یونینز تقسیم،پریس کلبز فلاحی ادارہ،کارکن صحافی کہاں جائیں؟

منگل 8 اکتوبر 2019

Arshad Sulahri

ارشد سلہری

عمران خان حکومت میں اخباری صنعت دباؤ میں ہے اور حکومت صحافت کا گلا دبانے کیلئے مختلف حربے استعمال کرنے کے درپے بھی ہیں۔جس کا سارا ملبہ کارکن صحافیوں پر گر رہا ہے۔میڈیا ہاوسز حکومتی ہتھکنڈوں سے نمٹنے کی بجائے اداروں کی ڈاون سائزنگ کے نام پر کارکنوں کو ملازمتوں سے فارغ کر رہے ہیں۔
عمران خان کے برسراقتدار آنے سے اب تک ہزاروں کارکن بے روزگار کر دیئے گئے ہیں اور جو کارکن کام کر رہے ہیں۔

وہ تنخواہوں سے محروم ہیں۔کئی اداروں میں آٹھ سے چھ ماہ تک تنخواہیں لیٹ ہیں۔میڈیامالکان یہ جواز بناتے ہیں کہ اداروں پر حکومت کا شدید دباؤ ہے۔ اشتہارات کی ادائیگیاں نہیں کی جارہی ہیں۔دوسری جانب حکومت کا کہنا ہے کہ میڈیا ہاوسز کو ادائیگیاں کی جارہی ہیں اور حکومت میڈیا کی آزادی پر یقین رکھتی ہے۔

(جاری ہے)

ویج بورڈ ایوارڈ کے نفاد میں حکومتی سنجیدگی دیکھ کر بھی میڈیا ہاوسز نے ڈاون سائزنگ شروع کردی ہے۔

زیادہ تر ریگولر ملازمین سے چھٹکارا حاصل کیا جارہا ہے اور ان کی جگہ ڈیلی ویجز ملازمین رکھے جار رہے ہیں۔تنخواہیں نہیں دی جارہی ہیں۔اس ساری صورتحال سے کارکن صحافی اور میڈیا ورکرز شدید پریشانی کا شکار ہیں۔روزہ مرہ کے اخراجات سمیت بچوں کی فیسیں اور دیگر ضروریات زندگی سے محروم ہوگئے ہیں۔
ان مشکل حالات میں پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس،آل پاکستان نیوز پیپرز ایمیلائز کی تنظیم سمیت بے شمار میڈیا کی تنظیمیں اور پریس کلبز خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔

یونین لیڈر پرویز شوکت،راناعظیم،افضل بٹ(قائدصحافت)سمیت منظر سے غائب ہیں۔پی ایف یوجے پانچ حصوں میں تقسیم ہے۔ہر گروپ کے لیڈر ذاتی مفادات کیلئے یونین کا استعمال کرتے ہیں۔کارکنوں کی لڑائی پر خاموش رہتے ہیں۔حالانکہ پی ایف یوجے کی شاندار روایات ہے۔ماضی میں پی ایف یوجے کے لیڈروں نے کارکنوں کے مسائل،حقوق،جمہوریت کی بحالی کے لئے مثال جدوجہد کی ہے۔

قیدوبند بھی رہے مگر جدوجہد جاری رکھی۔آج کچھ نمائشی اور مصنوعی خود ساختہ یونین لیڈروں نے پی ایف یوجے کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے۔پی ایف یوجے کی تقسیم درتقسیم سے کارکن صحافی بے یارومدگار ہوگئے ہیں۔پریس کلبوں نے صاف کہہ دیا ہے۔کارکنوں کے حقوق پربات کرنا ان کا کام نہیں ہے۔بات درست ہے۔
اسلام آباد کی نیشنل پریس کلب کے صدر شکیل قرار اس کے باوجود کارکنوں کے حقوق کی بات کرتے ہیں۔

دوسری طرف شکیل قرار بے روزگار کارکنوں کے لئے متبادل روزگار کیلئے ڈیجٹیل میڈیا کی تربیت کے منصوبے پر کام کررہے ہیں جو قابل تحسین عمل ہے۔اس میں مجرمانہ کردار یونین کے لیڈروں کا ہے۔جنہوں نے پراپرٹی ڈیلری کا کام تو بڑے زور شور سے کیا ہے۔افضل بٹ اور پرویز شوکت نے اپنی ہاوسنگ سوسائٹیز تک لانچ کرکے پلاٹ بیچے ہیں اور کروڑوں کے اثاثے بنائے ہیں۔

افضل بٹ کے بارے میں مشہور ہے۔انہوں نے برطانیہ میں جائیدادیں خرید رکھی ہیں۔سیاستدانوں کا احتساب کیا جارہا ہے تو صحافتی کرپٹ سیاستدانوں کا بھی احتساب ضروری ہے۔ اسلام آباد میں کئی میڈیا مالکان ہیں۔جنہوں نے یونین لیڈروں سے ملی بھگت کرکے سرکاری زمینوں پر قبضہ کیا ہوا ہے اور اربوں کے مالک ہیں مگر کارکنوں کو تنخواہیں نہیں دیتے ہیں۔

یہ سب کچھ کرپٹ،ان پڑھ اور جعلی صحافی قیادت کی بدولت ہورہا ہے۔
سنیئر صحافی بھی چپ سادھے ہوئے ہیں۔انہیں چپ کاروزہ توڑنے کی ضرورت ہے۔کارکنوں کے گھروں کے چولہے ٹھنڈے ہوئے ہیں تو یہ آفت ان پر بھی آسکتی ہے۔کارکنوں کے مسائل پر متفکر صحافی دوستوں اسلام آباد سے طاہر جعفری،لاہور سے اقبال جھکڑ،راناتحمل علی، طاہر گوندل،سندھ اور کراچی سے ارشادخان اور سندھ یونین آف جرنلسٹس کے صحافیوں سمیت ملک کے دیگر شہروں کے ان صحافیوں کو خراج تحسین ہے جنہوں نے نیشنل یونین آف جرنلسٹس پاکستان کی بنیاد رکھتے ہوئے پی ایف یوجے کی ماضی کی روایات کے احیا کیلئے قدم اٹھایا ہے۔

نیشنل یونین آف جرنلسٹس وقت کی ضرورت ہے۔میڈیا کارکنان کے حقوق کیلئے آواز اٹھانے اور اتحاد کیلئے ایک غیرجانبدار حقیقی پلیٹ فارم کی ضرورت تھی جو نیشنل یونین آف جرنلسٹس پاکستان کی شکل میں کارکنان کو فراہم کردیا گیا ہے۔سنیئر صحافیوں،میڈیا ٹریڈیونینسٹوں،کارکنان متحد ہوکر ہی اپنے مسائل حل کرسکتے ہیں اور موجودہ بحران سے نکل سکتے ہیں۔کارکن صحافی اب جعلی،مفادات پرست اور کرپٹ یونین لیڈر کو مسترد کرچکے ہیں۔اب نئی اور پرعزم قیادت سامنے آنے سے مسائل کا حل نکلے گا۔کارکن صحافی آگے آئیں اور اپنی یونین کو تعمیر کریں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :