اتحاد بین المسلمین

اتوار 20 ستمبر 2020

Aqsa Kanwal

اقصیٰ کنول

ایک ہوں مسّلم حرم کی پاسبانی کے لئے
نیل کے  ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر
اتحاد کیوں ضروری ہے ؟ کیا ہم ایک دن بکھر جائنگیں ؟ ہمارا حال ہميں کیا بتارہا ہے ؟ آخر چمن کیوں اجڑ نے والا ہے ؟ کیا قوم کی مالا کی موتی بکھر جاینگے ؟ اتحاد ہے کیا ؟جس طرح ستاروں کا جھرمٹ کہکشاں کی بنیاد رکھتا ہے۔ پنکھڑیوں کی تنظیم پھول کو تشکیل دیتی ہے۔

ذرے باہم متحد ہوجائے تو صحرا بنا ڈالتے ہیں۔
قطرہ قطرہ مل جائے تو قلزم بن جاتا ہے کہ یہ پھول کا اجتماع ہو جائے تو گلدستہ بن جاتا ہے بالکل اسی طرح کسی قوم کی حقیقت اس کے اتحاد سے ہوتی ہے ستاروں کے جھرمٹ نہ بنائیں تو کہکشاں نہیں۔ پنکھڑ یوں  کی تنظیم نہ ہو تو گل نہیں۔
زرے  باہم مربوط نہ ہو تو صحرا نہیں ۔

(جاری ہے)

قطرے ایک  دوسرے میں مدغم نہ ہو تو قلزم  نہیں۔

پھول اکٹھے نہ ہوں تو گلدستہ نہیں۔ بلکل اسی طرح افراد اکھٹے نہ ہوں تو  قوم  نہیں اور جب قوم نہیں تو پھر افراد بےحیثیت ہو جاتے ہیں۔ اتحاد قوموں کی ضرورت ہوتا ہے۔ اتحاد ہی  قوموں کو بام عروج پر پہنچاتا ہے ۔اور جب اتحاد ختم ہوجائے تو مقدر میں صرف پامال  کی گہرائیاں رہ جاتی ہیں۔ تاریخ میں کوئی ایسی مثال نہیں ہے جو اتحاد کے وجود کی نفی کر دے۔

اسلامی تاریخ مثالوں سے بھری پڑی ہیں اور اس کی اولین مثال عرب کے ان با شندوں نے  قائم کی تھی جنھوں نے بدر کے میدان میں جسمانی اور مالی لحاظ سے ایک بڑی قومیت کو شکست دی۔ یوں تو اسلام کے جاں نثاروں نے مکہ میں اور پھر سے ہجرت کرنے کے بعد بھی اتحاد  کا مظاہرہ کیا لیکن بد ر کے میدان میں تو ایسے اتحادی  سلسلے میں بن گئے ۔جس سے ظلم کی کوئی طاقت نہ توڑ سکی ۔

یہی  چیز پھر  اسلامی حکومت کی بنیاد بنی ۔ مسلمانوں کے سلطنت بہت کم عرصے میں عرب کی حدوں سے بڑھ گئی۔یورپ کا علاقہ مسلمان مجاہدین کے گھوڑوں کی ٹاپوں سے گونج اٹھا بڑے بڑے قلعے ان کے گھوڑوں کے سموں کے نیچے آ کر روندے گئے اور اندلس طارق بن زیاد اس کے ساتھیوں کے مثالی اتحاد کی وجہ سے سینا  قابل تسخیر سے  بن گیا۔صلاح الدین ایوبی نے عیسائیوں کو شکست دی تو اس کے پیچھے پیچھے بھی اتحاد  کارفرما تھا۔

جو مسلمان متحد ہو گئے کہ اب ہم نے بیت المقدس کو بچانا ہے تو راستے کی ہر رکاوٹ ان کیلئے ریت  کی دیوار ثابت ہوئی۔ مسلمانوں میں اتحاد تھا تو سندھ بندر گاہ نے  ان کا والہانہ استقبال کیا ۔اور ان کے لیے نہیں راہیں کھول دیں۔اور جب  اتحاد نہ رہا تو ایسے شان و شوکت   سے حکومت کرنے والے جس سے ذلت سے  دوچار ہوئے وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ اس دور کے شہنشاہ کا کہنا ہے کہ" ہندوستان  کتے کی طرح میرے تلوے چاٹ رہا ہے"  لیکن جب شہنشاہ کے جانشینوں نے اتحاد کو اہمیت نہ دی تو ان میں سے کئی اس وقت ہندوستان کی سرزمین پر دفن ہونے کے لیے بھی دو گز زمین انکو  نصیب نہ ہوئی۔


اس صدی میں اتحاد کی واحد مثال اس وقت سامنے آئی جب برصغیر کے مسلمان ایک نظریے کے تحت متحد ہو گئے تو وہ لوگ بھی ان کا وطن چھوڑنے پر مجبور ہو گئے جو  اس بات پہ نازاں تھے  کہ ہماری سلطنت میں کبھی سورج غروب نہیں ہوتا۔ یہی ہے کہ آج مسلمانوں میں اتحاد باقی نہیں رہا وہ جس کی بدولت ایک مسلمان کی تکلیف سے دوسرا مسلمان تڑپ اٹھتا تھا۔  کشمیر کے سلگتے چنار دہائی دے رہے ہیں وہ مرد مجاہد جو اپنے ہم مذہب کی پکار پر لبیک کہتے تھے اب بوسینیا اور کشمیر کی بیٹیاں چیخ رہی ہیں کہاں ہے محمد بن قاسم جو آکر ہمارے سروں پر چادر ڈال دے۔

افسوس کے کسی کے پاس کسی بات کا کوئی جواب نہیں۔ مسلمانوں میں اتحاد اس قدر ناپید ہو چکا ہے کہ مسلم ملک عراق  مسلمان ملک کویت پر ہی حملہ کرتا ہے ۔ مسلمان دوسرے مسلمان ملکوں کو مسلم ملک کر تا ہے  ۔ فلسطین کے مسلمان اپنی آزادی کی خاطر اسرائیل سے جنگ کرتے ہیں۔ اور شام اور دعودی عرب   اسرائیل سے تجارت مستحکم کر رہے ہیں۔ پاکستان کشمیر کے مسئلہ کی وجہ سے ہندوستان سے خائف ہیں تو ایران اور افغانستان سے دوستی کا سوچ رہے ہیں۔

مغربی ممالک کے سیاسی پنڈت کہتے ہیں کہ مستقبل میں یہ دنیا سے ہٹ کر صرف سات یا آٹھ ملک تک رہ جائیگی ۔ اور مزے کی بات یہ ہے ان سے 7 ملکوں میں کسی بھی اسلامی ملک کا نام نہیں لیا گیا پھر بھی مسلمان ممالک انصاف کی خاطر ان ممالک کی طرف نگاہ اٹھائی تو یہ محض بےوقوفی ہے۔مغربی طاقتیں مسلمانوں کو جس طرح پستی کی طرف کھینچ رہی ہیں اس کا صرف ایک ہی حل ہے کہ مسلمان ممالک متحد ہو جائیں۔


مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو جغرافیائی حدود میں قید نہ کریں بلکہ ہر مسلمان کو اپنے قریب تر جانے افریقہ کے کسی قسم ان گاؤں  سے ہی کیوں نہ تعلق رکھتا ہوں۔کالا کالا ہو یا گورا امیر ہو یا غریب پڑھا لکھا ہو یا جائے اسے بہرحال مسلمان سمجھا جائے اور اس کی تقلید کو اپنی تکلیف سمجھ آجائے غرض یہ ہے کہ مفکر اور دانشور کس موجودہ صورتحال میں مسلمانوں کو اتحاد کا درس ہی دے سکتا ہے۔

مسلمان دشمن قوتیں مسلمانوں کے درمیان نفرت کے بیج بو رہی ہیں کراچی میں لگی ہوئی فسادات کی آگ انہی بچوں کے پیدا کیے ہوئے پودوں کے پھول ہیں۔ کراچی میں مسلمان ہی مسلمان کو مار رہا ہے ۔مسلمان ہی مساجد اور امام بارگاہوں پر گولیاں چلا رہے ہیں۔ ترکی میں مسلمان ہی مسلمان کو کاٹ رہے ہیں۔ افغانستان میں طالبان بھی مسلمان ہیں اور ربانی حکومت بھی ۔

ثالث ان دونوں میں کسی  کو اس کی تاریخ یاد دلائیں کہ دونوں ہی نے پاکستانی سفارت خانہ میں اپنے مسلمان بھائیوں کو زودکوب کیا ا۔گر یہ سب سلسلہ چلتا رہا تو خدانخواستہ یہ بات بھی خارج از امکان نہیں ہے کہ اسلام دشمن قوتیں مسلمان کو سب سے زیادہ بنانے میں کامیاب ہوجائیں گی۔کیونکہ دنیا میں صرف دو ہی قوتیں ہیں مسلم اور غیر مسلم کو دعوت اسلام کو اپنا ضابطہ حیات بنا لیں ورنہ اتحاد سے مرحوم قوم ہمیشہ تاریخ کے باب میں دفن ہو کر رہ جاتی ہے مسلمانوں کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ وہ کسی اور محافظ کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اس کا محافظ تو خدا ہے وہ ابابیل  سے بھی اس کی حفاظت کا کام  لے سکتا ہے البتہ مسلمانوں کو اپنی بقا کے لیے متحد ہونا چاہیے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :