مزاحمتی ادب اور تیز ہوا کا شہر

ہفتہ 12 جون 2021

Amir Bin Ali

مکتوبِ جاپان۔عامر بن علی

اد ب کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے جتنی پرانی بنی نوع انسان کی تاریخ ہے۔بالفاظ دیگر انسان اورادب کاچولی دامن کا ساتھ ہے۔ادب میں مزاحمت کاسراغ پانے کے لئے کلاسیکی اصناف سخن پر تحقیق کرنے والے محققین کا اس نقطہ پر اتفاق ہے کہ ابتدائے آفرینش سے ہی یہ اہلِ سخن کامحبوب موضوع رہا ہے۔زہرکا پیالہ پینے والے ارسطوکوپیغمبرِعقل وخردمانا جاتا ہے،اس کے خیالات ونگارشات بلا شبہ ادب میں داخل ہیں اوربلاخوف ِ تردیدہم انہیں مزاحمتی ادب میں شامل کر سکتے ہیں۔

جدیددورکی بات کریں تومزاحمتی ادب میں ہمیں تنوع نظرآتاہے ۔متنوع مزاحمتی عناصرکی بنیاد جغرافیائی بھی ہے اور لسانی و ثقافتی بھی۔لاطینی امریکہ میں ہمیں پابلونرودا،گبریل گارسیامارکیز،فریداکاہلو،ڈیگوراویرااورگبریلا مسترال نظر آتے ہیں تویورپ میں یکسرمختلف منظرنامہ نظرآتاہے۔

(جاری ہے)

انگریزی ادب میں ایک بات ہے تو فرانسیسی ادب میں دوسری ،ہسپانوی ،اطالوی اور پرتگیزی زبان میں مزاحمت کے عناصر مختلف ہیں اورروس میں یہ بالکل الگ ہیں،جہاں سن1917کے بالشویک انقلاب نے مزاحمتی ادب سے ہی نمو پائی۔

برصغیر پاک و ہند میں مزاحمتی ادب کامنبہ ترقی پسند تحریک رہی اوراس سے منسلک انجمن ترقی پسند مصنفین نے ہی مزاحمتی ادب اوراس کے عناصرکے معیارات کے طے کیا۔بائیں بازوکے مصنفین کی اپنی تصانیف اس بابت معتبر مانی جاتی ہیں،اس کے علاوہ عالمی سطح پرمزاحمتی ادب کواس تحریک سے متاثرلو گوں نے اردو اورمقامی زبانوں میں ترجمہ اورشائع کروایا۔

اب ہمارے پاس مزاحمتی ادب کے عناصر جانچنے کے لئے ایک تو مقامی اہلِ قلم کی نگارشات ہیں اور دوسرامذکورہ تراجم۔مزاحمت اوراس کے عناصرکا خیال میرے ذہن میں حال ہی میں شائع ہونے والی ایک کتاب کو پڑھ کرآیا ہے۔اس میں شامل افسانے مزاحمتی ادب کی ایک تازہ اور خوبصورت مثال ہیں۔
معروف شاعرہ،ادیبہ و دانشورنیلماناہیددرانی کی تازہ کتاب”تیزہواکاشہر“کے نام سے شائع ہوئی ہے۔

اس دلچسپ اورمنفردکتاب کے تین حصے ہیں،پہلاسفرنامہ جوکہ آذربائیجان کے متعلق ہے جبکہ دوسراحصہ مضامین پرمشتمل ہے اورتیسرے حصے میں افسانے شائع کئے گئے ہیں۔اس کتاب کے یہ تینوں حصے ایک سے بڑھ کر ایک دلچسپ اورمعیاری تخلیقات کے حامل ہیں۔
128صفحات پرمشتمل اس کتاب کوادارہ زربفت پبلی کیشنزلاہورنے شائع کیا ہے۔ خوبصورت سرورق پر آذربائیجان کے شہرباکوکی تصویرنظرآتی ہے اورپشت پرسابق پولیس آئی جی ناصرخان درانی نے اظہارخیال کیا ہے جو نیلما ناہیددرانی کے فن اور شخصیت کے متعلق ہے۔

یادرہے کہ نیلما خودبھی پولیس میں اعلیٰ افسررہی ہیں۔لاہور میں ایس پی سپیشل برانچ کے علاوہ پولیس ٹریننگ سکول کی مدارالمہام بھی رہی ہیں۔افریقہ اوریورپ میں اقوام متحدہ کی امن فورس میں پاکستان کی کئی برس تک نمائندگی کرتی ر ہی ہیں۔کتاب کا دیباچہ طاہرانورپاشانے لکھاہے جوکہ سابق آئی جی ہونے کے علاوہ بہت اعلیٰ سفرنامہ نگارہیں اور کئی کتابوں کے مصنف بھی ہیں۔

ان کے علاوہ سلمیٰ اعوان کی معتبررائے بھی شامل اشاعت ہے ۔ اعلیٰ کاغذپر معیاری طباعت اور قیمت تین صد روپے ہے ،جوکہ بے حد مناسب ہے۔
کتاب کا انتساب سال 2020اورCOVID-19کے نام کیا گیا ہے۔جس نے تمام دنیا کو گھروں میں قیدکردیا ۔انتساب دوم تاشقندازبکستان میں رہنے والی خاتون شہزودہ شہریاررونااورمصنفہ کی جماعت ششم سے تاحال سہیلی صوفیہ تبسم جو کہ اب صوفیہ امجد میر کہلاتی ہیں کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔

سفرنامہ باکوآذربائیجان کو دس ابواب میں تقسیم کیاگیاہے۔کتاب کا یہ حصہ سیاحت اور ادب کا حسین امتزاج ہے۔اس کو پڑھ کرنہ صرف اس ملک کی تاریخ اورثقافت سے آگاہی ملتی ہے۔بلکہ عمومی سماجی رویوں پر بھی مفصل اور غیرمتعصب معلومات حاصل ہوتی ہیں۔مضامین کے حصے میں کچھ شخصیات کے خاکے ہیں جن میں محسن نقوی،طارق عزیز،فضل محمود،عمران خان،مشیرکاظمی،صبیحہ خانم ،صدیقہ بیگم شامل ہیں۔

آقای صادق گنجی کے متعلق ایک مضمون کے علاوہ مزاحیہ اداکاری کے بے تاج بادشاہ کے نام سے امان اللہ پرایک تحریراورمولاناآغانعمت اللہ جان درانی پربھی ایک مضمون شامل اشاعت ہے۔آخری حصے میں چھے افسانے اوراداکارعرفان خان مرحوم کے لئے ایک نظم شائع ہوئی ہے۔آخرمیں جامعة الازہرقاہرہ یونیورسٹی مصرکے پروفیسرڈاکٹرابراہیم محمد ابراہیم کا تیز ہو اکاشہراور نیلما کی شخصیت پر تبصرہ و تجزیہ شائع ہوا ہے۔نیلما ناہیددرانی ان دنوں لندن میں مقیم ہیں مگراس تازہ تحریرنے ان کی عدم موجودگی کے احساس کو ادبی حلقوں میں کافی حد تک کم ضرورکیا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :