ایمانداری”دیانتداری“ کی تبلیغ

جمعرات 31 مئی 2018

Ashfaq Rehmani

اشفاق رحمانی

اسلامی جمہوریہ پاکستان کی قانون سازی اسمبلی اور پاکستان کی سب سے بڑی عدالت کی طرف سے آئینی و قانونی تقاضوں کے عین مطابق اگر کسی شخص کو ایمان دار نہ ہونے، کرپٹ ہونے، پاکستان کی سالمیت کو داوٴ پر لگانے،ملک کا سرمایہ غیر قانونی طور پر دوسرے ممالک کو منتقل کرنایا مبینہ طور پر کسی”دشمن“ ملک کو منتقل کرنے پر ہمیشہ کیلئے ”ایوان“ کا حصہ بننے پر تا حیات پابندی لگائی یا یہ کہا کہ وہ کسی ایسے عہدے پر کام کے اہل نہیں میں پاکستانیوں کے حقوق کا استحصال ہونے کا خطرہ ہو،اس قانون کے بعد پاکستان مسلم لیگ ن کے سابق سربراہ نواز شریف پر ”تا حیات نا اہلی“ کا ٹیگ لگ گیا۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا انصاف کی سب سے بڑی عدالت سے تا حیات نا اہل ہونے والا فرد ”پاکستانی شہریوں“ کے ساتھ کھلے عام یا جلسہ عام میں ”ایمانداری کی تبلیغ“ کر سکتا ہے؟ کیا ایسا شخص جو مبینہ طور پر ”ایماندار“ یا دیانتدار نہیں،جو جھوٹا یا غیر ذمہ دار وہ گھنٹوں، گھنٹوں عام شہریوں کو یہ تبلیغ کر سکتا ہے کہ وہ ادارے ٹھیک نہیں ہیں جنہوں نے ”مجھے نکالا“پاکستان کی پہلی سوشل میڈیا نیوز ایجنسی میڈیا ڈور نے ایک سروے کرایا جس میں سوال کیا گیا کہ کیا غیر دیانت دار شخص”سر عام“ تبلیغ “ کر سکتا ہے، کیا مبینہ طور پر ”جھوٹا“ فرد لوگوں کو ”ورغلانے“ کی اجازت دینی چاہئے؟ جس پر 98فیصد افراد کا ماننا تھا کہ اعلیٰ عدالت کی طرف سے آئینی و قانونی تقاضے پورے کرتے ہوئے جس فرد کو نا اہل قرار دیا ایسے کسی بھی شخص کو کسی بھی صورت میں لوگوں کو ورغلانے کی ”اجازت“ نہیں دی جا سکتی۔

(جاری ہے)

اب آتے ہیں ایک خبر کی طرف،خبر کے مطابق سابق وزیراعظم نے چیئرمین قومی احتساب بیورو جسٹس (ر) جاوید اقبال کو دوسری مرتبہ قانونی نوٹس بھجوا دیا ہے۔ یہ نوٹس نیب کی جانب سے 4.9ارب ڈالر کی رقم بھارت منتقل کرنے کے الزام پر بھیجا ہے۔ نوٹس میں سابق وزیر اعظم نے چیئرمین نیب کی جانب سے لگائے الزامات کو قبل از وقت دھاندلی قرار دیتے ہوئے کہا جسٹس (ر) جاوید اقبال 14روز میں معافی مانگیں اور ایک ارب روپے کا ہرجانہ ادا کریں۔

اس سے قبل ایک قانونی نوٹس سینئر ایڈووکیٹ سپریم کورٹ اے کے ڈوگر کی جانب سے 17مئی کو بھجوایا گیا تھا۔ اس قانونی نوٹس میں چیئرمین نیب کے مستعفی ہونے اور بے بنیاد الزامات پر نواز شریف سے معافی مانگنے کو کہا گیا تھا مگر چیئرمین نیب کی طرف سے کوئی اقدام نہیں اٹھایا گیا بلکہ نواز شریف اور پارٹی رہنماوٴں کے شدید رد عمل پر چیئرمین نیب نے بھی سخت جواب دیا تھا۔

مذکورہ الزامات پرریفرنس دائر ہوتا یاہے نہیں مگر ایسے الزامات سامنے آنے سے ملزم کی ساکھ ضرور متاثر ہوتی ہے۔کچھ سیاست دانوں کا ماننا ہے کہ ” جب بات سابق وزیراعظم کی ہو، اسکی پارٹی حکومت میں ہو اور انتخابات سر پر ہوں تو اس لیڈر کی اپنی ساکھ اور پارٹی مقبولیت کو دھچکا پہنچنا فطری امر ہے“ چیئرمین نیب کو ایک قانونی نوٹس بھجوایا گیا جس پر انہوں نے معافی مانگی نہ الزامات واپس لیے، جس پر سابق وزیراعظم کو ازالہ حیثیت عرفی کیلئے پھر قانونی نوٹس بھجوانا پڑا۔

ایسے معاملات میں یہ” مناسب طریقہ کار“ ہے کہ نہیں انتہائی اہم سوال ہے اگر اوپر دئیے گئے سروے کو مدنظر رکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ایسا شخص”کسی کو قانونی“ نوٹس نہیں بنا سکتا کیونکہ وہ ”خود“ اس پوزیشن میں نہیں کہ کسی پر بد دیانت کا الزام لگا سکے کیونکہ وہ خود ”بد دیانت“ بن چکا ہے بقول پاکستان کی سب سے بڑی عدالت کے فیصلہ کی روشنی میں،تاہم یہ بھی ضروری ہے کہ ” چیئرمین نیب کے عہدے کا تقاضہ ہے کہ وہ کوئی جھول والی اور محض سنی سنائی بات نہ کریں “دوسری طرف نیب نے میاں نواز شریف کے موقف کو مسترد کر دیا ہے ، نیبکے مطابق” جس شخص کو سپریم کورٹ نے جھوٹا قرار دیا ہو اسکی جانب سے نوٹس نیب کی ساکھ خراب کرنے کی کوشش ہے“ نواز شریف کی طرف سے بھیجا گیا لیگل نوٹس نیب کو موصول نہیں ہوا۔

نیب کے ذرائع کے مطابق نواز شریف کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے آرٹیکل 62کے تحت جھوٹا قرار دیا ہے ان کا ایک آئینی ادارے کے سربراہ جو کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے قائم مقام چیف جسٹس کے طور پر کام کر چکے ہیں اس کے علاوہ ایبٹ آباد کمیشن کے بھی سربراہ رہے ہیں اس کے علاوہ وہ لاپتہ افراد کمیشن کے بھی سربراہ ہیں انہوں نے نہ صرف ایبٹ آباد کمیشن کے تنخواہ کی مد میں 61لاکھ روپے حکومت کوواپس کیے بلکہ لاپتہ کمیشن کے چیئرمین کے طور پر بھی حکومت پاکستان سے کوئی معاوضہ نہیں لے رہے۔

ان کا چیئرمین نیب کے طور پر تقرر لیڈر آف دی ہاوٴس اور لیڈر آف دی اپوزیشن نے ملکر کیا تھا۔ چیئرمین نیب کو لیگل نوٹس دراصل ایک جھوٹے شخص کی طرف سے چیئرمین نیب اور نیب کی ساکھ خراب کرنے کی ایک کوشش ہے ،آئینی ماہرین نے اسے ایک غلط اقدام قرار دیا ہے۔نیب آرڈیننس کے سیکشن 36کے تحت چیئرمین نیب اور نیب افسران کو قانون کے مطابق کوئی انکوائری یا کوئی انوسٹی گیشن کے دوران قانونی استثنیٰ حاصل ہے۔

نیب کا ا آئینی مینڈیٹ ہے اور جب نیب کسی درخواست یا میڈیا رپورٹس پر شکایت کی جانچ پڑتا ل کافیصلہ کرتا ہے تو اس کی پریس ریلیز جاری کی جاتی ہے۔ نیب نہ ہی کسی ذاتی انتقام یاکسی کی کردار کشی پر یقین رکھتا ہے بلکہ بلاتفریق احتساب سب کا نیب کی اولین ترجیح ہے۔نواز شریف کو جس اخبار میں یہ آرٹیکل شائع ہوا تھا اس کے خلاف لیگل نوٹس جاری کیا جانا چاہیے تھا جو کہ نواز شریف نے جاری نہیں کیاجس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ سیاسی پوائنٹ سکورنگ کرنا چاہیے ہیں سیاسی پوائنٹ سکورنگ کیلئے نیب کوہدف تنقید بنانا چاہتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :