مرض لاعلاج

پیر 30 اگست 2021

Arshad Hussain

ارشد حسین

وہ ایک تیس چالیس سال کا ناامید بندہ روز بروز بوڑھا ہوتے جا رہا تھا۔ اس کے ہم عمر  دوسرے لوگ ابھی نوجوان اور سمارٹ لگ رہے تھے پتہ نہیں ان کو کونسی بیماری تھی کہ روز بروز صحت اور جسم روبہ زوال تھی وہ جس بھی ڈاکٹر کے پاس جاتا ٹرینکولائزر اینٹی ڈپریشن گولیوں سے اسکا علاج ہونے لگا ۔۔۔
وہ ہر قسم ڈاکٹر اور حکیموں  کے پاس گیا لیکن بے سود ، ایک دن وہ ناامید ہو کے بیابان میں بیٹھے بابا جی سے مخاطب ہوئے کہ بابا جی سکون کے لئے ترس گیا ہو۔

روز جھگڑوں پریشانیوں سے تنگ آگیا ہوں۔ کوئی علاج کوئی ٹوٹکا تجویز فرما دے۔ بابا جی نے کہا میرے مرید کسے لگتے ہیں آپ کو ؟ بولے آپ کے مرید بس آپ کے خوشامد اور چمچہ گیری کرتے ہیں۔ یہاں سے جب گھر جاتے ہیں تو حرام کھاتے ہیں۔

(جاری ہے)

فلاں کے ساتھ آٹھتے بیٹھتے ہیں جو جہنمی اور گہنگار شخص  ہے ۔ اب اگر میں ان کی ایک ایک بات آپ کو بتاؤں تو مہینے بلکہ سال لگ جائینگے ۔

بابا جی گہری خاموشی کو توڑ کے گویا ہوئے اپ کا علاج ناممکن ہے۔ تمھاری بیماری لاعلاج ہوچکی ہے۔ اپ دوسروں کی غلطیوں اور کمزوریوں کو معاف کرنے اس سے چشم پوشی کرنے سے قاصر ہے اور اپنی غلطیوں کو دیکھنے کے لیے آپ کے پاس وقت کی کمی ہے۔ اپ کو معافی کا سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔۔۔۔
بہت سی فضول قسم کی پریشانیاں، فضول مسلے مسائل اپنے ذھن میں رکھے ہم سکون کے متلاشی ہوتے ہیں۔

ایسے ایسے باتیں جن سے نا فائدہ ہے نا نقصان، کو ہم نے اپنے ذھن میں سمایا ہوا ہے۔ جن باتوں کی کوئی ضرورت نہیں ان کو ہم نے حسد اور اپنی انا بنا کے زندگی تنگ کی ہوئی ہے۔ اپنی ذمہ داریاں تو ہم پورا کرنے سے بھاگتے ہیں لیکن دوسروں کی غلطیوں، اور کمزوریاں کو ایک بحث اور اپنی زندگی بنائی ہوئی ہیں۔
روز آپ کو بہت سے لوگ ایسے ملے گے جو پریشانیوں کا رونا روتے ہوئے اپ کو اپنی زندگی کی  تنگی اور پیچیدگی کے بارے میں چیخ چیخ کے گلے شکوے کرئینگے ۔

لیکن اکثر حقیقت کچھ اور ہوتا ہے۔۔۔ہم اکثر ان باتوں ان سوچوں پر پریشان اور دلبردشتہ ہوتے رہتے ہیں جن کے ہونے کا کوئی امکان اور ہمارے ساتھ کوئی دور دور تک تعلق  نہیں ہوتا۔ہم  لوگوں کی غلطیوں اور کمزوریوں کو گناہ اور جرم کا نام دے کے ان پر گناہگار، خطاکار، جہنمی، بدقسمت اور پتہ نہیں کیا کیا ٹاپہ لگا دیتے ہیں۔  
ہمارے پاس یہ کیلکولیٹر کدھر سے آیا۔

ہمیں جنتی ہونے کا یقین کہاں سے ملا کہ خود کو  شیخ اور دوسروں کو گنہگار کہتے ہیں۔ ہم  آج تک خود اپنا احتساب نہ کر سکے،  اج تک ہم اپنے گناہوں پے شرمندہ نہیں ہوئے ۔ ایسا کوئی عمل ایسا کوئی کام نہیں کیا جسے اپنے رب کے سامنے پیش کر سکے اور کہہ سکے کہ اے میرے رب اے میرے مشکل کشا اے میرے رب کریم اے  ارحم الراحمين مجھے اس عمل کے بدلے بخش دے ۔

اب پتہ نہیں دوسروں کو جہنم کی ٹکٹ کا اختیار کہاں سے عطاء ہوا؟
لوگوں کو ملانے، لوگوں کے درمیان صلح کرنے کے لئے ہماری کوئی کوشش یا کوشش کرنے والے کو داد ہمارا کام نہیں رہا ۔ ہمارا کام اپنا رعب چھڑانا، لوگوں میں خود کو معتبر ثابت کرنا ، معاشرے میں خود  کو مالدار اور عزت دار ثابت کرنے کے لئے فضول قسم کے کام ،  باتیں، سوچیں اور تدبیریں بس  اللہ رحم کریں۔

اچھے لوگوں کو بے عزت اور حرامی بزدل اور بے غیرت لوگوں کے شر سے ڈر کے ان کا  ساتھ دینا ہمارا کام بن گیا ہے۔ لیکن پتہ نہیں جب میرا رب پکارے گا " لمن المك اليوم "  ہمارا جواب کیا ہوگا   ۔ ہماری  تدبیریں ہماری مکاری، چغل خوری کہاں چھپا کے رکھے گے ہم۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اِنَّ النَّفْسَ لَاَمَّارَةٌۢ بِالسُّوْٓءِ   نفس ہمیں مائل کرتا ہے ہمیں مجبور کرتا ہے کہ یہ کام کرو۔

لیکن ہمیں کوشش اور اپنے رب سے نفس المطمینہ کی دعا کرنی چاہیے۔ کسی کی صلح نہیں کر سکتے، کسی کو فائدہ نہیں پہنچا سکتے تو کم از کم خود کو ان سوچوں ان کوششوں سے دور تو کر سکتے ہیں۔ جو لوگوں کے لئے باعث پریشانی ہو۔۔۔۔
سکون چاہتے ہو تو بیکار قسم کے سوچوں، ٹینشنوں کا بوجھ اپنے کندھوں سے اتر کے اللہ کے دربار میں رکھنا ہوگا ۔ ساری دنیا کو چھوڑ کے اپنی دنیا میں تبدیلی لانے کی کوشش کرنی ہوگی۔

بقول بابا آشفاق احمد صاحب کے ایک پر محنت کرنی ہوگی ایک کی اصلاح اور ایک کی تربیت اور وہ ایک اور کوئی نہیں ہمارا نفس ہماری اپنی جان ہونی چاہیے۔ لوگ برا کرتے ہیں اس کا جواب ان کو دینا ہے۔ ہمارا کام صرف ان کی اصلاح اور ان کے لئے دعا ہونی چاہیے اس کے علاوہ ان کے ساتھ بحث ان پر گناہگار کا ٹاپہ وغیرہ ہم کو خود اس دلدل میں پھنسا دی گی ۔ لوگوں پر سوچنے سے اچھا ہے لوگوں کے لئے سوچے ۔ اور اپنے آپ کے لیے سوچنے سے اچھا ہے۔ اپنے اپ  پر سوچا جائے۔ اصلاح کریں،  تعمیری سوچ اپنائے لوگوں سے محبت کرنا سیکھے ، لوگوں کی کمزوریوں نادانیوں کو نادانی سمجھ کے معاف کیا کرئے ہر بات میں مثبت پہلو تلاش کریں زندگی آسان اور خوشگوار ہو جائی گی ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :