جدت کے ساتھ ساتھ کچھ نئی اقدار بھی ہماری سماجی زندگیوں کا جز لازم بن گئیں ، انفرادی زندگی میں ایک رویہ جو در آیا وہ یہ ہے کہ اپنے عز یز رشتہ داروں دوست احباب ملنے جلنے والوں کے آپ کام آتے رہیں ان کے لیے ہر معاملے ہر قضیے میں دل دکھا تے رہیں ان کی بے لو ث ہر مشکل میں مدارات کر تے رہیں سہواً اگر کسی ایک معاملہ میں آپ ان کے کام نہ آسکیں بس اس کے بعد آپ کے احباب آپ کے ساتھ جو کر تے ہیں ، آپ تو رہے ایک طرف اچھے بھلے چارہ گرہ کے پاس بھی اس کا علا ج نہیں ہو تا ، دوسری اہم سماجی قدر جو روز مر ہ سما جی زندگی کا حصہ بن چکی وہ یہ کہ جہاں کہیں ” دو چار “ کی محفل سجتی ہے حاضرین ” غائبین “ کے گن گانا شروع کر دیتے ہیں اپنے دامن کو خواہ مخواہ دوسروں کی غیبت سے داغ دار کر نا گویا سما ج کا اہم رواج بن چکا ، ایک اہم سماجی المیہ جس نے لگے چند سالوں میں تیزی سے باقاعدہ رسم کی شکل اختیار کر لی ہے وہ بعد از وفات مر حوم کی شان میں زمین و آسماں ایک کر دینا ہے انفرادی سطح پربھی یہی رسم خوب پھل پھول چکی ہے زندگی میں بطور فرد ہمیں اپنوں کا احساس تک نہیں ہوتا ان کی زندگی میں انہیں اہمیت دینا تو درکنار دو میٹھے بول بولنا گوارہ نہیں کر تے جیسے وہ دنیا سے رخصت ہو تا ہے اس کے بعد اس سے ” تعلق خاطر“ کا ڈھول گلے میں ڈال کر بس اسے پیٹے ہی جاتے ہیں اس کی شان میں ایسے ایسے قصیدے بیاں کیے جاتے ہیں کہ تو بہ ہی بھلی ، عین اسی طر ح کا معاملہ اجتماعی سطح پر بھی چل سوچل ہے ، بڑی نامی گرامی ہستیاں بڑے بڑے نام جنہوں نے ملک وقوم کی خاطر اپنا خون دل جلا یا لیکن ان کی دل جو ئی کے لیے ان کے جیتے جی ایک لفظ بولنا گوارا نہیں کیا جاتا ، کتنے ہی ایسی ہستیاں ہیں جن کے بطور قوم ہم ہمیشہ مقروض رہیں گے ان عالی مرتبت ہستیوں نے صرف اور صرف وطن کی شان میں اضافہ کر نے کے لیے اپنی زندگیاں واریں لیکن بطور قوم ہم میں سے کسی کو بھی ان شخصیات کی زندگیوں میں ان کا ادراک پاس بلکہ احساس تک نہیں ہوتا ، جیسے ہی ان میں سے کو ئی راہی عدم ہوتا ہے ہر سو سے جنت کی راہ سدھا رنے والے کی شان میں لفظوں کی چاندی سے مزین تحریریں اور پیغامات کا طوفان بر پا ہو جاتا ہے ، محترمہ بے نظیر قومی شخصیات میں سے ایک تھیں جیسے چن چن کر زک پہنچائی گئی جیسے مگر محترمہ اس دنیا سے وداع ہو ئیں محترمہ کی شان میں اور تو اور ان کی زندگی کو اجیرن بنا نے والوں نے وہ قصیدے پڑ ھے کہ بندہ کہے تو کیا کہے ، حالیہ دنوں میں وطن کے عظیم سپوت ایک نفیس اور قوم کے محسن ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی وفات حسرت حیات کے معاملے پر بھی ایسا ہی کچھ دیکھنے سننے کو ملا ، ڈاکٹر صاحب لگے پندرہ بیس سالوں سے کس جبر کا شکار تھے ملک و قوم کے سوداگروں نے محض اپنے دام کھر ے کر نے کے لیے ان کے ساتھ کتنا ظلم کیا ان کی زندگی کو کس طرح سے مشکلات کے دلدل میں دھکیلا ، ان پندرہ بیس سالوں میں قوم کے چھو ٹے بڑے مگر ڈاکٹر صاحب کے حق میں کتنا بولے ، قوم کے ارسطوؤں نے ڈاکٹر صاحب کے ساتھ ہو نے والی نا انصافیوں پر کتنی صدا ئے احتجاج بلند کی ، تلخ سچ کیا ہے ،عام شہر یوں سمیت حق کے بڑے بڑے داعی خاموش رہے اور ڈاکٹر صاحب جبر کی سزا کا ٹتے کا ٹتے اگلے جہاں سدھار گئے ، جیسے ہی ڈاکٹر صاحب کی آس اور سانس کی ڈوری ٹو ٹی بس پھر ڈاکٹر صاحب کی شان میں روایتی قصیدوں کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوا ، خدا کے بندوں اگر ڈاکٹر صاحب کی زندگی میں ایسی صدائیں بلند کر تے شاید وطن کے سوداگروں کو ڈاکٹر صاحب کو چھو نے کی ہمت نہ پڑ تی ، خدا را مفادات اور منافقت کی پٹی اپنی آنکھوں سے اتار لیجیے ، حق کو حق اور جھوٹ کو جھوٹ کہنے کا حوصلہ اپنے اندر پیدا کیجیے ، قوم کے محسنوں کو ان کی زندگیوں میں عزت دینا سیکھیے ان کی پو جا ان کی زندگیوں میں کیجیے ، ان کے احتشام کو ان کی زندگیوں میں اپنا شیوہ بنا لیجیے ، جو قوم اپنے محسنوں کو عزت کر نا بھول جاتی ہے اقوام عالم ان سے اپنی ” عزت “ کرواتی ہے اور خوب کرواتی ہے ، ریاکاری منافقت سے کچھ حاصل ہو نے والا نہیں، چالاک بننے کے بجا ئے اپنے اسلاف کے ان اقدار کو پھر سے زندہ کیجیے جن اقدار کے بل بوتے پر معاشرہ سماجی اخلاقی اور مادی لحاظ سے ترقی کے منازل طے کیا کرتا ہے ، ، معاشرے کی ترقی کا انحصار انسانی رویوں اور انسانی اقدار پر ہوا کرتا ہے جب تک انسانی اقدار کو معاشرے میں عروج نہیں ملے گا معاشرے میں ” گھن چکر “ کاسلسلہ اسی طر ح چلتا رہے گا ، آزمائش شرط ہے ۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔