سوچ اور امید کی طاقت

جمعرات 29 جولائی 2021

Arshad Hussain

ارشد حسین

وہ اپنے ٹھکانے میں بیٹھی زندگی کی آخری سانس لی رہی تھی،  اس کے سامنے اس کی گزری ہوئی زندگی ایک فلم کی طرح چل رہی تھی ، وہ چاہتی تھی کہ چیخ چیخ کے اپنی تجربات اور مشاہدات اپنے چھوٹوں کو سنائے،  لیکن اب یہ ناممکن تھا ، ان کےہم عمر  سارے کے سارے مر چکے تھے،  لاپتہ تھے یا گمنام،  لیکن یہ اکیلی اپنے ٹھکانے پر زندگی کی آخری سانس لی رہی تھی اور خدا کا شکر ادا کر رہے تھی کہ ہر روز بھاگنے اور لڑنے کے باوجود وہ زندہ رہی اور اپنی موت مر رہی تھی،  ہزاروں شیر ، ہزاروں خونخوار جانور اپنے خوراک کے لیے روز ان جیسوں کی تلاش میں نکلتے تھے لیکن یہ ان کی ہمت اور حوصلے کا نتیجہ تھا کہ وہ کسی کا شکار نہیں بنی۔

وہ بھی عام ہرنوں کی طرح ایک ہرن یا خرگوش تھی لیکن وہ ہزاروں لاکھوں میں وہ ایک تھی جس نے شیر کے غضب،  شیر کی پرتی،  شیر کی چالاکی کو شکست دے کر زندگی کے دن گزارے تھے ، وہ سوچتی تھی کہ قدرت  ظالم نہیں کہ ایک کو دوسرے کا خوراک بنائے یا طاقت ور حیات رہے اور موت صرف کمزور کی ہو،لیکن یہ قانون ضرور ہے جو جیسا سوچتا ہے جیسے امید رکھتا ہے ، اس کے ساتھ اس طرح کا معاملہ ہوتا ہے۔

(جاری ہے)

ہر صبح جب ہرن اٹھتی ہے تو وہ سوچتی ہے کہ اج اگر میں تیز نہیں بھاگی تو میں شکار ہو جاونگی ، جبکہ وہی صبح ایک شیر جاگتا ہے اس امید اور سوچ کے ساتھ کہ اج میں بھاگوں گا اور اپنا شکار حاصل کر لونگا ، وہی صبح،  وہی جنگل ، اور ایک جیسا ماحول لیکن سوچ اور امید کا فرق ایک کو شکاری اور دوسرے کو شکار بنا دیتی ہے،  رفتار میں ہرن شیر سے تیز ،خوبصورتی میں اس سے اعلی، نسل میں اس سے بہترین لیکن بقا صرف سوچ اور امید میں ہے۔

۔۔۔
اگر ہزاروں ہرنوں میں جنگل میں ایسے بھی ہرن ہے جو اپنی موت مرتی ہیں، کسی خونخوار جانور کا شکار نہیں ہوتی ، تو ہم کیوں نہ امید ہو ، ہم کیوں اس ہرن کی طرح سوچے جو شکار ہو جاتی ہے،  ہم اپنے سوچ کو شیر کی سوچ کی طرح کیوں نہیں بناتے؟  ، رات کو اس امید کے ساتھ کیوں نہیں سوتے؟ ، کہ صبح ایک نئی چلینج، نئی مقابلے سے سامنا ہوگا ،شیر کی طرح سوچے گا تو شکاری بنے گا ، بادشاہ کہلایا گا ، اپنے منزل کو اپنی خواب کو اپنی تعبیر  کو حاصل کر  لے گا ، اگر ڈر ڈر کے ،اور ناامیدی سے سفر شروع کریگا تو خود شکار ہو جائے گا،  پھر اپنی ناکامی کو دوسرے کے اوپر ڈالے گا،  بولے گا وقت اچھا نہیں تھا ، حالات اچھے نہیں تھے،  اچھا مرشد نہیں ملا ، غریبی تھی ، یہ نہیں کہے گا یہ نہیں سوچے گا کہ میں غلط تھا میری سوچ غلط اور  چھوٹی تھی ، میرے گول میرے خواب چھوٹے تھے ،میرا سفر غلط سمت تھا ، میری امید غلط تھی میری بھاگ دوڑ غلط تھی،۔


کل رونے سے،  پچھتانے سے اچھا ہے اج رو اج بھاگ ،اج اپنی سوچ کو وسعت دے ، اج حالات کو اپنی گرفت میں کر ، اج رات کے نیند کی قربانی دے ، کل ہزاروں انسو بہانے سے اچھا ہے اج دو انسو اپنے رب کے دربار میں بہا ، اج خود کو افلاطون سمجھنا چھوڑ کے کسے مرشد کے پاس بیٹھ،  اج اپنے سٹیٹس کو پرے رکھ کے اپنے استاد سے جوڑ جا ، کل گمنام ہونے سے بہتر ہے اج گمنام ہو جا،  پناہ کر خود کو اپنے خواب میں اپنے گولز میں،  کل کو سننے والے  طعنے اج سن ، کل کی تنقید کو اج برداشت کر ، کل کو بھونکنے والے کتوں کو اج بھونکنے دے ، اپنے فیلڈ اپنے سفر میں خود کو پناہ کر کل دنیا تمھاری استقبال کے لئے،  تمھاری تعریف کے لیے،  تمھاری مثال دے  گی ، اج جو تنقید کر رہی ہے یہاہی دنیا لوگوں کو محفلوں میں آپ کی روداد سنائی گی ، ایک جنگل ایک جیسے جانور لیکن لوگ شیر کی مثال کیوں دیتے ہیں؟،  اس کی سوچ اور امید کی وجہ سے ، شیر بن خود میں ہمت پیدا کر، وہ جنگل کا بادشاہ ہے تو اپنے خوابوں، اپنے گولز کا بادشاہ بن ، وہ جنگل کا ونر ہے تو اپنی دنیا کا ونر بن جا۔

۔۔۔۔۔
پیارے دوستوں  مقابلے کا سامنا سب کو ہے ، چیلنجز  سب کی زندگی میں ہیں،  اچھے دنوں کے لیے سب بھاگ دوڑ کر رہے ہیں، اللہ سب کی حاجات اور خواہشات اپنے خزانوں سے پورے کریں،  آمین، ، ناامید اور ناشکری منفی سوچیں انسان کو کمزور اور بزدل بنا دیتی ہے اللہ ہمارے سوچوں کو صحیح سمت عطا فرمائے آمین۔۔۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :