ارجنٹائن-خوابوں جیسی حسین سر زمین

بدھ 9 دسمبر 2020

Amir Bin Ali

مکتوبِ جاپان۔عامر بن علی

بیو نس آئیر س ائیر پورٹ پر جہا ز لینڈ ہو تے ہی بیشتر مسا فروں نے تا لیا ں بجا کر اپنی مسر ت کا اظہار کیا ۔ دنیا کے دیگر خطو ں کے مقا بلے میں لا طینی امریکہ کے با سی زیا دہ جذبا تی اور جذبا ت کے اظہار میں ذرا زیا دہ دلیر اور آزاد واقع ہو ئے ہیں ۔ سا ڑھے چا ر کروڑ نفو س پر مشتمل ارجنٹا ئن کا یہ سب سے بڑا شہر ہے اور اس ملک کا دارالحکو مت بھی ہے ۔

ہما رے اسلام آبا د اور انڈیا کے دہلی کی طرح بیو نس آئیر س بھی ایک خو د مختا ر علا قہ ہے اور کسی صو بے کا حصہ نہیں ہے۔ گو کہ ارجنٹا ئن کے 23 صو بے ہیں ، جن کا مجمو عی رقبہ اس ملک کو دنیا کی رقبے کے اعتبا ر سے آٹھو یں بڑی مملکت بنا تا ہے ۔ علا وہ ازیں رقبے کے لحا ظ سے یہ ہسپا نوی بو لنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے ۔

(جاری ہے)


ارجنٹا ئن پہنچ کر پہلی خو شگوار حیر ت اس وقت ہو ئی جب ہو ٹل کے استقبا لیہ پر کھڑے نو جوان لڑکے نے میرا پا سپورٹ دیکھتے ہی کہا کہ آپ کی میشا شفیع مجھے بے حد پسند ہے ، کیا خو بصو رت آوا ز میں گا تی ہے۔

حیر ت کا پہلو یہ ہے کہ اس نوجوان کوسوا ئے ہسپا نوی کے کو ئی دوسری زبا ن نہیں آتی ، اردو تو بالکل بھی نہیں ۔ مگر مو سیقی تو ایک عا لمی زبا ن ہے، بو ل سمجھ میں نہ بھی آسکیں پھر بھی آپ لطف اندوز ہو سکتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ سا ت سمندر پا ر بیٹھا یہ شخص پا کستا ن کے کو ک سٹو ڈیو میں ریکا رڈ ہو نے والے سیزن 9 تک ہما ری مو سیقی پر کان جما ئے بیٹھا ہے ۔

فن سے یہ لو گ پیا ر کر تے ہیں ۔ اپنے تہذیبی اور ثقا فتی ورثے کو ان لو گو ں نے بہت سنبھال کر رکھا ہوا ہے۔ اتنی بڑی تعداد میں تھیٹر میں نے دنیا کے کسی اور دیس میں نہیں دیکھے۔ حالا نکہ داخلے کی سب سے سستی ٹکٹ بھی پا کستا نی سا ت ہزار روپے کی ہے ، جبکہ مہنگی تو کا فی زیا دہ مہنگی ہے ۔ شہر کے وسط میں حکو مت کا قا ئم کر دہ تھیٹرمیو زیم بھی قا بلِ دید ہے۔

اس میں تھیٹر کی روایت اور تا ریخ کا احاطہ کرنے کے علا وہ عہد سا ز ڈرامو ں کی تصا ویر اور ملبو سا ت سجا ئے گئے ہیں ۔ یہ میو زیم ایک قدیم ومعرو ف تھیٹر کی عمار ت میں قا ئم کیا گیا ہے ۔ شہر میں دن بھر کسی نہ کسی چو ک اور چورا ہے ہیں ”تا نگو “رقص ہو تا رہتا ہے ، جو کہ ارجنٹا ئن کی ثقا فتی پہچا ن ہے ۔ بن سنور کر لڑکے لڑکیا ں اس میں شریک ہو تے ہیں ، بہت سا رے ان میں سے پروفیشنل اور نیم پروفیشنل بھی ہو تے ہیں ، مجمع اکٹھا کر کے یہ تا نگو رقص پیش کرنے کے بعد اپنی مو سیقی کی بنا ئی ہو ئی سی ڈی فروخت کرتے ہیں ۔

اس کی قیمت عمو ما ًکا فی یا چا ئے کے ایک کپ کے برا بر ہو تی ہے ۔ہما رے ہا ں جیسے مداری اور مجمع با ز تماشہ دکھا کر پہلے مجمع اکٹھا کر تے ہیں اور آخر میں کو ئی دوا ئی بیچتے ہیں ۔ شا ید یہی رنگا رنگی ہی وجہ ہے کہ بیو نس آئرس جنو بی امریکہ میں سیا حو ں کی مقبول ترین منزل اور سب سے زیا دہ سیا حتی آمدورفت والا شہر قررار دیا جا تا ہے ۔ اس شہر میں امن و اما ن کی صو ر ت حا ل مثا لی ہے اور پھر سمندر کے سا حل نے تو اس کے حسن کو چا ر چا ند لگا دیے ہیں ۔


مقا می کر نسی پیسو ہے ایک پیسو ہما رے سا ت روپے کے برابر ہے ۔ دلچسپ با ت یہ ہے کہ سا لہا سا ل تک ارجنٹا ئن نے ڈا لر اور پیسو کو آپس میں یو ں نتھی کیا ہوا تھا کہ ایک پیسو، ایک امریکی ڈالر کے برابر تھا ۔ مگر چو نکہ یہ تعلق مصنو عی طریقے سے جوڑا گیا تھا ، اس فیصلے کی معا شی بنیا دیں کمزور تھیں ۔ لہذا یہ تعلق جب ٹو ٹا تو اس کے انجا م کے طور پر ارجنٹا ئن کو بہت خو فنا ک معا شی بحران سے گزرنا پڑا ۔

پیسو کو آزاد کرنسی قرار دے دیا گیا ، بعد ازخرابی بسیا ر ، آجکل ایک ڈالر میں پندرہ پیسو آجا تے ہیں ۔ ارجنٹا ئن کی معیشت کو اگر تا ریخ کے آئینے میں دیکھیں تو صرف ایک صدی پہلے یہ دنیا کا سا تواں امیر ترین ترقی یا فتہ ملک تھا ۔ اس کی معا شی ترقی ہی وہ وجہ تھی کہ یہ ایک صد ی سے زیادہ عرصہ تک یو رپ سے ہجر ت کرنے والے تا رکین ِوطن کی امریکہ کے بعد سب سے مقبول منز ل تھا ۔

یہ تذکرہ بھی کر تا چلوں کہ اس ملک کی ستر( 70%) فیصد آبا دی ہسپا نو ی اور اطا لوی نسل کے لو گو ں کی ہے با قی ماندہ لو گ یو رپ کے دیگرمما لک یا پھر دنیا کے با قی ملکو ں سے آئے ہیں ۔بنیا دی طو ر پر یہ امریکہ اور آسٹریلیا و کینیڈا کی طرح تا رکین وطن کا ملک ہے ۔ معیشت میں گراوٹ کے با وجو د یہ معا شی اعتبا ر سے پہلے بیس ، دنیا کی مضبو ط ترین معیشت رکھنے والے مما لک میں سے ایک ہے ۔


برف پو ش اورسر سبز پہا ڑوں ، ہر ی بھری چرا گا ہو ں اور میدانو ں کے اس دیس کی مر غو ب غذا گو شت ہے ۔ یہا ں اعلی قسم کا تا زہ گو شت ارزاں نرخو ں پر دستیا ب ہے اور یہ گو شت اس ملک کی برآمدا ت کا اہم جزو بھی ہے ۔ بھنا ہوا گو شت یہا ں کی زندگی اور دسترخوان کا لا زمی جزو ہے ۔ تا زہ سبزیا ں ، پھل اور دودھ کے علا وہ گو شت مر غو ب و مقبول غذا ہے، اسی سبب سے لو گ بہت صحت مند ہیں ۔

کھا نے ، پینے کے شو قین لوگ بہت ہیں مگر مو ٹا پا نہیں پا یا جا تا ۔ اس کی وجہ عوام کی کھیلو ں کے سا تھ رغبت ہے ۔ یو ں توکبڈی سے لیکر ہا کی، ٹینس ، گا لف ،سبھی کچھ یہا ں اعلیٰ معیا ر کا کھیلا جا تا ہے مگر فٹبال کی مقبو لیت کا احوال تو بیان کر نا مشکل ہے ۔ ایک پو رے اسٹیڈیم کو جو شہر کے وسط میں تھا ، فٹبا ل کے عجا ئب گھر میں بدل دیا گیا ہے ۔

داخلے کی ٹکٹ پا نچ صد روپے ادا کر کے اندر جا ئیں تو دیکھیں گے کہ ارجنٹا ئن کے فٹ با ل کی پو ری تا ریخ یہا ں محفو ظ ہے ۔ سینما اسکرینیں لگی ہو ئی ہیں،جن پر ہر وقت فٹ با ل کے یا د گا ر لمحو ں کی فلمیں چلتی رہتی ہیں ۔ میرا ڈونا کا گول یہ اب بھی نہیں بھو لے جس نے انہیں دہا ئیا ں قبل فٹ با ل کا عالمی چیمپئن بنایاتھا۔فٹبال میوزیم کے اردگردریستوران اوردوکانیں بھی فٹبال کے دیوانو ں اور پروانو ں کی ہیں ۔

ایک ایسے ہی ریستو را ن میں لنچ کیلے داخل ہوا تو پتا چلا کہ یہا ں مشہو ر کلب کو لو کو لو کا قبضہ ہے ۔ جا ن کی امان چا ہتے ہیں تو ان مردوزن کے سا منے کو لو کو لو کے متعلق کو ئی تنقید ی جملہ زبا ن پر مت لائیں بے حد جذبا تی فضا اور مزیدار کھا نا ۔
ارجنٹا ئن کے سما ج کا طا ئرانہ جا ئزہ لیں تو محسو س ہو تا ہے کہ یہا ں کی سب سے مقبو ل شخصیا ت تین ہیں ، جو کہ معرو ف فٹ با لر میرا ڈونا ، با ئیں با زو کے انقلا بی گو ریلا چے گو یرا اور پا پا ئے روم فرانسس ہیں ، ان تینوں کا تعلق اسی سرزمین سے ہے۔


 ویسے تو ہا لینڈ کی مو جودہ ملکہ معظمہ میکسیما بھی ارجنٹا ئن میں پیدا ہو کر یہی پلی بڑھی ہیں مگر ان کی مقبو لیت مذکو رہ شخصیا ت جیسی نہیں ہے ۔ پو پ فرانسس کی عا لمی اہمیت تو اس وجہ سے بھی ہے چو نکہ وہ پہلے غیر یو رپی ہیں جو ویٹی کن میں اس بلند ترین عہدے تک پہنچے ہیں ، کیتھو لک کلیسا کے سربراہ کی اہمیت با الخصو ص لا طینی امریکہ میں کچھ زیا دہ ہے ، اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا میں سب سے
 زیا دہ کیتھو لک یہا ں پا ئے جا تے ہیں ۔

ہر ملک میں ان کا تنا سب اسی فیصد(80%) کے قریب ہے۔ یو ں تو ایو نجلیکل عیسا ئی مسلک شما لی و جنو بی براعظم امریکہ میں سب سے زیا دہ تیزی سے پھیلنے والا عقیدہ ہے ۔مگر ابھی تک کسی بھی ملک میں اس کے پیرو کا ر دس فیصد سے زیا دہ نہیں ہیں ، ارجنٹا ئن میں ان کا تنا سب نو فیصد ہے اور گیا رہ فیصد لو گ لا دین ہیں ۔ مسلما نوں کی آبا دی کا تخمینہ یہا ں بسنے والے یہو دیو ں کے برابر ہے یا پھر ان سے تھو ڑے زیا دہ ہیں ۔

شہر کے وسط میں ایک عظیم الشا ن مسجد ہے جس سے ملحقہ ایک لا ئبریری اور اسلا مک سنٹر بھی ہے ۔ اس کا انتظام عرب مسلما ن چلا تے ہیں ۔ عالیشان مسجدکی ویرانی دیکھ کر اقبا ل کا وہ شعر یا د آتا ہے ۔
 مسجد تو بنا دی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے
من اپنا پرانا پاپی ہے برسوں میں نمازی بن نہ سکا
لا طینی امریکہ میں سب سے زیا دہ یہو دی اس ملک میں پا ئے جا تے ہیں ۔

دارالحکومت میں جگہ جگہ آپ کو مخصو ص ٹو پی”سکّل کیپ“سیا ہ کو ٹ پتلون اور سفید قمیض میں ملبو س یہو دی نظر آتے ہیں ۔شہر کے وسط میں ایک بڑا اور قدیم ”سینیگاگ“ہے ۔ اس معبد سے ملحقہ ایک یہو دی میو زیم ہے ۔ میں نے اس میو زیم میں داخل ہو نے کی بہت کو شش کی مگر مسلما ن اور پا کستا نی شناخت ہو نے کے سبب مجھے داخلے کی اجا ز ت نہیں دی گئی۔ البتہ میری درخواست پر غو ر جا ری ہے ، انتظا میہ کا کہنا ہے کہ آپ کو ای میل کے ذریعے مطلع کر دیا جا ئے گا ، صا ف انکا ر انہو ں نے ابھی نہیں کیا ہے ۔


بیو نس آئرس کے مرکز میں تما م عما رتیں کثیر المنزلہ ہیں ۔ طرز تعمیر کے اعتبا ر سے تو یہ یو رپ کا کو ئی شہر معلو م ہو تا ہے ، ہسپا نو ی اور اطا لو ی طرز تعمیر نما یاں ہے۔ ہسپا نوی طرز تعمیر کی وجہ بھی قا بل فہم ہے کہ یہ ملک صدیو ں تک سپین کی نو آبا دی رہا ہے اور 1810 میں اس نے آزادی حا صل کی ہے ۔ لا طینی امریکہ میں ارجنٹا ئن ہسپا نو ی نو آبا دیاتی سلطنت کی اسی طرح وارث ریا ست ہے جس طرح سو ویت یو نین کی وارث رو س کی ریا ست ہے ۔

چو نکہ لا طینی امریکہ میں ہسپا نوی سلطنت کا صدر مقام یہیں تھا ۔ گنجا ن آبا د اور جدید شہر ہو نے کے با وجو دبیو نس آئرس میں ٹو کیو ،نیو یا رک یا لندن جیسی بے چینی اور دوڑ دھو پ نظر نہیں آتی بلکہ ایک خا ص قسم کا ٹھہراؤ اور مو سیقیت یہا ں کا خا صہ ہے ۔ جگہ جگہ رقص و مو سیقی کا دو ر دورہ ہے ۔ لو گو ں کا عمو می معیا ر ِزندگی کا فی بہتر ہے ۔سا حل سمند ر کے سا تھ بنی سڑک پر وقفے وقفے سے ملک کے اہم کھلا ڑیو ں کے مجسمے نصب کیے گئے ہیں ۔

فٹ بال ٹینس ،ہا کی، باکسنگ سے لے کر جمنا سٹک اور دیگر کھیلو ں میں نما یا ں کا رکردگی دکھا نے والے موجو دہ اور سابق کھلا ڑیوں کے مجسمے عوامی مقاما ت پر نصب کر نا ان کو خراج تحسین پیش کرنے کا ایک قابل تقلید طریقہ ہے ۔ سا حل کے سا تھ اسی سڑک پر خواتین کے لئے مخصو ص ایک ٹینس کلب کا نا م پڑھ کر میں دیر تک اکیلا ہی ہنستا چلا گیا ۔
آپ بھی سنیے کیا تخلیقی نا م ہے ”ڈارلنگ ٹینس کلب “یقیننا ًآپ کو بھی زنا نہ ٹینس کلب کی تا نیث بیا ن کرنے کے لیے یہ طریقہ پسند آئے گا ۔

آپ کسی بھی وقت گھر سے نکلیں ، ہر وقت تا زہ دم ہو اؤں کے جھو نکے آپ سے ٹکرا نے لگتے ہیں، مگر یہ ہو ائیں ”صرصر“نہیں بلکہ ”صبا “کی سی نو عیت کی ہو تی ہیں ۔ ان ہوا ؤں سے متا ثر ہو کر ہی اس شہر کا نام بیو نس آئرس رکھا گیا یعنی ”خو ش کن ہوائیں“ یا پھر ہسپا نو ی زبا ن سے اس کا ترجمہ ”با د خو ش گوار“ بھی کیا جا سکتا ہے ۔ سپین سے آنے والا وہ مہم جو یقینابہت با ذوق ہو گا جس نے نیا شہر بسا کر پا نچ صدیا ں پہلے اس کو مدھر ہو اؤں سے منسو ب کر دیا ۔

ان ”اچھی ہو اؤں “کا ہی فیض ہے کہ گنجا ن آبا د اور کثیر المنزلہ ہو نے کے با وجو د دنیا کے دیگر میٹر و پو لیٹین شہر و ں کی طر ح یہ کنکر یٹ اوراسفا لٹ کا جنگل نہیں لگتا بلکہ زندہ دلو ں کا شہر معلو م پڑتا ہے ۔
ارجنٹا ئن میں سڑکو ں اور چو راہو ں کے نام عمو ما ًدوست مما لک اور ان کے شہر وں کے نا مو ں پر رکھے گئے ہیں ۔ ملک کی تا ریخ میں غیر معمو لی اہمیت کے حا مل ایا م سے بھی شا ہراہوں کو منسو ب کیا گیا ہے ، جیسے 9 جو لا ئی نا م کی سڑک تقریبا ً ہر بڑے شہر میں مو جو د ہے ۔

ویسے یہ چلن ارجنٹا ئن تک ہی محدود نہیں بلکہ لا طینی امریکہ کے بیشتر مما لک میں یہ رواج پا یا جا تا ہے کہ گلی ، کو چے ، سڑکیں اہم شخصیا ت کے علا وہ اہم دنو ں ، دوست ممالک اور ان کے شہروں سے منسوب کی جا تی ہیں۔ آپ کو شا ید حیر ت ہو کہ یہا ں ”پا کستان چوک“بھی ہے۔ سڑکو ں کے کنا روں پر فٹ پا تھ پر چلتے ہو ئے اور گلیوں ، با زاروں میں گھو متے پھرتے خواتین کی اتنی بڑی تعداد سگریٹ نو شی کر تے میں نے اسی عا لم رنگ و بو میں اور کہیں نہیں دیکھی،جتنی کثیر تعداد اس دیس میں دیکھنے کو ملتی ہے ۔

میرا مطلب ہے عوامی مقامات پر اور وہ بھی آزادانہ چلتے چلتے مرد و زن کی کثیر تعداد تمبا کو نو شی میں محو نظر آتی ہے ۔ اٹھائیس لاکھ مربع کلو میٹر رقبے پر مشتمل یہ جنت نظیرملک فقط رقبے کے اعتبا ر سے دنیا کا آٹھواں بڑا ملک نہیں ہے بلکہ اپنے حسن اور ثقا فت کی بنیا د پر دنیا کا آٹھو اں بڑا عجو بہ محسوس ہو تا ہے ۔ یہا ں کا معیا ر ی وقت پا کستا ن سے آٹھ گھنٹے پیچھے ہے مگر جب یہا ں پہنچیں تو لگتا ہے یہ دنیا ہی کو ئی مختلف ہے ۔ صرف یہا ں کا مو سم ہی ہم سے متضا د نہیں ، یعنی دسمبر میں گرمی اور جون سخت سردی کا مہینہ ہے ، بلکہ ہما رے انداز زیست اور ان کے زندگی گزارنے کے ڈھنگ میں بھی کھلا تضا د ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :