گداگدری اور اس کے سد باب

جمعرات 17 ستمبر 2020

Aqsa Kanwal

اقصیٰ کنول

مانگنے والا گدا ہے ،صدقہ مانگے یا خراج
کوئی مانے یا نہ مانے میر و سلطاں سب گدا
آج ہمارا معاشرہ بے شمار برائیوں کا شکار ہے ۔ ہم مسلمان تمام امتوں سے افضل ہیں اس لیے ہر شرف ہر عظمت ہمارے لئے وقف ہونی چاہیے ۔ مگر اپنے گردوپیش پر نظر ڈالنے سے یہ معلوم ہوتا ہے ۔ تمام امتوں کی برائیاں اور خرابیاں ہمارے اندر اکٹھی ہوگئی ہیں ان میں سے ایک گداگری ہے ۔


"کسی سے کچھ طلب کرنا اور اس کے عوض اس کے جائز خدمت نہ کرنا گداگری کہلاتا ہے "
پہلے زمانے میں گداگری مجبور ہو کر کی جاتی تھی۔ جو اپاہج ہو تا یا جس کی روزی کا کوئی مسئلہ ہوتا تھا ۔تو وہ مجبورا مانگتا مگر آج کل کے لئے ایک باقاعدہ پیشہ بن چکا ہے اور ایک بد نما داغ ہے ۔

(جاری ہے)

جس کا سدباب ضروری ہے گداگری کی ابتدا عام طور پر کسی معذوری سے ہوتی ہے ۔

لیکن پھر یہ معذوری پیشہ بن جاتی ہے لیکن آج کے زمانے میں گداگری ہر قسم کی تعداد پائی جاتی ہے ۔ دولت کا لالچ اتنا بڑھ گیا ہے اچھائی اور برائی میں تمیز ختم ہوتی جارہی ہے ۔ قطع نظر اس سے کہ عزت نفس کس چڑیا کا نام ہے کسی کے آگے دستِ سوال دراز کرتے ہوئے ذرا بھر بھی نہیں کتراتے روزانہ ان گداگروں کی تعداد میں اضافہ ہوتے دیکھ رہے ہیں ۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ پیشہ ور زیادہ ہی کاہل ہیں۔

انہوں نے محنت کو چھوڑ کر سستی اور کاہلی کو اپنا شعار بنا رکھا ہے یہ بھیکاری ہوتے ہوئے بھی ا مارت کے حامل ہیں۔ موجودہ دور کا بھکاری مجبوری کے بجائے پیشہ ور عیار اور درمیانہ سفید پوش طبقے سے زیادہ بینک بیلنس رکھتا ہے معاشی ضرورت ہر ایک کے ساتھ ہے محنت ضروری ہے ۔
معاشی ضروریات ہر ایک کے ساتھ ہی محنت مزدوری کو اپنا شعار نہ بنا کر ہاتھ پاؤں کی توانائیاں رکھتے ہوئے اپاہج بننا ایک برائی ہے . ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کی " پیشہ ور سائل قیامت کے روز اس حال میں آئے گا کہ اس کے منہ پر گوشت کی بوٹی نہ ہوگی"
 یہ بھیک مانگنے والے ایک تنظیم کے تحت کام کرتے ہیں اور آج کل باقاعدہ تربیت یافتہ ہوتے ہیں۔

ان کا لباس انداز اور کہے جانے والے بے ساختہ جملے ایک مسلسل تربیت کا پتہ دیتے ہیں یہ تنظیم انسانی نفسیات کے ماہر ہے ۔ اور اپنے فن میں کامل ہے یہ لوگ مزاج شناس اور نفس آشنا ہوتے ہیں۔
گداگروں کے لوٹنے کے انداز مختلف ہیں ۔ یہ لوگ انسانی نفسیات سے آگاہ ہونے کی وجہ سے لوٹنے کا ہنر جانتے ہیں لہذا مختلف حربے آزماتے ہیں۔ کوئی فریاد کرکے مانگتا ہے کوئی کسی صوفیانہ کلام پڑھ کر مانگتا ہے کسی کا انداز یہ ہے کہ وہ صحت کے واسطے دے دے کر مانگتا ہے ۔

تو کوئی امتحان میں کامیابی کی دعا دے کر بے وقوف بناتا نظر آتا ہے مگر کسی کو کسی عدالت یا چہرے کے باہر دیکھا تو مقدمہ سے رہائی کی دعا دے دی کسی کو دوائی خریدتے وقت دیکھا تو صحت یابی کا مشورہ دے دیا۔
ان میں سے کچھ ہاتھ میں ڈبہ لے کر مسجد یا مدرسہ کے چندہ اکٹھا کرتے چندہ اکٹھا کرتے نظر آتے ہیں ۔اور کچھ بچوں کی کفالت کا بہانہ بھی کرتے ہیں کچھ ایسے بھی ہیں جو گدا گری کے اسپیشل میں سب پر بازی لے گئے ہیں۔

کہ وہ لوگ ہیں جو اپنے جسم کو جگہ جگہ سے زخمی کر لیتے ہیں۔ اور اپنے زخموں کا علاج کا بہانہ کر کے پیسہ بٹورتے نظر آتے ہیں۔
سر رہ گزر
اک بھک منگا یہ کرے صدا
ہاں نام خدا
کر دس دس کے چھ نوٹ عطا
میرے پاس میاں!
نے آٹا ہے ، نے ہلدی ہے
اور گھر جانے کی جلدی ہے
بعض نے کالونی میں چھوٹے تعویذ گنڈوں کا کاروبار شروع کر رکھا ہوتا ہے ۔

اور بعض بے وقوف لوگ ان کے دام میں پھنس سکتے ہیں۔ اور ان سے پیسہ بٹورتے ہیں ۔ بعض خود کو اہل اللہ ثابت کرکے رٹے ہوئے الفاظ بولتے ہیں گویا وہ بہت نیچے ہوئے ہیں ۔سادہ لوگ خاص طور پر خواتین ان کے جھانسے میں آ جاتی ہیں بعض گدا گر چوری اور لوٹ مار بھی کرتے ہیں۔ آجکل ایک اور رجحان دیکھا گیا ہے کہ عورتیں چھوٹے بچے کیسے سگنل پر کھڑے ہوئے گاڑی کے سامنے آ کر مانگتے مانگتے ہیں ۔

جس سے ٹریفک کے بہاؤ میں رکاوٹ بنتی ہے بلکہ کئی قیمتی جانوں کو ضائع ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے ۔اس کے علاوہ شہروں میں بھکاری کی بھرمار ہے جو معاشی نظام کی نشاندہی کرتی ہے ماننے والا اپنی فطری خدا کو فراموش کرکے ہاتھ پھیلاتا ہے ۔جس سے کردار منفی اور سوچ دوگنی ہوجاتی ہے ۔گداگری دین سے دوری پیدا کر کے قتل کا سبب بنتی ہے تو جھگڑا ہو جاتا ہے ۔

انسان اپنی صلاحیتوں پر بھروسہ کرتے ہوئے دوسروں کی نظر کرم پر انحصار کرتا ہے ۔ جس سے اس کی خودی کو ٹھیس پہنچتی ہے اور دوسروں پر بوجھ بن کر معاشرتی زوال اور قومی پستی کا سبب بنتا ہے ۔ آرام طلب اور سہل پسند بن جاتا ہے اس کی تمام صلاحیتیں ماند پڑ جاتی ہیں جو اسے منصب انسانی سے گر جاتی ہیں۔ غرض کے لیے ایک ایسی لعنت بن گئی ہے جس سے ہر صورت میں ختم ہونا چاہیے تاکہ سے پھوٹنے والی برائیاں خود بخود دم توڑجاینگی ۔


تحقیقی رپورٹ کے مطابق پنجاب میں گداگروں کی 9400 ہے یہ تعداد ہے اس لیے وہ تعداد ہے ۔ جو اخباری ذرائع کے پورے پنجاب میں گداگروں کی جو ہماری ذرائع کے مطابق صرف پنجاب میں ہے ۔ جبکہ پورے ملک میں اصل تعداد کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا ہے ۔کے مطابق بڑے شہروں میں گداگری کرنے والے ماہانہ 25 ہزار سے 30 ہزار کما رہے ہیں گداگری کے بڑھتے رجحان کے معاشرے پر بہت گہرے اثرات مرتب ہو رہے ۔

اس سے نا خواندگی میں اضافہ ہورہا ہے انسانوں کی ایک ایسی کھیپ تیار ہو رہی ہے ۔ جو تعلیم سے محروم ہے گداگری کا ایک نقصان یہ بھی ہے ۔ کہ ملک کی آبادی کا ایک حصہ بالکل ناکارہ ہونے کی وجہ سے ملکی معیشت پر بوجھ بن رہا ہے ۔اس کے علاوہ یہ لوگ عزت نفس سے محروم ہو جاتے ہیں ۔اور جب ان کو ماننے پر کوئی نہیں دیتا تو یہی لوگ جرائم کی دنیا میں قدم رکھ لیتے ہیں اور چوری ڈاکہ اور راہ زنی ان کا معمول بن جاتے ہیں ہمیں یہ عہد کر لینا چاہیے ۔

کسی غیر مستحق کو کسی صورت میں بھی امداد نہیں دی جائے گی خود بھی اس پر عمل کیا جائے ۔اور دوسروں کو بھی اس پر عمل کرنے کی تلقین کی جائے علماء کا فرض ہے کہ نہایت جرات اور آزادی کے ساتھ سوال کرنے کی مذمت احادیث کی روشنی میں واضح کریں۔ اور قرآن مجید میں اسراف اور فضول خرچی کی جو برائیاں بیان ہوئی ہے ۔ ان سے بھی لوگوں کو روشناس کریں خصوصا عورتوں کے طبقے کی اصلاح کی جائے وہ ہر فقیر کی آواز کو ندائے غیبی نہ سمجھیں بلکہ مستحق اور غیر مستحق میں تمیز کرے اداروں کی حوصلہ شکنی کے لیے میڈیا اپنا کردار ادا کریں نام نہاد گدا گروں کی مضموم کارروائیوں سے پردہ اٹھانے کے لیے ٹیلی فلمز پیش کریں۔


ان کی حوصلہ شکنی کے لیے اخبار میں خصوصی اشاعت کا اہتمام کریں حکومت اور معاشرے کا فرض ہے کہ وہ بھکاریوں کو مختلف دستکاریوں کاروبار اور روزگار پر لگائیں حکومت ان کے لیے چھوٹے اور آسان کا قرضوں کا اہتمام کرے حکومتی اداروں کی بحالی کے لیے مناسب رہائش کا بندوبست کریں پیشہ ور گدا گر جو چور اور لٹیرے ہیں ان کے لئے عبرت ناک سزا کا بندوبست کریں۔


گداگری سے بچاؤ کیلئے بیت المال اور زکوة کے نظام کو بہتر بنایا جائے تاکہ کوئی مستحق مجبورگدہ گری کو بطور پیشہ نہ اپنایں ۔ المختصر گداگری ایک گھٹیا پیشہ ہے ۔ جو اور عزت نفس سے محروم کرتا ہے اسلام میں اس کی کوئی گنجائش نہیں مانگنے والے پر لعنت کی گئی ہے ۔ دنیا میں انہوں نے پائی ہے جنہوں نے محنت کو اپنا شعار بنا لیا لہذا ہمیں بھی چاہیے ۔ کہ ہم محنت کو اپنا شعار بنائے جہاں تک ممکن ہوسکے مستحقین کی مدد کی جائے ۔
آگے کسو کے کیا کریں وسعت طمع دراز
وہ ہاتھ سو گیا ہے سرہانے دھرے دھر

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :