ڈرون سے اخبارات کی تقسیم

پیر 1 اکتوبر 2018

Amir Bin Ali

مکتوبِ جاپان۔عامر بن علی

صبح صبح دروازے پر ہاکر کی دستک،یا پھر گھنٹی کی آواز کے ساتھ اخبار کی فرش پر دھک سے گرنے کی آواز ہمارے گھروں میں نئے دن کے اخبار کی آمد کا پتا دیتی ہے۔گزشتہ ایک صدی سے دنیا بھرمیں گھروں تک اخبارات کم وبیش اسی اندازمیں پہنچتے آئے ہیں۔محسوس ہوتا ہے کہ اب روایت بدلنے کا وقت آن پہنچاہے۔ذرا تصور کیجئے کہ ایک ڈرون آپ کے گھر کی چھت پر آئے اور صحن میں تازہ اخبار کا بنڈل گرا کر واپس چلا جائے۔

افسانوی سی بات لگتی ہے،مگر مستقبل میں شایداخبار کی ترسیل کا یہی طریقہ کار ہمارے اس عالم رنگ وبومیں رائج ہو جائے۔اب یہ افسانہ نہیں حقیقت ہے ۔یہاں جاپان میں تو ڈرون نے اخباری ہاکر کا کام شروع کر دیا ہے۔ہوکائیدوکی ایک اخبار ی تقسیم کار کمپنی نے اس ہفتے ڈرون طیاروں سے اخبارات کی تقسیم کاکامیاب تجربہ کیا ہے۔

(جاری ہے)

اخبارسے لیس فضا میں معلق ڈرون طیاروں کی شائع ہونیوالی تصویر یہاں کے میڈیا کا محبوب موضوع بنا ہوا ہے۔


بد قسمتی سے ہم پاکستانیوں کے ذہن میں ڈرون طیاروں کے ذکرپرڈرون میزائل حملے آتے ہیں۔بیت اللہ محسود ،نیک محمداورملااختر منصورکے نام ذہن میں گردش کرنے لگتے ہیں۔میزائل حملوں سے متاثرہ پاک افغان سرحد سے متصل پہاڑی علاقوں کا تصورذہن کی سکرین میں ابھرنے لگتاہے۔اس میں ہمارازیادہ قصور بھی نہیں ہے کہ ہمارا اس ٹیکنالو جی سے تعارف ہی جنگ کے حوالے ہوا ہے۔

افغانستان کئی دہائیوں سے عالمی طاقتوں کے لئے جنگ کا تھیٹربنا ہوا ہے۔عسکری اعتبار سے دنیا کی سب سے بڑی طاقتوں امریکہ اور روس کی اس جنگ میں شرکت کے سبب ہم لوگوں کوجدیدترین جنگی ٹیکنالوجی اور سامان حرب سے تعارف ہوتارہتاہے۔ہمسائیہ ملک افغانستان میں لڑی جانے والی جنگ ماضی کے حکمران کبھی تو اپنی خوشی اور رضا مندی سے پاکستان کے اندرتک لے آئے اورکبھی کبھی اس جنگ کے شعلے نہ چاہتے ہوئے بھی ہمیں جھلساجاتے ہیں۔

ڈرون طیارے طالبان اور القاعدہ کے خلاف پہلی بار جاسوسی کے لئے امریکہ جنگی میدان میں لے کر آیا۔چند گھنٹے پرواز کی استطاعت رکھنے والے یہ ڈرون تصویرکشی کرنے کے علاوہ طاقت ور کیمروں کی مددسے براہِ راست ویڈیوبھی ہیڈکوارٹربھیجنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔اس شعبے میں انقلاب اس وقت آیاجب ان جاسوس ڈرون طیاروں پرمیزائل نصب کردیئے گئے۔پرواز کا دورانیہ چندگھنٹے سے بڑھ کر چند دن ہو گیااور اب بات ہفتوں تک مسلسل محو پرواز رہنے تک جا پہنچی ہے۔


بغیر پائلٹ کے محوپرواز ڈرون طیارے افغانستان کی جنگ میں امریکہ کا سب سے موثرہتھیار ثابت ہوئے ہیں۔امریکی فوجی اب زیادہ تر اپنی چھاؤنیوں اور ائیر بیس پر بیٹھ کر معاملات چلا رہے ہیں۔مقامی افغان افراد عسکریت پسند وں کے متعلق اطلاعات امریکیوں کو پہنچا دیتے ہیں اور امریکی ان کی مددسے ڈرون طیاروں کے ٹارگٹ طے کرتے ہیں،جیسے ہی کوئی مطلوبہ ٹارگٹ ظہور پذیرہوتا ہے،یہ لوگ اس کو تالا لگادیتے ہیں،اب یہ ٹارگٹ جہاں بھی جائے ڈرون اس پر مسلسل نظررکھے ہوئے ہوتا ہے،ریموٹ کنٹرول سے حکم ملتے ہی میزائل داغ دیتا ہے۔

ایک عسکری ماہر دوست نے بتایا ہے کہ اس کنٹرول میزائل میں ٹارگٹ کی غلطی کاامکان پانچ انچ تک ہوتا ہے۔
جی ہاں!فقط پانچ انچ ،یعنی اگر میزائل دہشت گرد کے سرپر نشانہ لے کرفائر کیا گیا ہے تووہ اگر غلطی بھی کرے گاتو زیادہ سے زیادہ اس آدمی کے سینے پرجاکر لگے گا۔اس سے زیادہ غلطی کااحتمال وامکان نہیں ہے۔ڈرون طیارے کی مثال ہوائی جہاز سے ملتی جلتی ہے۔

اس کو ایجاد کرنے والے افراد کے ذہن میں اس ایجادکامقصد شائد مختلف رہاہو،مگر عسکری ماہرین نے اس ایجاد کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا شروع کر دیا ہے اور آج ان کی جدیدشکل F16، F35، سنحوئی اور رافیل سے لے کرہمارے جے ایف تھنڈرتک ہے ۔جبکہ دوسری طرف بوئینگ777، 747 اورائیر بس A380سے لیکرہنڈاکے پرائیویٹ جیٹ اور شہری ہوا بازی کا پورا محکمہ ہے۔


امریکہ میں ٹیکنالوجی کمپنی ایمازون تو گزشتہ برس سے ہی اپنے گاہکوں کاسامان ان کی دہلیز تک ڈرون طیاروں کی مدد سے پہنچا رہی ہے۔مگر اخبار کی تقسیم کے لئے ڈرون کاا ستعمال پہلی دفعہ ہوا ہے۔اس پراجیکٹ پر کام تومذکورہ جاپانی کمپنی کئی ماہ سے کر رہی تھی مگر اس کی ضرورت میں شدت اس وقت محسوس کی گئی جب تین ہفتے پہلے جاپان کے صوبہ ہوکائیدومیں زبردست زلزلہ آیا،زلزلے کی شدت 7درجے تک ہونے کے سبب بہت اتھل پتھل ہوئی،کئی گھنٹے کے لئے بلیک آؤٹ ہوگیا،نہ بجلی ،نہ گیس ،نہ پانی،نہ ہی ٹیلی فون انٹرنیٹ ۔

اس سانحے کے بعد اخباری تقسیم کے اس نجی ادارے نے ایسی ناگہانی صورتحال میں لوگوں تک اطلاعات کی ترسیل کا واحدذریعہ رہ جانے والے شعبہ ابلاغ کی تقسیم بذریعہ ڈرون کرنے کا فیصلہ کیا۔رواں ہفتے کامیاب آزمائشی پرواز میں ڈرون نے اپنے مقررہ نشانوں پر دس دس اخبارات کے بنڈل پھینکے ،جنہوں نے اپنے اہداف کو صد فیصدحاصل کیا۔
ممکن ہے ڈرون کے ذریعے اخبارات کی تقسیم نسبتاًمہنگا سوداہو،میں یہ نہیں کہتا کہ ہمارے وزیراعظم کے ہیلی کاپٹرکی طرح اس کا خرچہ براستہ سڑک سفرکرنے سے بھی کم ہے،مگرآپ ناگہانی صورت کو ذہن میں لے کر آئیں۔

مثال کے طور پرسیلاب ،زلزلہ ،جنگ یا پھرکوئی اور آسمانی آفت آجاتی ہے۔جس کے نتیجے میں سڑکیں اور پل ٹوٹ جاتے ہیں۔زمینی رابطہ لوگوں کامنقطع ہوجاتا ہے۔ایسی صورتحال میں ڈرون سے اخبارات کی ترسیل موثرترین ذریعہ ہے۔اخبار کی تقسیم کار کمپنی نے کامیاب تجربے کے بعد یہ اعلان کیاہے کہ وہ مستقبل میں اخبار کی تقسیم کو مکمل طور پرآٹومیٹک کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

یعنی سوفیصد اخبارات خودکار طریقے سے ڈرون طیارے کے ذریعے ہی تقسیم کرنے کی خواہش ہے اس ادارے کی ۔طریقہ کاریہ ہوگا کہ ڈرون پراخبار گول رول کی شکل میں لپیٹ کر مومی لفافے میں لوڈکردیا جائے گا۔بغیر پائلٹ کے ڈرون طیارے کے کمپیوٹر میں تمام گاہکوں کے ایڈریس ڈال دیئے جائیں گے۔ڈرون طیارہ مقررہ پتے پرکیمرہ کی مدد سے ایڈریس کی تصدیق کرکے اخبار کو ایسے پھینکے گا۔جیسے جہاز بم گراتا ہے۔اس کے بعد وہ اگلے گاہک کاپتا ڈھونڈ کر وہاں اخبار پھینکے گا۔اخبارات کی تقسیم کے بعد یہ اسی جگہ خودبخودواپس آجائے گاجہان سے پرواز کا آغاز کیا تھا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :