تکالیف کا سبق

بدھ 18 اگست 2021

Arshad Hussain

ارشد حسین

شہتوت کے  عین درمیان زمین سے دس فٹ اونچے گھونسلے میں چڑیا اپنی بچوں کا دیکھ بھال کرتی ہے۔ اسے معلوم ہے وہ جانتی ہے کہ ہواؤں میں کتنے باز کتنے شکاری پرندے اور زمین پر کتنے خونخوار جانور چلتے پھرتے ہیں۔ جن کا خوراک جن کی تلاش پرندے اور گوشت ہے۔ ہرن کے چھوٹے اور خوبصورت بچے اپنے معمول کے مطابق کھیلتے ہیں، کلیلیں بھرتے ہیں موج مستی کرتے ہیں، اس جنگل میں جس کا بادشاہ شیر روز صبح دھاڑتا ہے۔

روز اس کی تلاش میں نکلتا ہے ۔ روز پیٹ بھرتا ہے۔ نہ شیر شکار چھوڑتا ہے نہ ہرن اور دوسرے جانور باہر گھومنا پھیرنا لیکن پھر بھی شیر اور ان کا  شکار ہونے والے جانور روئے زمین پر موجود ہیں، ہزاروں بازوں اور شکروں کے موجودگی میں بھی ہزاروں خوبصورت پرندے ہر روز ہر لمحہ محو پرواز ہیں۔

(جاری ہے)

نہ پرندہ باز کے ڈر سے ، اور نہ ہرن شیر کی وجہ سے اپنا لائف سٹائل تبدیل کرنے کے بارے میں سوچتا ہے۔

وہ اشرف المخلوقات نہیں لیکن زھین المخلوقات ہیں، یقین مستحکم والے مخلوقات ہیں، اپنے مالک کے رحمت اور بادشاہی کے ماننے والے مخلوقات ہیں جبکہ جسے اشرف المخلوقات بنایا گیا جسے سوچ و بیچار اور زمین و اسمان کو تسخیر کرنے کے سوچ سے نوازا گیا وہ ناامید اور پریشان ہیں۔۔۔۔
میں بہت ناامید ہوجاتا ہوں ، بہت شکستہ دل والی کیفیت ہو جاتی ہے میری جب میرا مستقبل میرا بچہ ناامیدی اور ناشکری کی باتیں شروع کرتا ہے۔

وہ ایک 23، 24 سالہ نوجوان مجھ سے شکایت کر رہا تھا مجھ سے احتجاج کر رہا تھا۔ کہ اپ اور آپ جیسے لکھنے والے صرف کتابوں والی باتیں لکھتے ہیں۔ حقیقت اور اصل زندگی میں اس کی کوئی گنجائش ہی نہیں۔ اپ روز لکھتے ہے آپ کا ہمیشہ پوائنٹ ہوتا ہے، پڑھائی میں محنت کرو ، اپنے فیلڈ میں لگ جاؤ وغیرہ وغیرہ دنیا اپ کی مثال دی گی ، دنیا اپ کو سلام کریگی لیکن ادھر تو سلام دور کی بات کوئی چپڑاسی کی نوکری دینے کے لیے بھی تیار نہیں، قابل لوگ محنتی لوگ بے روزگار ،بے حیثیت گھوم رہے ہیں جبکہ چمچے اور خوشامدی لوگوں پر نوازشات کی بارش ہیں، پی ایچ ڈی ڈاکٹر ، ایم فل پاس جوان ڈپریشن میں ہیں، ٹیسٹ و انٹرویو کی چکروں میں خوار و زار ہو رہے ہیں۔

جبکہ میٹرک پاس اور انٹر فیل چمچے 14، 15 گریڈ میں مزے اڑا رہے ہیں۔ مجھ جیسے تعلیم یافتہ لوگ خوار و زار ہورہے ہیں آپ جیسے لوگوں کی موٹیوئیشنل باتیں اور تحریرے پڑھ پڑھ کے بور ہورہے ہیں۔ اپ مہربانی کرکے ایسے پوسٹس اور تحریروں سے اجتناب کریں، ریلاٹی، عملی زندگی والی باتیں لکھا کرے ۔ ہمیں گمراہ کرنا چھوڑ دے۔۔۔
وہ ایسی باتیں کر گیا کہ مجھے سوچ میں مبتلا کر گیا ۔

ان کی بات بالکل ٹھیک ہے ۔ میں مانتا ہوں کہ زیادہ تر تعلیم یافتہ ، قابل ترین لوگ ایسے صورتحال سے گزر رہے ہیں۔ لیکن مایوس ہونا ، ہمت چھوڑنا گناہ اور موت ہے۔۔۔
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پے روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
دنیا میں بہت کم لوگ یا یوں کہے کہ آٹے میں نمک جتنے لوگ حادثاتی یا چمچے والی کامیابی حاصل کرتے ہیں۔

لیکن ان کی کامیابی کامیابی نہیں غلامی ہوتی ہے۔ مثلا اگر کوئی چمچہ کسی انتظامی عہدے پر بھرتی کرایا گیا تو وہ عمر بھر خوشامد اور چمچہ گیری کریگا جبکہ اس کے مقابلے میں میرٹ پر آئے ہوئے ہیرے کو کسی کی بھی پرواہ  نہیں ہوتی ۔ تعلیم حاصل کرنے کے بعد ہمارے ملک میں نوکری کی تلاش بہت مشکل اور تکلیف دہ پراسیس ہے لیکن قابل اور محنتی شخص کا محنت اللہ کبھی ضائع نہیں ہونے دیتا ،اللہ ضرور محنت کا صلہ دیتا ہے لیکن اس نے اس کے ساتھ صبر کا شرط رکھا ہے۔

تھوڑا سا صبر تھوڑی سی تکلیف انسان کو بدل کر رکھ دیتی ہے، انسان جو ہواؤں میں اڑاتا رہتا ہے اس کو زمین پر لانے اور عملی زندگی میں کامیاب ہونے کے لیے یہ تکلیف یہ درد یہ خواری بہت اہم کردار ادا کرتی ہے، انسان ترقی کی عروج پر پہنچ کر اکثر اسے یاد رکھتا ہے اور اسے یاد کر کے ہنستا اور روتا ہے۔۔۔۔۔
میں نے اسے کہا کہ پیارے بچے آپ نے محنت کی ہے اللہ آپ کو ضرور نوازے گا لیکن تھوڑی مشقت تو برداشت کرنی ہوگی ، اب ہر جگہ رشوت اور سفارش کی دلدل ہے تو کیا ہم اپنی تلاش چھوڑ دینگے، ہم تعلیم حاصل کرنا نوکری کرنے کے لیے اپلائی چھوڑ دینگے ۔

کتنے بچے کتنے جوان کتنے قابل سٹوڈنٹس ہر سال امتحان میں فیل ہوتے ہیں۔ کیا اس ڈر کی وجہ سے کہ امتحان میں لوگ فیل ہوتے ہیں ہم امتحان دینا چھوڑ دینگے ۔ کامیاب اور مظبوط لوگ تقلید نہیں  مثال بنتے ہیں وہ ہٹ کر کچھ کرتے ہیں وہ دنیا کے پیچھے نہیں چلتے ۔   وہ محنت کرنا کبھی نہیں چھوڑتے ۔ وہ خود تکلیف دہ راہ کا انتخاب کرتے ہیں اور آنے والے وقت میں اپنے انے والے نسل کے لئے تاریک راہوں کے روشن مثال بن جاتے ہیں۔

تم بھی محنت اور تکلیف کے لئے ذہنی طور پر تیار ہو جاؤ گلے شکوے، رونا پیٹنا، ناامیدی کی باتیں چھوڑ کر اپنی تلاش جاری رکھو انشاءاللہ بہت جلد تم ایسے مقام پر ہوگے جس کا تم نے احساس تک نہ کیا ہوگا ،
اسے ہماری بدقسمتی کہے کہ ہمارے کمزوری اکثر معذرت کے ساتھ یونیورسٹی لیول تک پہنچتے پہنچتے ہم اخلاق،صلہ رحمی اور عاجزی کو بہت دور چھوڑ جاتے ہیں۔

ہمارا خیال ہوتا ہےکہ تعلیم مکمل کرنے کے دوسرے روز ہم نواب اور افسر شاہی بن جائنگے ۔ یہ سوچ یہ انداز ہمارے ناکامی اور خواری کے لئے بہت ہے ۔ تعلیم ہمیں ہنر کے ساتھ ساتھ تہذیب بھی سکھاتی ہے۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد افلاطون بننے سے اچھا ہے انسان بنے رہنے پر اکتفا کی جائے اور اپنے تعلق اور معاشرت کو اور وسیع اور کشادہ بنایا جائے۔اللہ کے ذات پر کامل یقین ، محنت اور کوشش ہم کو اپنی اصل مقام تک ضرور پہنچاتی ہیں ۔۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :