانی اور منطق پر قربان جا ئیے اپنے مفادات اپنی بچاؤ کے لیے کیسے کیسے حیلے کیسے کیسے بہا نے کیسی کیسی تاویلیں گھڑ لیتے ہیں ، سادی سی بات ہے جو افسران قانون کے ضابطوں اور قاعدوں کو سامنے رکھ کر مختلف منصوبوں کی منظوری دیتے ہیں کسی منصوبے کے آغاز سے اختتام تک ایک پیسے کو ادھر سے ادھر نہیں کر تے انہیں کیو نکر نیب کا خوف دامن گیر ہوگا، ان پر نیب کیوں ہاتھ ڈالے گا ، ایسا ہی معاملہ وزیروں مشیروں کبیروں کا ہے کسی بھی محکمہ کا وزیر اگر آئین اور قانون کے نکتوں کو سامنے رکھ کر سرکار کے مالیاتی امور پر دستخط ثبت کر ے گا ایسے حکومتی عہدے دار کو نیب کیوں شکنجے میں لے گی ، معاملہ دراصل اتنا سیدھا نہیں جتنا ہمارے قدر دان اسے جلیبی کی طر ح سیدھا بیاں کر نے میں اپنی توانیاں صرف کر رہے ہیں ، ہو تا کیا ہے ، بڑے بڑے منصوبوں میں عوامی عہدوں پر متمکن اپنے دام کھر ے کر تے ہیں ، کسی بھی منصوبے کو چل سو چل کر نے سے قبل یہ سوال کیا جاتا ہے ، ہمیں کیا دو گے ، دراصل ہمیں کیا دو گے کے عنصر نے ہی وطن عزیز کے خزانے اور عوام کو وہ چونا لگا یا ہے جس کی وجہ سے وطن عزیز قرضوں کی دلدل میں بری طرح سے پھنس چکا ، اپنی جیبوں کو بھرنے کے لیے ملکی خزانے کو بے دردی سے استعمال کیا گیا ، کسی حکمران نے کم کسی نے زیادہ یہ امر مگر اپنی جگہ مسلم کہ ہردور کے حکمراں نے کسی نہ کسی طور ہمیں کیا دو گے کے ذاتی منفعت کے منشور پر عمل ضرور کیا ، لگے چند سالوں سے نیب کی ذرا حد سے زیادہ سر گرمیوں نے طبقہ اشرافیہ کو پر یشان کر کے رکھ دیا تھا ، طاقت کے سر چشموں کو نیب کی چابک دستی آنکھوں میں کٹک رہی تھی طاقت وروں کی اس اکتاہٹ کا نتیجہ آخر کار نیب قوانین میں حالیہ ترامیم کے بعد سامنے آگیا ، کیا جارہا ہے کہ نیب اختیارات کے ” قطع و برید “ سے کو ئی فرق نہیں پڑ ے گا جن امور کے باب میں نیب کے اختیارات کو محدود کیا گیا ان مالیاتی امور کی ” دیکھ بھال “ کے لیے دوسرے ادارے پورے طمطراق کے ساتھ موجود ہیں ، حضور اگر یہ ادارے اپنے فرائض کی انجام دہی میں کمال دکھلاتے پھر نیب جیسے ادارے کے قیام کی ضرورت ہی پیش نہ آتی ، متذکر ہ ادارے اپنے فرائض کی ادائیگی میں نا مراد رہے تبھی نیب جیسے ادارے کی داغ بیل ڈالی گئی ، بجا کہ نیب کے اختیارات سے تھوڑے بہت مسائل پیدا ہو رہے تھے لیکن مجموعی طور پر نیب کے تگڑے پن سے طاقت ور وں کو زیادہ نہیں تو کم از کم قانون کے جالے میں پھنسنے کا روپے میں چار آنے کا ڈر لا حق تھا ، حالیہ ترامیم کے بعد تو اب چار آنے کا ڈر بھی ختم ہو چکا ، آنے والے سالوں میں طبقہ اشرافیہ کیا گل کھلا تا ہے زندگی رہی تو اسی رہ گرزر پر سب دیکھیں گے ۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :