صحافتی پیشہ اور ہم

جمعہ 2 جولائی 2021

Asifa Amjad Javed

آصفہ امجد جاوید

صحافت بہت مقدس پیشہ ہے اس پیشے کو دیانت دار پیشہ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ ایک صحافی کا مقصد عوام کو ان حالات,خبروں سے آگاہ کرنا ہوتا ہے جو عوام کی نظر سے اُوجھل ہوں بااصول صحافی ہمیشہ اپنی قلم کے ذریعہ ظلم کے خلاف آواز اُٹھاتے ہیں اہلِ قلم,اہلِ ذوق ہوا کرتے ہیں وہ قلم کے ذریعے ظلم کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں قلم تلوار سے زیادہ طاقتور ہوتی ہے جب یہ ظلم کے خلاف اٹھتی ہے تو ظالم کی کمر توڑ کے رکھ دیتی ہے   
 ایک صحافی اپنی پسند نا پسند کو بھلا کر اپنے پیشہ وارانہ فرائض انجام دیتا ہے ہر خبر کی انویسٹیگیشن کرنا اور معاشرے کو حقیقت سے رُوشناس کروانا اپنے پیشے کا حصہ سمجھتا ہے اور جب وہ اپنے پیشن کو پروفیشن بنا لیتا ہے تو وہ دن دور نہیں ہوتے جب کامیابیاں اس کے قدم چومتی ہیں کیونکہ ایمانداری بہترین حکمتِ عملی ہے.
لیکن ہمارے ہاں صحافت جیسے مقدس پیشے کو لوگوں نے اپنی تشہیر اور مفادات کا ذریعہ بنایا ہوا ہے یہاں الٹی گنگا بہتی ہے ہم اپنے فائدے کے بغیر کسی بھی کام کو کرنا فضول اور بیوقوفی سمجھتے ہیں اور یہی ہماری سب سے بڑی بیوقوفی ہے ہم صحافت کو صحافت اور دیانت سے سفارشی نظام کی طرف لے کے جا رہے ہیں وہ لوگ جو  صحافت کا " ص" بھی نہیں جانتے افسوس ایسے لوگوں نے اس پیشے کو کمائی کا ذریعہ بنا لیا ہے یہاں چند پیسوں کے لیے جھوٹی خبریں پھیلائی جاتی ہیں کیا پیسے لینے کے بعد حقیقت کو عوام کی نظر سے اُوجھل نہیں رکھا جاتا؟ یہ کیسی صحافت ہے کہ آپ چند پیسوں کے لیے اپنی عزت داؤ پے لگا دیں ہر پیشہ خوبصورت اور مقدس تب بنتا ہے جب اس پیشے سے منسلک لوگ مقدس ہوں لیکن افسوس یہ معاشرہ سچ سننے کا عادی نہیں رہا جس طرح سچ بولنا مشکل ہوتا جا رہا ہے اسی طرح سچ لکھنا بھی اور بہت سے لوگ اس راہ میں سچ بولتے بولتے اپنی جان کا نظرانہ پیش کر دیتے ہیں لیکن مجھے ایسے لوگوں پر فخر ہے جو اپنی آخری سانس تک سچ بولنا اپنے پیشے کا حصہ سمجھتے ہیں اسی طرح 2016 میں 48 صحافیوں کو موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا اب پاکستان میں باقاعدہ 3 مئی کو صحافت کا عالمی دن منایا جاتا ہے صرف اس لیے تاکہ لوگ ان سب باتوں سے آگاہ ہوں کہ ان تک حقیقت کی خبریں پہنچانے میں صحافیوں کو کن فرائض سے دو چار ہونا پڑتا ہے کیمرے کی آنکھ کے پیچھے حقیقت کو تلاش کرنے میں کس قدر محنت کرتے ہیں.                                       جس طرح ڈاکٹر ,انجینئر بننے کے لیے ڈگری کا ہونا ضروری ہے اس طرح صحافت جیسے پیشے کو  اپنانے کے لیے بھی ڈگری کا ہونا ضروری قرار دیا جائے تاکہ اس کی تعلیم سے وابستہ لوگ ہی اس پیشے میں قدم رکھیں کیونکہ اس پیشے کے متعلق تعلیم حاصل کر کے ہی اس کی خوبصورتی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے صحافت کو ریاست کا چوتھا ستون بھی کہا جاتا ہے خوش آئند بات یہ ہے بہت سے طالب علم صحافت جیسے پیشے سے وابستہ ہونے کے لیے تعلیم حاصل کر رہے ہیں اب ہمیں ایسے ہی صحافیوں کی ضرورت ہے جو سچ کو پروموٹ کریں لوگوں کو حقیقت سے روشناس کروائیں جن کے پاس ڈگریاں ہوں معاشرے پڑھے لکھے لوگوں اور سچ کو پروموٹ کرنے والوں سے ہی بنتے ہیں اب یہاں پرچی سسٹم ختم ہو جانا چاہئے ہر شخص کو محنت کر کے اپنا مقام حاصل کرنا چاہئے پرچی سسٹم نے ہمارے لوگوں میں محنت کا جو عنصر پایا جاتا تھا وہ ختم کر دیا ہے اور اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ معاشروں میں بگاڑ پیدا ہو جاتا ہے اور جو لوگ محنت کرتے ہیں انہیں آگے آنے کا موقع نہیں دیا جاتا ہمیں لوگوں کو اس بات سے باور کروانا چاہئے کامیابی کی سیڑھیوں پے چڑھنے کے لیے کسی لفٹ کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ ہمیں ان سیڑھیوں پے خود ہی چڑھنا پڑتا ہے ارادے ,اعتماد,حوصلے اور محنت سے ہمیں اپنے ہر پیشے کو قومی فریضہ سمجھتے ہوئے نبھانا چاہئے ہمیں ایسے کام کرنے چاہئے جن کو کرنے کے بعد ہمارا دل مطمئن ہو جب دل مطمئن ہو گا تو ہم سب میں محنت کا جذبہ پیدا ہو گا اور محنت ایک ایسی چابی ہے جس سے آپ ہر تالا آسانی سے کھول سکتے ہیں.


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :