ملتان میں سر عام ، قتلِ آم

منگل 30 مارچ 2021

Amjad Mahmood Chishti

امجد محمود چشتی

عزیز اور بے حد لذیذ ہم وطنو ملتان شہر حلوے اور آموں کی نسبت عالم میں انتخاب رہا ہے اور یہاں کی مینگو پارٹیوں کی دنیا میں دھوم ہے ۔مگر مشہور زمانہ رہائشی منصوبے کے پہلے فیز کیلئے ہزاروں ایکٹر باغات کے سر یوں قلم ہوئے کہ ما بعد الآمیاتی ملتان ڈی ایچ اے کی کالونی نظر آنے لگا ہے ۔گویا ابھی تو مینگو پارٹیاں شروع ہی ہوئی ہیں۔

آموں کی ہولو کاسٹ پر ماتم کناں طبقات یاد رکھیں کہ ریاست مدینہ میں بھی آم کے باغات نہ تھے ۔سرکار ِ بے سرو کار نہ صرف سیاسی حریفوں بلکہ اپنے کئے تمام وعدوں کا قلع قمع بھی لازم خیال کرتی ہے ۔بد عنوان ،مہنگائی اورکروڑوں نوکریوں کے وعدے اس ادا سے ٹوٹے کہ ان کی کرچیاں دیس کے طول وعرض میں بکھری پڑی ہیں۔ ر اشن کے تھیلوں پر حاکم ِوقت کی تصویردیکھ کر گذشتگان کی شو بازیاں ہیچ لگنے لگی ہیں اور قرض کی بابت خود کشی کی پھبتی شجر کُشی پر منتج ہوچکی ہے ۔

(جاری ہے)

جس طرح ایک کروڑ نوکریاں پیدا کرنے کیلئے پہلے سے موجود ملازمین کی برخاستگی ضروری تھی ایسے ہی بلین ٹری منصوبے کے لئے پہلے اُگے درختوں کا خاتمہ بھی ناگزیر ہے ۔شائدملک میں اربوں درخت لگانے کیلئے جگہ دستیاب نہ تھی لہٰذا ملتان کے ہزاروں ایکڑ آم کے باغات کے خون کا خونی فیصلہ ہوچکا ہے۔ یہ شجر کُشی عوام روسٹ پالیسیوں کا تسلسل ہے ۔مہذب ملکوں میں یہ عمل قانونی و اخلاقی جرم ہے ۔

اہلِیان ِ وژن کے مطابق توسیع ِ شہر آموں اور آکسیجن سے کہیں افضل ہے ۔ کچھ شریر ناقدین کے مطابق DHA کے کرتا دھرتوں اور آموں کی باہمی چپقلش کے تانے بانے اگست 1988کے خلائی حادثے سے جا ملتے ہیں ۔ اس حادثے میں ” امبھ “لے کر لَوٹنے والے بہت سے لوگ جامِ شہادت نوش کرگئے لہٰذا آموں کے ہزاروں پیڑوں کو بھی انتقاماََ شہادت کے گھاٹ اتارا جارہاہے ۔

ممکن ہے یہ آم ماضی میں کرپشن میں بھی ملوث رہے ہوں اور این آر او کے قابل نہ ہوں۔طبی ماہرین کے مطابق آم لنگڑاہونے کے سبب ملکی دفاع کیلئے ان فِٹ بھی ہے ۔سابقہ حکومتوں میں آم کی پیٹیاں بطور رشوت استعمال ہوتی تھیں۔پھر یہ آم اک طویل مدت سے ان زمینوں پر قابض تھے اور ان خطوں میں موروثیت کے شدید خطرات منڈلا رہے تھے ۔ روٹی کپڑا مکان کے حقیقی دعویدارروٹی کیلئے لنگر خانے اور مکان کیلئے ایسی اسکیمیں متعارف کروا چکے ہیں جبکہ کپڑوں کی بابت بڑی محنت سے لائحہ عمل کی تیاری جاری ہے ۔

ان آموں کا تیا پائینچہ اس لئے بھی ضروری تھا کہ یہ پولن الرجی پھیلانے کے ساتھ ساتھ راتوں کو کاربن ڈائی اکسائیڈ چھوڑ کر انسانی زندگیوں سے کھلواڑ کرتے تھے ۔ مذکورہ باغات ڈاکوؤں کیلئے پناہ گاہ بنے ہوئے تھے سو ان کی جگہ انسانوں کو بسانا وقت کی ضرورت تھی ۔ یہ عقدہ بھی کھُلا کہ ان آموں کی گٹھلیوں کے دام نہ ہونے کے برابر تھے پس ان کا وجود اب بے سود تھا ۔

سنا ہے اس سانحہ کا دکھ مرزا غالب کو بھی ہوا ہے جو پُل صراط پر کھڑے ”ڈبویا مجھ کو آموں نے اور ہوئے کٹ کے ہم جو رسوا“کے مصرعے دہرائے جارہے ہیں ۔ آخر میں ملتان باسیوں سے پوچھنا ہے کہ کیا اس برسات میں بھی ان مصرعوں کو سننے کی تاب رکھ پائیں گے ؟ ۔
امبھوا کی ڈالیوں پہ جھولنا جھُلا جا
اب کے ساون تو ساجن گھر آجا

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :