ترقی یافتہ سوسائٹی کا حقیقی زوال

جمعہ 10 جولائی 2020

Aqsa Kanwal

اقصیٰ کنول

معزز قارئین! آج کا حضرت انسان آسمان کی بلندیوں کو چھوتا  ہوا دوسرے سیاروں کو تسخیر کر رہا ہے یقینا یہ انسانی تاریخ کی ایسی کاوش ہے جسے عقل انسانی کا عروج کہا جاسکتا ہے۔ قارئین گرامی! دوسرے سیاروں کو تسخیر کرنا مجھے تو اپنے سیارے کو تسخیر کرنے سے بہت ہی آسان محسوس ہو رہا ہے۔ جی ہاں! حیرانی کی بات نہیں بلکہ یہ حقیقت ہے کے اپنے سیارےکو تسخیر کرنا واقعی ہی بہت مشکل ہے۔

کیوں؟ کیوں کے ابھی ہم زمینی لوگوں نے ترقی کی ہی کیا ہے کیا ہم نے عالمی سرمایہ دارانہ نظام سے جان چھڑا لی ہے؟ کیا ہم نے ایسی حکومتوں کو قائم کرلیا ہے جو ملی نیشنل کمپنییز کی آلا کار نہ ہوں؟ کیا ہم نے طبقاتی نظام ختم کرکے ایک ہی جیسےحقوق رکھنے والا معاشرہ قائم کر لیا ہے؟ کیا ہمارے ملکی قدرتی وسائل ہم سب میں مساوات کی بنیاد پر  تقسیم ہوئے ہیں؟ کیا ہماری عدالتیں ہر ایک کو انصاف مہیا کرتی ہیں؟ کیا ہمارے یہاں غربت اتنی زیادہ تو نہیں کہ لوگ دو وقت کی روٹی کے لئے نہ صرف تعلیم سے دور بلکہ جرائم  میں بھی ملوث ہوتے ہوں؟ معزز قارئین! اگر ہم صرف غربت ہی کہ مضر اثرات پر غور کریں تو ہماری پوری انسانی سوسائٹی اپنے لیے شاید لفظ انسان کا استعمال  ہی چھوڑ دے۔

(جاری ہے)


چپکے سے میرے کان میں کہتی ہے زندگی
اپنی تو مفلسی میں ہی رہتی ہے زندگی
اکثر کسی کی آ نکھ سے بہتی ہے زندگی
ارے پوچھو کسی غریب سے کہ کیسی ہے زندگی
 غربت ایک عالمی مسئلہ ہے۔ ایشیائی ممالک میں غربت زیادہ پائی جاتی ہے. پاکستان بھی اس کی زد میں ہے۔ غربت ایک سماجی برائی تصور کی جاتی ہے۔ جس سے خطرناک حالات جنم لیتے ہیں۔

اس سے فاقہ کشی ہوتی ہے اور بیماری پھیلتی ہے جو موت کے منہ تک لے جاتی ہے۔ یہ معاشی زہر سارے معاشرے میں پھیل رہا ہے جس سے ملک بھی متاثر ہے۔ غربت قانون کا احترام کرنے والے اچھے شہریوں کو بھی مجرم اور ڈاکو بنا دیتی ہے اس سے بدعنوانی پھیلتی ہے جس کے باعث برائی اور ظلم بڑھتا ہے۔ ایسے انسانی کردار کا ایک تاریک پہلو سامنے آتا ہے۔ غربت و افلاس میں لپٹے ایک بے بس آدمی سے سچائی شرافت اور ایمانداری کی توقع کرنا مشکل ہے۔

وہ اپنے بیوی بچوں کے لئے دو وقت کا کھانا اور بیماری میں دوائی میسر نہیں کر سکتا تو اس سے اچھے اخلاق اور اچھے امور کی توقع کرنا کیسے ممکن ہوسکتا ہے؟ غریب کے لیے عزت کی زندگی جینا محال ہو جاتا ہے۔ ایک کسان جو باوقار انداز سے اپنی زمین پر ہل چلاتا ہے وہ اس آدمی سے بہتر ہے جو غربت  کے ہاتھوں بھیک مانگ کر زندگی گزارتا ہے۔ غربت اور بے روزگاری اسٹیٹ کی دو بڑی کمزوریاں مانی جاتی ہیں اور معاشرے میں غربت کو ایک گناہ سمجھا جاتا ہے غربت سے بے اطمینانی پیدا ہوتی ہے اور بے اطمینانی سے سیاسی بے چینی اور حکومت کی طرف سے مایوسی ملتی ہے۔

اس سے نفرت اور بغاوت جنم لیتی ہے اور ایک باغی شخص سماجی  برائیوں میں مبتلا ہوکر قوم کی ترقی کا باعث نہیں بن سکتا۔ غریب آدمی بغاوت سے پہلے ہر در کھٹکھٹاتا ہے اور جب وہ مایوس ہوجاتا ہے تو اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے برائی کی طرف قدم اٹھاتا ہے۔ وہ نا صرف اپنی ذاتی زندگی کو نقصان پہنچاتا ہے بلکہ اپنے معاشرتی، معاشی، سیاسی اور مذہبی روایات کو بھی نقصان پہنچاتا ہے کچھ علماء فرماتے ہیں کہ مایوسی کفر ہے اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک غریب آدمی اور اس کے کنبے کے تمام افراد کی جہالت اور بدحالی کی بڑی وجہ مفلسی ہے۔

معاشرے میں دنیا کا سب سے بدترین گناہ غربت ہے بے روزگاری غربت اور بیماری کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ بزرگوں سے سنا ہے کہ غربت اپنے ساتھ سو بیماریاں لاتی ہے اور آخر میں جان لے کر ہی جاتی ہے ۔ایک ریسرچ سے ثابت شدہ ہے کہ آجکل ایک عالمی بیماری ڈپریشن کی بڑی وجہ غربت بے روزگاری اور مایوسی ہے۔ جہالت کا غربت سے بہت گہرا تعلق ہے غریب آدمی تعلیم کے مقابلے روٹی کو ترجیح دیتا ہے۔

غربت انسان کو ذہنی مفلوج کر دیتی ہے جس سے نوجوان نسل غلط فعل کی طرف جارہی ہے۔ یوتھ کو قوم کی ریڑھ کی ہڈی کہا جاتا ہے اور جب یوتھ میں احساس محرومی پائی جائے گی تو قوم ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہوگی " *علم مومن کی گم شدہ میراث ہے"
" وہ جس کا ایک ہی بیٹا ہو بھوکا آٹھ پہروں سے
بتاؤ! اہل دانش تم، وہ گندم لے یا تختی لے؟"
لیکن عملاً ہمارا ملک تعلیم اور صحت کے شعبہ میں سب سے پیچھے ہے۔

غربت کے خاتمے سے ہی تعلیم کو فروغ مل سکتا ہے، کتنے ہی نوجوانوں کے خوابوں کو تعبیر مل سکتی ہے اگر کتابوں کو بیچ کر روٹی نہ خریدنی پڑے۔ جاگتی آنکھوں کے خواب ہی اصل خواب ہیں، کتنے معصوم پھول سڑکوں پر پھول بیچنے پر مجبور ہیں، کتنی عزتیں ایسی ہیں جو مفلسی کی چکی میں پس کر پامال ہونے کو تیار ہیں، کتنے پیٹ ایسے ہیں جو آج بھی رات کو پیٹ کی آگ کو بجھاۓ بغیر سوتے ہیں۔

وہ دن دور نہیں جب نعرے لگاۓ جاںٔیں گے"
بچے براۓ فروخت"کسی نے کیا خوب کہا ہے
" غربت نے سکھا دی ہے میرے بچوں کو تہذیب
سہمے ہوئے رہتے ہیں شرارت نہیں کرتے"
غربت نے انسان کی انسانیت چھین لی۔ انسان کو جانور بننے پر مجبور کر دیا۔چمکتی آنکھوں کے ادھورے خواب غربت کی لحد میں اتار دیے جاتے ہیں۔قلم کو ہتھیار نہیں کاروبار بنایا جاتا ہے۔

وسائل کی غیر منصفانہ اور بے رحمانہ تقسیم نے اشرف المخلوقات کو احقرالمخلوقات میں تبدیل کر کے ان کو  جانوروں سے بدتر بنا دیا ہے۔ یہ وہ حالات اور کیفیات ہیں جن سے ہمارے پیارے *آقا حضرت  محمدﷺ* نے پناہ مانگی ہے کیونکہ مفلسی انسان کو کفر تک لے جا سکتی ہے تو کیا یہ ہی اسلام کی تجربہ گاہ ہمارا پاکستان ہے! بلکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان؟؟
غربت سے ہونے والی اموات کچھ ایسے یی سوال اپنے پیچھے چھوڑ جاتی ہیں یہاں تو غربت اور بےروزگاری سے مجبور انسان اپنی انسانیت اور عزت نفس سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں- خوشامد، جھوٹ، کام چوری، حرام خوری، ہیرا پھیری، اور ایسی ہی خصلتیں ان کے خون میں شامل ہو جاتی ہیں۔


'' *مصیبت کبھی تنہا نہیں آتی اپنے ساتھ بہت سی آفتیں اور بیماریاں لاتی ہے جس سے معاشرہ متاثر ہوتا ہے* "
غربت اور دہشت گردی کا بہت گہرا تعلق ہے۔قربت بہت سے دہشتگردوں کو جنم دیتی ہے مفلس انسان مجبور ہو کے وطن کا غدار ہو جاتا ہے۔چند روپے اور روٹی خاطر اپنی اور کئ جانوں کا قاتل بن جاتا ہے اور اس کا تعلق سرمایہ داری سے بھی ہے سرمایہ داری کا نظام کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔

کرپشن بڑے سے بڑے اور چھوٹے سے چھوٹے پیمانے پر کی جا رہی ہے اور اس کا ذمہ دار طبقاتی سرمایہ داری نظام ہیں۔ کرپشن بڑے سے بڑے اور چھوٹے سے چھوٹے پیمانے پر کی جا رہی ہے اور اس کا ذمہ دار طبقاتی سرمایہ داری نظام ہیں۔جس کی وجہ سے غریبوں کا حق ایمانداری سے نہیں پہنچ پاتا اور اس میں امرا کا بہت اہم کردار ہے ہمارے معاشرے کا اہم پہلو امرا ءکی طرف بھی کھلتا ہے جو اپنی آسایشوں اسٹیٹس کو برقرار رکھنے کے لئے غریبوں کا خون چوستے ہیں اور کسی حد تک ان کی حق تلفی بھی کرتے ہیں امرا ءکا مثبت کردار کافی حد تک غربت کا خاتمہ کرسکتا ہے۔

معاشرے میں رہنے والے ہر فرد کی یہ ذمہ داری ہے کہ صحیح اور غلط میں فرق کر اپنے اپنے حصے کی اینٹ سے فلاح کی دیوار تعمیر کریں۔
 حکومت کا فرض ہے کہ وہ غربت کے خاتمے کیلئے اقدامات کرتے ہوئے غریب اور بے روزگار افراد کو مواقع فراہم کر کے انہیں مصروف رکھے تاکہ غیر صحت مندانہ سرگرمیوں کو فروغ نہ ملے.
امیر شہر غریبوں کو لوٹ لیتا ہے
کبھی بحیلہ مذہب، کبھی بنامِ وطن

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :