میجر جنرل ملک حسین اعوان شہید

ہفتہ 8 اگست 2020

Amjad Hussain Amjad

امجد حسین امجد

صاحبزادہ یعقوب علی خان شاید واحد سفارت کار تھے جو کئی زبانوں پر عبور رکھتے تھے۔ وہ ہنری کسنجر کے ساتھ گوئٹے اور کانٹ کے فلسفے پر جرمن زبان میں روانی سے گفتگو کرسکتے تھے۔ شاور ناتشے کے ساتھ روسی زبان میں، پشکن اور دستووسکی کے افکار پر بحث کرسکتے تھے۔وار اینڈ پیس ان کا پسندیدہ ناول تھا۔۔ انہیں غالب، فیض اور اقبال کا بہت سا کلام زبانی یاد تھا اور وہ اطالوی اور فرانسیسی زبانوں کے ماہر تھے جس ملک کی سفارت پر جاتے اس ملک کی زبان پر عبور حاصل کرلیتے تھے۔

1960 میں  صاحبزادہ یعقوب علی خان جب  1 آرمڈ ڈویژن کے جی او سی تھے تو کیپٹن (بعدمیں میجر جنرل  ) محمد حسین اعوان ان کے ساتھ اے ڈی سی تھے۔ صاحبزادہ یعقوب علی خان  نے دوسری جنگ عظیم میں ٹینکوں کی سب سے بڑی لڑائی دیکھی ہوئی تھی اس وجہ سے  ٹینکوں کی لڑائی سے انہیں خصوصی رغبت تھی اور یہی محبت ان کے اے ڈی سی کیپٹن  ملک محمد حسین اعوان نے بھی سیکھی۔

(جاری ہے)

  میجر جنرل محمد حسین اعوان 1935ء کو ضلع سرگودھا کے چک نمبر 77 جنوبی میں پیدا ہوئے - میٹرک بھاگٹا نوالہ گورنمنٹ ہائی سکول سے کیا اور ایف سی کالج لاہور سے انٹرمیڈیٹ اور گریجویشن کی۔بعد ازاں پاکستان آرمی میں 20 اکتوبر 1959ء کو سیکنڈ لیفٹیننٹ کی حیثیت سے آرمڈ کور کی مایہ ناز یونٹ11 کیولری میں کمیشن حاصل کیا۔ انہوں نے سکول آف آرمر نوشہرہ سے تمام ابتدائی کورسز امتیازی حیثیت سے مکمل کیے۔

اور جنرل صاحب زادہ یعقوب خان کے ساتھ بطور اے ڈی سی تعینات ہوئے۔ انہوں نے اس دور میں عسکری تجربات حاصل کئے۔ وہ تین سال تک جنرل صاحب زادہ یعقوب کے اے ڈی سی رہے۔ صاحبزادہ یعقوب خان کے آفس میں فیلڈ مارشل رومیل کی ایک تصویر ہوتی تھی جس میں اسے نقشہ اور کمپاس  پر پلاننگ کرتے  ہوئے  دکھایا گیا تھا۔ جنرل ضیاء الحق اسی دور میں جی ون آپریشن ون آرمر ڈویژن تھے، جس سے جنرل ضیاء کے ساتھ ان کے اچھے تعلقات اور دوستی بن گئ،کیونکہ وہ نوشہرہ سکول میں ان کے استاد بھی رہ چکے تھے۔

بعد ازاں ملتان کے تھرڈ آرمربریگیڈ میں جی تھری تعینات ہوئے اور یہاں سے ہی سٹاف کالج کوئٹہ کا امتحان پاس کیا اور امتحان پاس کرنے کےبعد ایک سال کے کورس پر کوئٹہ چلے گئے۔کوئٹہ سے ایک سال کا کورس اچھے طریقے سے مکمل کیا.پھر لاہور 10 ڈویژن میں بطور جی ٹو آپریشنز تعینات ہوئے۔ آپ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ آپ نے 1965ء اور 71ء کی جنگیں لڑیں۔
 چھمب جوڑیاں کے مقام پر 1965 کی جنگ میں انڈین جہاز سے میزائیل فائر کئے گئے، جو کہ آپ کے ٹینک کے دونوں اطراف میں گرے، آپکے ساتھیوں نے سمجھا کہ آپ شہید ہو گئے، دھواں ختم ہونے پر آپ مسکراتے ہوئے ٹینک سے باہر نکلے۔

راقم کو چھمب جوڑیاں سیکٹر میں سروس کرنے کا موقع ملاہے۔آپریشن گرینڈ سلام واقعی ایک  بڑا کارنامہ تھا ۔ 1974ء میں آپ کو لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے پر ترقی ملی، اور 11 کیولری فرنٹیئر فورس رجمنٹ کی کمان سونپی گئی، بعد ازاں 1976ء میں آپ کو ڈیفنس اتاشی جرمنی تعینات کیا گیا، یہاں پر آپ کو فل کرنل کا اعزازی رینک دیا گیا۔ 1980ء میں آپ کو بریگیڈیئر کے عہدے پر ترقی دی گئی، اور آرمڈ کور سینٹر نوشہرہ میں بطور کمانڈنٹ تعینات کیا گیا۔

آرمڈ کور نوشہرہ آپ کی زیرنگرانی تعمیر ہوا۔ اسکے ساتھ ہی ساتھ یادگار شہدا اور کوارٹر گارڈ بھی آپ کے زیر نگرانی رہے۔ 1981ء میں آپ کو ایک سال کے کورس پر نیشنل ڈیفنس کالج راولپنڈی بھیجا گیا، وہاں سے آپ نے کورس مکمل کرنے کے بعد بریگیڈ کمانڈر 9 بریگیڈ کھاریاں تعینات ہوئے۔ یہاں پر آپ کو بہت زمہ داریاں سونپی گئیں ۔اس زمانے میں آپ کے قریبی دوست اور ساتھی میجر جنرل میاں محمد افضال تھے۔

1985ء میں آپ کے پیشہ وارانہ عسکری تجربے کے پیش نظر میجر جنرل کے عہدے پر ترقی دے دی گئی اور جی او سی  23  ڈویژن جہلم تعینات ہوئے۔آپ نے بارڈر ایریا پر بے شمار پختہ بنکرز اور پوسٹیں بنوائیں، ساتھ ہی مقامی لوگوں کے لیے سکول، سڑکیں، ڈسپنسریاں تعمیر کروائیں، اور ان کوجان و مال کا تحفظ بھی دیا. آپ نے جہلم میں گالف کورس کی توسیع کروائی۔ علاوہ ازیں جہلم میں بھی سڑکیں اور ہسپتال بنوائے۔

آپ کے دور میں جنرل ضیاء الحق اور متعدد سینئر فوجی افسران نے جہلم ڈویژن کا دورہ کیا اور آپ کی زیر نگرانی کمان پر اعتماد کا اظہار کیا۔ جنرل ضیاء الحق کے ساتھ آپ کا خصوصی برادرانہ اور قریبی تعلق تھا، جس کی وجہ سے وہ آپ سے بیشتر عسکری معاملات میں مشورہ کیا کرتے تھے۔ آپکو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ آپ کی زیر نگرانی این ایل سی کے مر سڈیز ٹرالے اور عسکری سامان آیا۔

آپ نے جہلم میں ایک پرائیویٹ سکول بنوایا  جس کا نام کانوینٹ ہائی سکول ہے ، ساتھ ہی سڑکوں پر سٹریٹ لائٹس بھی لگوائیں۔ ذرائع حرب خصوصاً ٹینکوں کے ساتھ آپ  کو خصوصی رغبت تھی۔
14 ،اگست 1988ء کی شب صدر مملکت جنرل ضیاء الحق کا ٹیلیفون آیا، انہوں نے کہا کہ بہاولپور میں امریکی ٹینک ابراہم کا ٹیسٹ ٹرائل ہے، ہمارے ساتھ چلیں۔آپ نے اپنے اے ڈی سی کو بتایا اور 16 تاریخ کی فلائٹ لے کر بہاولپور چلے گئے۔

ٹینکوں کے ٹرائل ،17 اگست کو اختتام کو پہنچے تو ائیرپورٹ پر الوداع کرتے ہوئے جب جنرل ضیاء الحق کو سلیوٹ کیا تو جنرل ضیاء الحق نے کہا "اعوان صاحب آپ ہمارے ساتھ آ جائیں" ۔تقدیر کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ اور اس کے بعد وہ فضائی حادثہ پیش آگیا اور تمام افراد اس میں شہید ہو گئے۔شہید کے بیٹے ایک انتہائی  ملنسار اور محب وطن شہری ہیں۔جنرل محمد حسین اعوان نے ساڑھے تین سال تک ڈویژن کو بڑے احسن طریقے سے کمانڈ کیا۔

آپ انتہائی نیک اور خدا ترس انسان تھے۔ آپ نے بے شمار غریبوں کے کام کیے۔آپ نے کبھی زندگی میں نہیں سمجھا کہ یہ غریب ہے، یا امیر ہے، بلکہ سب کو ایک جیسا انسان سمجھا۔ آپ اکثر کہتے تھے کہ میں جو کچھ ہوں، ان لوگوں کی دعاؤں کی وجہ سے ہوں، میں کیونکر ان کو اپنے آپ سے دور کروں۔ آپ نہ صرف اپنے علاقے کے لوگوں کے لیے مثال تھے بلکہ ہر وہ شخص جو آپ سے ایک بار ملا، وہ آپ کا گرویدہ ہوا۔آپ کے 28 سالہ فوجی کیریئر کے دوران آپ نے کسی کو سزا نہیں دی۔آپ انتہائی صاف گو، شفاف اور نیک انسان تھے۔لوگ آج بھی آپ کو یاد کرتے ہیں۔عظیم قومیں اپنے شہداء کے کارناموں کو اجاگر کرتی ہیں تاکہ وہ نئی نسل کے لئے مشعل راہ ثابت  ہو سکیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :