یکساں نصاب تعلیم ۔چند غور طلب پہلو

اتوار 30 اگست 2020

Amjad Hussain Amjad

امجد حسین امجد

بلا شبہ کسی بھی ملک کو ترقی کرنے کے لئے اعلی معیار تعلیم ، ریسرچ ، سائنس ،ٹیکنالوجی کی اہمیت مسلمہ ہے۔ تعلیم کے حوالے سے  موجودہ حکومت کی ترجیحات میں تمام بچوں کو سکول بھیجنا ،رنگ و نسل کے فرق کے بغیر یکساں  تعلیمی نصاب نافذ کرنا ، معیا ر تعلیم کو بلند کرنا ، ٹیکنیکل اور وو کیشنل تعلیم کی اہمیت کو اجاگر کرنا شامل ہے۔

یکساں نصاب  تعلیم کے علاوہ باقی نکات پر کشیر رقم خرچ ہوتی ہے، حکومت نے کم خرچ بالا نشین کے اصول کےتحت  پہلے یکساں نصاب تعلیم رائج کرنے کا پروگرام بنایا ہے جو کہ  ایک خوش آئیند  قدم ہے۔ موجودہ حکومت نے پورے ملک میں یکساں نصاب تعلیم رائج کرنے کے لئے ایک مر حلہ وار لائحہ عمل تشکیل دیا ہے۔جس کے لئے پورے ملک سے 400 ممبران پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی گئی تھی  اور اس کمیٹی نے تقریباً ڈیڑھ سال بعد اپنی رپورٹ تشکیل دی ہے۔

(جاری ہے)

اس کے مقاصد  میں تمام بچوں کے لئے تعلیم کے برابر مواقع،سماجی اور قومی ہم آہنگی،نصاب تعلیم میں فرق کو کم کرنا،معاشرے میں ترقی کے مساوی مواقع فراہم کرنا،ابھرتے ہوئے بین الاقوامی رجحانات اور مقامی امنگوں کی روشنی میں بچوں کی مکمل  نشوونما اور اساتذہ اور طلبہ کی بین الصوبائی نقل و حرکت شامل ہیں۔ آئین کے آرٹیکل 25 ۔اے کے مطابق حکومت  کو 5 سے 16 سال کے بچوں کو مفت اور لازمی تعلیم دینی چاہئے۔

آرٹیکل 22 کے مطابق تعلیم میں مذہبی آزادی شامل ہے اور  اٹھارویں ترمیم کے بعد  تعلیم ایک صوبائی معاملہ ہے۔ ان تمام عوامل کو مد نظر رکھتے ہوئے نئی  تعلیمی پالیسی کو دیکھنا چاہئے۔سوشل میڈیا پر ہمیشہ کی طر ح اس  مسئلے پر مختلف نقطہ نظر کے حامل لوگ ملتے ہیں۔کچھ لوگ تو اسے بیرونی ایجنڈا قرار دے رہے ہیں۔ طبقاتی تعلیم کا خاتمہ ہونا چاہئے کہ طبقاتی تعلیم کی وجہ سے غریب طبقہ بہت پیچھے رہ گیا ہے اور واضح طور پر پاکستان کے لوگ دو طبقوں میں منقسم نظر آتے ہیں ۔

غریب لوگ اپنی اولادوں کو انگلش میڈیم پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں تعلیم دلانے سے قاصر ہے ، غریبوں کے بچے اردو میڈیم سرکاری سکولوں میں پڑھتے ہیں جبکہ اعلیٰ تعلیم کا پورا سسٹم انگلش میڈم ہے اور غریب کے بچے عام طور پر میڈیکل، انجینئرنگ، سی ایس ایس اور دیگر امتحانات میں پیچھے رہ جاتے ہیں ۔
 اساتذہ کی تربیت اور معیار کوبھی بہتر کرنے کی ضروررت ہے۔

ایک اندازے کے مطابق ہمارے ملک میں جتنے بچے سکول لیول پر پڑھنے جاتے ہیں اتنے ہی بچے سکول سے باہر ہیں۔ٹیوشن سنٹر اور پرائیویٹ  اکیڈمی کو بھی قانون کے دائرہ میں لانے کی ضرورت ہے۔ایک تو ہمارے ملک میں سکولوں کی بےشمار اقسام ہیں ،گورنمنٹ سکول، پرائیویٹ، پبلک سکول ،مسجد مکتب، مدرسہ سکول،  اور خیراتی سکول وغیرہ۔ پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں کم فیس لینے والے سکولوں میں  اساتذہ اور  تعلیم کا معیار بھی کم ہے۔

ہمارے سکولوں میں ماہانہ فیس دس روپے سے لے کر بیس ہزار روپے یا اس سے بھی زیادہ ہے۔
ذریعہ تعلیم بھی ملک میں دو طبقوں کو برقرار رکھنے کے لئے ذمہ دار ہے۔ حکمران اور محکوم ۔  حیرت  کی بات ہے کہ چینی ، فرانسیسی ، جاپانی ، روسی تائیوان اور جرمن انگریزی کا ایک لفظ بھی جانے بغیر قوموں میں کیسے تبدیل ہوگئے؟  اسی کی دہائی جب پرائیویٹ  سکولوں کا جال اور بزنس زیادہ نہیں پھیلا تھا، انگریزی سیکھنے کے لئے " عتیق پریکٹیکل انگلش ٹیچر"جیسی کتابیں  پڑھنے کا رواج تھا۔

عدالتی فیصلے بھی اردو زبان میں ہونے چاہیئں  اس سلسلے میں سپریم کورٹ کا ایک فیصلہ بھی موجود ہے۔کتاب میرے مشہور مقدمے کے مصنف ایس ایم ظفر کے مطابق انہوں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا  ایٹمی توانائی والا مقدمہ ہالینڈ میں ایک  ترجمان کے ذریعے جیتا تھا۔ قومی شناخت،قرآن مجید اور احادیث کی تعلیم  کی اہمیت تسلیم شدہ ہے۔انگریزی کو بطور زبان ضرور سیکھنا چاہئے ۔

بلاشبہ انگریزی انٹرنیشنل رابطے اور جدید ٹیکنالوجی ، موبائل، گوگل، مائیکروسافٹ ، اور جدید سائنسی اداروں کی زبان انگریزی ہی ہے۔ہمارے ملک میں علاقائی زبانوں کی وجہ سے اردو کی ترویج متاثر ہوئی ہے۔انگریز  کی محکومی کے زمانے میں تعلیم اور زندگی کے دوسرے کاروبار میں انگریزی کے استعمال کا جواز ایک حد تک موجود تھا۔ لیکن آزاد مملکت پاکستان کی تشکیل کے بعد انگریزی پر اس قدر انحصار کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔

اردو کی ترویج ہمارے آئین کے مطابق ہے۔ جب انگریز کا دور تھا تو ہمارے بڑے اردو کی ترقی کے لیے کوششیں کرتے رہے اب جب کہ انگریز چلا گیا ہے ہم انگریزی کے پیچھے لگے ہیں۔ہاں یہ بات ضروری ہے کہ اردو کو ذریعہ تعلیم بنانے سے پہلے تمام سائنسی اور ٹیکنالوجی کے علوم کے سلیبس کو اردو میں ترجمہ کرنا چاہیئے۔مزید یہ کہ اردو کو پہلے مرحلے میں پرائمری کی سطح تک لازم قرار دیا جا سکتا ہے ۔

لیکن محلول کی بجائے سلوشن کا لفظ استعمال کرنا چاہئےاسی طرح دوسری رائج ٹرم کا استعمال کیا جانا چاہئے۔چھٹی جماعت سے انگریزی متعارف کروائی جا سکتی ہے۔یہ بات بھی واضح ہونی چاہئے کہ اسلامیات صرف مسلما نوں کے لئے لازمی قرار دی گئی ہےاور قرآنی آیات اور احادیث طلباء کی جماعت کے لیول کے لحاظ سے شامل کیا گیا ہے ۔یہ بھی حقیقت ہے کہ پرائیویٹ انگلش میڈیم اداروں نے تعلیم کو تجارت بنایا اور ان کی وجہ سے ہی بہت سی خرابیاں پیدا ہوئیں ایک اطلاع کے مطابق پرائیویٹ نصاب میں غلطیوں کی بھرمار ہے ۔

کہا جاتا ہے کہ صرف پنجاب کے پرائیوٹ سکولوں میں مختلف پبلشرز کی 10 ہزار کتابیں پڑھائی جاتی ہیں۔ ان  میں سے 100 کتابوں پر پابندی لگانی پڑی۔ وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود کے مطابق  حکومت نے چاروں صوبوں کی منظوری سے یکساں نصاب تعلیم تیار کرلیا ہے، اس میں وفاق المدارس اور پرائیویٹ سکولز کو بھی اعتماد میں لے کر ان کی تجاویز کا جائزہ لیا گیا اور ان میں سے جو بھی قابل عمل ہوں گی ان کو مان لیا جائے گا۔ضرورت اس امر کی ہے تمام مکتبہ فکر کے لوگوں کے درمیان سیمینار اور مباحث کا انعقاد کیا جائے اور اس میں تفصیلی بحث کے بعد حتمی حکمت علمی بنائی جائے جو کہ ملک  و قوم کے وسیع تر مفاد میں ہو۔ ڈائیلاگ کے ذریعے متعلقہ  لوگوں کے تحفظات کو دور کیا جانا چاہئے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :