” باقی آپ سمجھ دار ہے“

منگل 7 دسمبر 2021

Ahmed Khan

احمد خان

مد خان
منڈی بہا ؤ الدین کا واقعہ پوری جز یات کے ساتھ سامنے آچکا ، ضلع کے بادشاہ اور اس کے ” نا ئب “ کو معزز جج سیشن جج نے ایک مقدمے میں سزا سنا ئی جواب آں غزل کی ْصورت ضلع کی سطح کے صاحب بہادر اور اس کے نائب کے ہم دردوں نے جو حشر برپا کیا ، اس کی شر منا کی سب کے سامنے عیاں ہو چکی ، یاد رکھیے ضلع کا ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنر صاحبان کا تقرر کسی بھی ضلع کے انصرام کو بہترین قرینے سے رواں رکھنے کے لیے کیاجاتا ہے ، قاعدہ اور ضابطہ ہمیں یہ بتا تا ہے کہ ضلع کی سطح پر ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنر قانون کے مہا رکھوا لے ہوا کرتے ہیں ، پورے ضلع کی کمان ڈپٹی کمشنر کے ہاتھ ہوا کرتی ہے ان کی زیر نگیں اسسٹنٹ کمشنر صاحبان عین اسی طر ح ہر تحصیل کے قانوناً ” مائی باپ “ہوا کر تے ہیں ، کسی بھی ضلع میں قانون کی حاکمیت کا انحصار وہاں کے ضلع کے صاحب بہادر کے ذمہ ہوا کرتا ہے ، ضلع کی سطح پر ہر محکمہ ہر شعبہ ڈپٹی کمشنر کی ناک تلے اپنے فرائض سر انجام دیا کر تا ہے ، اہم تر بات یہ ہے کہ جہاں کہیں کو ئی ” طرم خا ں “قانون کی رسی ہاتھ میں لیتا ہے اس کے خلاف مظلوم ڈپٹی کمشنر سے رجوع کر تے ہیں اور بھلے وقتوں میں ڈپٹی کمشنر صاحبان بے کس کی داد رسی اپنا فر ض سمجھ کر سرعت سے کیا کرتے ، یو ں ایک طرف متعلقہ ضلع کے ڈپٹی کمشنر کی انسان دوستی سے بہت سے مظلوموں کی اشک شوئی بروقت ہو جایا کرتی دوسری جانب اس ڈپٹی کمشنر کی وضع داری انسان دوستی اور قانون پسندی کی صفت خلق خدا کی زباں پر رواں ہو جا یا کرتی ، نوے کی دہائی تک ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنر کے عہدوں پر متمکن رہنے والے زیادہ تر صاحبان اپنے عہدوں سے ” انصاف “کی بدولت خلق خدا سے خوب داد سمیٹتے رہے ، لگے دو عشروں میں لیکن ان عہدوں پر بلا سوچے سمجھے ایسے کر م فر ماؤں کا ” ریلہ “ تعینات ہو نا شروع ہوا ، وضع داری انسان دوستی اور خلق خدا سے محبت گو یا ان کی سر شت میں ایک طرح سے شامل ہی نہ تھی ، ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنر کے عہدوں پر تعینات ہو نے والوں نے خود کو واقعتاً عوام کے خدمت گار کے بجائے ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنر تصور کر نا شر وع کر دیا ، کر سی کی چمک اور کر سی سے محبت نے ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنر کے عہدوں پر براجمان ہو نے والوں کو عوام اور عوامی خدمت سے کو سوں دور کر دیا ، ان عہدوں پر کروفر فرعونیت اور انسان بے زار افسران کے تقرر نے جہاں ان اہم ترین عہدوں کی عزت کو داغ دار کیا وہی عوام بھی انتظامی طور پر ”یتیم “ ہوتے چلے گئے ، ایک وقت وہ تھا جب ہر لا چار اور بے کس کی رسائی ان عہدوں پر براجمان افسران تک حد درجہ آساں تھی ، جیسے ہی ڈپٹی کمشنر یا اسسٹنٹ کمشنر کو معلوم ہوتا کہ ان کے دروازے پر سائل آیا ہے وہ اپنے تمام امور کو یکسر میز کے دوسری جانب کسکا دیتے اور سائل کی فر یاد نہ صرف پورے انہماک سے سنتے بلکہ فوراً سے پیشتر سائل کے معاملے کے حل کے احکامات بھی صادر کر دیا کرتے ، حال کے آئینے کی سینے میں لیکن سب کچھ مادیت پرستی جھوٹی انا رعونت اور کرسی کی کشش کی نذر ہوچکا ، کہاں وہ ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنر صاحبان جو شائستہ زباں میں بات کر تے کہاں اب کے صاحب بہادر جن کا ” انداز گفتگو“تک بھی عامیانہ ، انتظامی عہدوں پر تقرر اور تبادلوں میں سفارش اور پس پر دہ ” خفیہ ہاتھوں “ کی کر شموں نے ان اہم ترین عہدوں کو بے تو قیر کر دیا ہے ، ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنر کے عہدوں کی بے توقیری کے نتائج بے حد خوف ناک بر آمد ہو رہے ہیں ، ان اہم ترین افسران کی انتظام و انصرام میں صفر بٹا صفر دل چسپی کی وجہ سے کم وپیش ہر ضلع میں عجب سی افراتفری کا ساساماں ہے ، جن کا کام قانون کی حاکمیت کو یقینی بنا نا ہے ان کی عدم دلچسپی کی وجہ سے ضلع کی سطح پر امور کچھوے کی چال سے انجام پذ یر ہو رہے ہیں ، ضلع کی سطح پر سرکار کے باقی محکموں اور شعبوں کی حالت زار بھی بیاں سے باہر ہے گو یا ہر محکمہ اور اس کے افسران عملا ً بادشاہ بن بیٹھے ہیں ، عام شہری اپنی ساتھ ہو نے والی نا انصافی کی فر یاد کر یں تو کس سے کر یں ، دل کے کاغذ پر نوٹ کر نے والی بات کیا ہے ، یہ کہ جب تک ضلع کی سطح پر قانون کی پاسداری کا چلن عام نہیں ہوتا اس وقت تک معاشر ے میں قانون کی حاکمیت کا خواب شر مندہ تعبیر نہیں ہو سکتا ، سو خالی خولی نعروں اور دعوؤں کے بجا ئے سب سے پہلے ضلع کی سطح پر قانون کا قبلہ درست کر نے کی سعی کیجیے اگر واقعی قانون کی حکمرانی چاہتے ہیں ۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :