شاہراہ کنارے دکھوں کی پوٹلی اٹھائے بڑھیا‎

جمعرات 24 ستمبر 2020

Ali Asjid Taifoor

علی اسجد طیفور

دو دن پہلے مجھے اپنے کسی کام سے دریائے چناب کے کنارے واقع ایک گاؤں جانا تھا۔تو میں اپنی منزل کی طرف چل دیا۔اب اگر غالب ہوتے تو شاید گھوڑے پر سفر کرتے اور اگر سعادت حسن منٹو ہوتے تو وہ یقینا ٹانگے پر سوار ہوتے مگر ہماری ایسی قسمت کہاں ہم تو چار پہیوں والی کار پر سوار تھے۔ابھی ہم اپنے سفر کے راستے میں ہی تھے کہ ایک ادھیڑ عمر بڑھیا نے ہاتھ کا اشارہ دے کر ہمیں روکنے کی کوشش کی۔

ادھیڑ عمر  بڑھیا تھی اس لیے ہم نے گاڑی روک لی بڑھیا نے پنجابی میں کہا "پتر مینوں وی لئی چل"۔بڑھیا کے لہجے میں اپنائیت اور بے کسی تھی۔میں نہ نہیں کہہ سکا میں نے کہا ماں جی بیٹھ جائیں اور بڑھیا گاڑی میں بیٹھ گئی۔میں نے کہا ماں جی آپ کہاں سے واپس آ رہی ہیں تو اس بڑھیا نے اپنے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے کان کی طرف توبہ سا اشارہ کرکے کہا بیٹا زندگی بڑی مشکل ہے۔

(جاری ہے)

میں متجسس ہو گیا میں نے کہا کیوں ماں جی زندگی میں ایسی کیا مشکلات چل رہی ہیں۔تب بڑھیا نے اپنی دلدوز کہانی مجھے سنانی شروع کردی۔ کہ بیٹا میرا فرزند 18 سال پہلے قتل کے جھوٹے مقدمے میں پکڑا گیا تھا  اس سے ملاقات تھی وہ کرنے گئی تھی۔میں نے کہا ماں جی آپ کے بیٹے کی ضمانت کیوں نہیں ہوئی بڑھیا نے کہا کہ بیٹا ضمانت ان کی ہوتی ہے جن کے پاس اثرورسوخ ہوتا ہے جن کے پاس پیسہ ہوتا ہے.مگر بدقسمتی سے میرے بیٹے کے مقدمے کے پیچھے چلنے والا کوئی نہیں ہے نہ اس کا کوئی بھائی ہے کیونکہ وہ میرا اکلوتا بیٹا ہے۔

اس کا باپ بہت عرصہ پہلے ہمیں زندگی کے پر پیچ راستوں میں اکیلا چھوڑ کر چلا گیا۔اب کی بار میں پورے انہماک سے عورت کا قصہ سننے لگا۔ اور غور سے اس کی طرف دیکھنے لگا۔بڑھیا کی آواز میں لرزش تھی گویا کسی نے اس کا دل نکال کر باہر رکھ دیا ہو۔ اس کی جھریوں سے وقت کا ستم صاف دکھائی دے رہا تھا اور ساتھ ہی ساتھ اس کی آنکھوں سے نمکین آنسو ایسے گر رہے تھے جیسے کسی تازہ زخم پر کوئی نمک چھڑک رہاہو۔

میں نے بڑھیا سے پوچھا کہ کیا آپ کے بیٹے کی شادی ہوئی ہے۔بڑھیا نے کہا جی ہاں جب وہ جیل گیا تو اس وقت نہ کہ صرف اس کی شادی ہوئی تھی بلکہ اس کے دو بچے بھی تھے ایک لڑکا اور ایک لڑکی۔میں نے کہا کہ کیا وہ پڑھتے ہیں۔ بڑھیا نے کہا کہ باؤلے ہوگئے ہو کیا پڑھائی پیسوں سے ہوتی ہے اگر میرا پوتا دیہاڑی نہیں کرے گا تو ہم سب کا گزر بسر کیسے ہو گا۔ اور اگر وہ دیہاڑی کرے وہ کیسے پڑھ سکتا ہے۔

بڑھیا کا جواب سن کر مجھے یوں محسوس ہوا کہ جیسے نذر محمد راشد نےحسن کوزہ گر میں کہا تھا کہ "محبت امیروں کی بازی ہے" اسی طرح شاید پڑھائی بھی امراء کا کام ہے غریب لوگوں کے بس کی بات  نہیں۔میں نے بڑھیا سے پوچھا کہ اٹھارہ سال سے تم اسی طرح کھجل خوار ہو کر اپنے بیٹے سے ملاقات کے لیے جاتی ہو۔بڑھیا نے کہا کہ بیٹا میں ممتا کے ہاتھوں مجبور ہوں گو کہ میرا بڑھاپا اب یہ بوجھ اٹھانے سے عاری ہے مگر میری ممتا مجھے کھینچ کر میرے بیٹے سے ملاقات کے لیے لے جاتی ہے۔

بڑھیا کا یہ سارا قصہ سن کر میری آنکھوں سے اشک رواں تھے۔اس سے پہلے کہ میں اس واقعے کی اور روداد سنتا بڑھیا نے کہا بیٹا میرا گھر آ گیا ہے مجھے یہیں پر اتار دو۔بڑھیا کے اترنے کے بعد میرے زہن  میں یہ سوال ابھرنے لگا کہ نہ جانے کتنی ایسی مائیں ہمارے عدالتی نظام کی وجہ سے بے کسی کی مجسم تصویر بنی ہوئی ہیں۔نہ جانے کتنی مائیں فقط اس امید پر ایوان عدل کی زنجیر ہلاتی ہیں کہ ان کے لال کو رہائی مل جائے مگر ججوں کے پاس ان کے لالوں کے مقدمات سننے کا ٹائم نہیں ہوتا ہوگا تو یاس کے آثار اپنے چہرے پر سجائے نہ جانے رب کے آگے کیسا شکوہ کرتی ہو گی۔

جب بچے ہمارے نظام انصاف کی وجہ سے اپنے باپ کی شفقت سے محروم ہوتےہیں تو ان کی آنکھوں میں کتنے سوال نقش ہونگے۔مگر یہاں بات صرف ایک شعبے کی نہیں بلکہ تمام شعبے ہی انحطاط کا شکار ہیں۔ تھانہ کلچر کی وجہ سے لوگ پولیس سے خوف کھاتے ہیں۔اس معاشرے میں عورت کا استحصال ہوتا ہے۔ مگر بدقسمتی سے شہر میں آپ کو ناصحوں کی کمی محسوس نہیں ہوگی۔واعظ آپ کو اپنے وعظ سے یہاں بہرامند ضرور  رکھے گا۔

منبر سے صدائے حق بلند کرنے والے ہی مدرسوں میں بچوں کے ساتھ زیادتی کریں گے۔غرض کے معاشرے کا ہر گروہ آپ کو اخلاقیات کا تقدس پامال کرتا نظر آئے گا۔معاشرے میں ہم ابھی تک  معاشرتی اقدار سے روشناس نہیں ہوئے۔تہذیب و تمدن کی رمز ہماری سمجھ سے ماورا ہے۔ہمارے معاشرے میں گھمسان کا رن ہے۔اگر ہم نے حقیقی معنوں میں تہذیب یافتہ معاشرہ بننا ہے تو ہمیں روائتی طریقے ترک کرنا ہوں گے.وگرنہ حیات کی ہر شاہراہ پر ہمیں دکھوں کی پوٹلی اٹھائے ایسی ہی ایک بڑھیا ملے گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :