انسانوں کے کام آنا ہی زندگی کا مقصد ہے

ہفتہ 31 اکتوبر 2020

Aqsa Kanwal

اقصیٰ کنول

انسان ایک معاشرتی حیوان ہے۔ وہ معاشرے میں رہنے پر مجبور ہے ۔انسان کو زندہ رہنے کے لیے ایک دوسرے کی ضرورت پڑتی ہے۔ انسان وہ ہی  ہے جو دوسروں کا خیر خواہ اور ہمدرد ہو۔ اگر انسان دوسروں کے دکھ اور درد کو اپنا دکھ درد نہیں سمجھتا تو وہ انسان کہلانے کا حقدار نہیں دوسروں کے کام آنا مصیبت میں ان کی مدد کرنا ہی اصل انسانیت ہے۔


  اپنے لئے تو سب ہی جیتے ہیں اس جہاں میں
  ہے زندگی  کا  مقصد  اوروں   کے    کام    آنا
جب جذبہ ہمدردی بڑھ جاتا ہے تو انسان دوسروں کو اپنے آپ پر فوقیت دینے لگتا ہے وہ اپنی خواہشات کو پسِ پشت ڈال کر اپنے بھائی کی ضروریات کو اہمیت دینے لگتا ہے۔ اپنی ضروریات کی قربانی دے کر دوسروں کی مدد کرتا ہے۔

(جاری ہے)

اسی جذبے کا نام احسان ہے اسلامی تعلیمات یہی ہیں کہ اپنے آپ پر بھائی کو فوقیت دی جائیں ۔


"مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں "
 اللہ تعالی کے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
"مسلمان جسد واحد کی مانند ہے اگر جسم کا کوئی حصہ تکلیف میں مبتلا ہو تو پورا جسم بے چین اور بے آرامی  میں مبتلا ہو جاتا ہے۔
حجۃ الوداع کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا
" ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے"
 ایک اور حدیث کے مطابق :
"جو کسی مسلمان کی پریشانی دور کرتا ہے اللہ تعالی قیامت کے روز اس کی پریشانی دور کرے گا-
تاریخ اسلام کے اوراق اٹھا کر دیکھیں تو ہمدردی و ایثار کی بہت سی مثالیں ملتی ہیں جیسے ہجرت مدینہ کے وقت جب اہل مکہ اپنا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر مدینہ چلے آئے تو انصار مدینہ نے بڑھ کر ان کے ہاتھ تھام لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایک مہاجر کو ایک انصاری کا بھائی بنا دیا دنیا کی تاریخ میں اس طرح کی مثال نہیں ملتی ہے ۔


درد  دل کے   واسطے   پیدا    کیا  انسان  کو
 ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کروبیاں
 ایک دوسرے کے کام آنا ایک اچھے معاشرے کی تشکیل کا بنیادی نقطہ آغاز ہے ۔ دنیا کے ہر مذہب میں اور دل میں درد دل رکھنے والوں نے انسانیت کی بلاامتیاز خدمت کی تلقین کی ہے ۔دین اسلام تو ساری انسانیت کی فلاح کا مذہب ہے ۔بدقسمتی سے انتہا پسندوں نے اسلامی تعلیمات کو مسخ کرکے رکھ دیا ہے ۔

مسلمان کا سب سے بڑا وصف  قوت ہے ہمدردی ایثار اور قربانی اور محبت ہے۔ ہر شخص کا  دوسرے مسلمانکے لئے  بھی یہی جذبہ کارفرما ہونا چاہیے۔ کہ  دکھی انسانیت کی خدمت کرے ۔بلاشبہ اللہ رب العزت دلوں کے بھید جانتے ہیں۔ ہمیں خلوص نیت سے بے لوث خدمت کرنا ہو گی ۔ہر دل کی آواز ، بے بسی  اور معاشرے کے  سسکتے لوگوں کی دعائیں لینی چاہیے۔
اس عمل میں کوئی سیاست کی کوئی  نمائش نہیں ہونی چاہیے۔

کہ ہم صرف اور صرف اللہ اور اس کے پیارے حبیب کی خوشنودی کے لئےسب کرہےہیں ۔ کیونکہ اللہ تعالی نے انسان کو ایثار و محبت کے لئے منتخب کیا یہی جذبہ اس کی تخلیق کی بنیاد ہے تو پھر مسلمان ہیں جن کو حکم ہے
" کہ اگر تمہارا ہمسایہ بھوکا ہے تو تم کامل مسلمان نہیں "
وہی عظیم جس نے نئ شمع جلا دی مصداق  معاشرہ کے مخیر  اور درد دل رکھنے والے انکی بلا امتیاز خدمات کریں ۔


یہی اصل عبادت ہے ۔
یہی ہے عبادت ،یہی دین و ایماں
 کہ کام آئے دنیا میں انسان کے انساں
انسانیت ہی ہے کہ دوسروں کے درد اور تکلیف کو اپنا درد اور تکلیف سمجھ آ جائے اور آج کے دور میں دکھی انسانیت کی خدمت کی جائے دکھی انسانیت کی خدمت کے لیے بہت سے اقدامات کرنا ضروری ہے ۔
اور ہمیں بھی چاہیے کہ دکھی انسانیت کا خیال کریں اپنے گلی محلوں اور رشتہ داروں میں لوگوں کا خیال کریں ان کی ضروریات کا خیال کریں تعلیم کو فروغ دیں اور غربت کے خاتمے کے لیے اقدامات کریں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :