مال میں برکت کا راز۔۔۔۔

جمعرات 20 اگست 2020

Arshad Hussain

ارشد حسین

ایک قصہ مشہور ہے۔ کہ ایک ادمی نے اللہ تعالی سے سوال کیا کہ اللہ میرے کتنے سال کا رزق باقی ہے۔ اللہ کے طرف سے جواب ایا کہ ایک سال کا  ۔ اس شخص نے اللہ سے سوال کیا کہ اے اللہ مجھے میرا سارا رزق ایک بار میں  دے دیں۔ اللہ نے اس کی دعا قبول فرمائی  اور سارا اس کا رزق جو دنیا میں باقی تھا ۔ ایکمشت ایک دن میں دے دیا۔ لیکن حیران کن بات یہ تھی۔

کہ وہ شخص اس کے بعد بھی بہت سال دنیا میں زندہ رہا ۔ اور اس کو رزق ملتا رہا ۔ بہت اچھا اور اسانی سے ۔ ایک دوسرے شخص نے اللہ سے سوال کیا کہ اے اللہ فلاں کا تو دنیا میں جو رزق تھا وہ تو اس نے ایکمشت مانگا تھا۔ لیکن پھر بھی وہ کئے سال بعد بھی  ٹھیک ٹھاک اور زندہ ہے۔ اللہ کی طرف سے جواب ایا کہ جاو دیکھوں کہ وہ کونسا ایسا عمل کر رہا ہے۔

(جاری ہے)

جس کے بدولت اس کا رزق بڑھ رہا ہے۔


جب وہ شخص اس ادمی کے پاس ایا تو دیکھا کہ لنگر لگا ہوا ہے۔ لوگ ارہے ہیں اور مفت میں کھا کے جا رہے ہیں ۔ اس شخص نے اس سے  پوچھا کہ بھائی تیرا رزاق تو تم کو ایکمشت ملا تھا۔ جو تو نے ایک دن میں مانگا تھا۔ تو کیسے تم اتنے سالوں بعد بھی زندہ ہو۔ اس ادمی نے اس شخص کو جواب دیا بھائی اللہ نے مجھے ایکمشت میرا رزق دیا تو میں نے اس سے دوسروں  کو کھلانا شروع کیا ۔

بھوکوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کے کھلاتا رہا اور میرا رب اس میں برکت ڈالتا رہا۔ اور میرے ایک سال کے رزق میں اللہ نے دوسروں کو کھلانے کی وجہ سے اتنا برکت ڈالا کہ اج میں بھی زندہ ہو ۔ اور لنگر بھی چل رہا ہے۔  
دوستوں یہ تو ایک قصہ ہے ۔ پتہ نہیں حقیت ہے کہ کہانی ۔ لیکن اس میں ایک حقیقت ضرور چھپی ہوئی ہے کہ جو دوسروں پر خرچ کرتا ہے ۔ جو دوسروں کی مدد کرتاہے ۔

جو اپنا مال اللہ کا امانت سمجھ کے لوگ کے ساتھ مل بانٹ کے کھاتا ہے ۔ میرا اللہ اس میں برکت ڈالتا ہے۔ کیونکہ یہ اللہ کے نعمتوں  کا شکر ہے ۔ کہ اس میں سے لوگوں کو کھلانا اور دوسروں کی ضرورت کے وقت ان کے کام انا  ۔ کیونکہ  اللہ کا ارشاد ہے ۔ "لئن شکرتم لازیدنکم " کہ اگر تم نے میرا شکر ادا کیا تو میں اس سے اور ذیادہ کرونگا۔
ہمارے اردگرد بہت سے بیوہ بچے اوربزرگ ہمارے انتظار میں ہوتے ہیں۔

بھوکے بیمار لاچار اور بے روزگار، کہ کب کوئی ائے ہمارا  مدد کرے اور ہم بھی پیٹ بھر کے کھانا کھا سکے ۔ بیماری کے علاج کے لیے ڈاکٹر کے پاس جا سکے۔ ہم بھی نئے اور پاک صاف کپڑے  پہن سکے ۔ ہمارا بھی کبھی پٹے پرانے جوتوں سے جان چوٹے ۔ اور ہم بھی کبھی ارام سے رضائی اوڑ کے سو سکے۔
ہم خیرات تو بہت کرتے ہیں ۔ لیکن صرف دیکھاوی کے لیے ہمسایہ بھوک سے راتیں جاگ کے گزر رہا ہوتا ہے اور ہم دوسرے علاقوں میں غریب اور مسکین تلاش کرتے ہیں ۔


ہم نے اپنے زندگی کا مقصد صرف اپنے گھرانے کے افراد اور بچوں کا پرورش بنایا ہوا ہے۔ کیا اللہ قیامت کے دن ہم سے ہمارے پڑوس میں بسنے والے غریب اور مسکینوں کے بارے میں نہیں پوچھے گا۔ کیا ہماری زندگی پر صرف ہمارے گھرانے کے لوگوں کا حق ہے۔ کیا اللہ ہم کو جو مال و دولت دے رہا ہے۔ یہ صرف ہمارے قابلیت اور ذھنت کی وجہ سے ہے۔کیا اللہ ہم سے اس کے بارے میں نہیں پوچھے گا؟کہ میرے بندے میں نے تجھے مال دیا تجھے دولت دی تاکہ تو اس سے کچھ حصہ میرے راستے میں دے ۔

اول تو تم نے کچھ دیا نہیں اور اگر دیا بھی تو کیا دیا وہ کپڑے دییے جو تم نے پہن پہن کر خراب کر دییے وہ جوتے دییے جو گھس گھس کر تم نے  ختم کر دییے ۔ اور وہ خوراک دیا جو تم سے بچ گیا یا خراب ہوگیا۔ تو کیا ہوگا ہمارا جواب ؟
دوستوں کرونا کے دوسرے بہت سےنقصانات کے علاوہ ایک نقصان ہمیں بے روزگاری اور معاشی تنگی کی صورت میں ملاہے۔ کوشش کرنی چاہیے کہ  ہمارے اردگردجو  مزدور طبقہ زندگی گزر رہا ہے ۔

اس کی مدد کی جائے ۔ اس کے گھر راشن فراہم کی جائے اور دوکاندار بھائی جس کا فری میں دینے کا استطاعت نہ ہو ۔ کم از کم ان غریب اور مزدور طبقے کو  قرض راشن وغیرہ دے ۔ دوستوں  غریبوں اور مسکینوں کا بہت خیال رکھنا چاہیے ۔ اس امید اور یقین کے ساتھ کہ میں اللہ کے مال سے ان پر خرچ کرونگا تو اللہ اس میں برکت ڈالے گا ۔ اور روز اخرات مجھے اس کا بدلہ دے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :