ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم

منگل 28 دسمبر 2021

Asifa Amjad Javed

آصفہ امجد جاوید

بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رُت ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا
ڈاکٹر عبد القدیر خان کی پاکستان کے لیے خدمات کا تذکرہ کرنے سے پہلے میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتی ہوں اس ذاتِ باری تعالیٰ نے پاکستان کو ایسے محسنوں سے نوازا ہے جن کی خدمات سنہری حروف میں لکھے جانے کے قابل ہیں قائداعظم کے بعد پاکستان کے دوسرے بڑے رہنما ڈاکٹر عبد القدیر خان تھے ڈاکٹر عبد القدیر خان یکم اپریل 1936ء کو ہندوستان کے شہر بھوپال میں پیدا ہوئے لیکن تقسیمِ ہند کے موقع پر ہجرت کر کے پاکستان آگے اپنی زندگی کے 15 برس یورپ میں گزارے اس دوران بیلجیم ، ہالینڈ اور برلن کی یونیورسٹیز سے تعلیم حاصل کی بعد ازاں 1976ء کو وطن واپس آئے 31 مئی 1976ء کو ذوالفقار علی بھٹو کی دعوت پر "انجینئرنگ ریسرچ لیبارٹری"  کا حصہ بنے اور بالآخر یکم مئی 1981ء کو "انجینئرنگ ریسرچ لیبارٹری" کا نام " ڈاکٹر اے- کیو - خان لیبارٹری " رکھ دیا گیا لیکن میرا سوال ہے ڈاکٹر عبد القدیر خان جنہوں نے اس ملک کو "ایٹمی قوت" بنا دیا کیا صرف ایک لیبارٹری کا نام ان کے نام سے منسوب کر کے ہم ان کی خدمات کا حق ادا کر سکتے ہیں؟ ذرا سوچئے گا!
ڈاکٹر عبد القدیر خان پاکستان کے وہ عظیم ہیرو تھے جنہوں نے پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے میں دن رات محنت کی نہ صرف پاکستان کو ایٹمی قوت بنایا بلکہ محترمہ بینظیر بھٹو نے ڈاکٹر عبد القدیر خان سے میزائل بنانے کی درخواست کی ان کی درخواست کو قبول کرتے ہوئے ڈاکٹر عبد القدیر خان نے "غوری میزائل" تخلیق کیا  اس میزائل کا کامیاب تجربہ 8 اپریل 1998ء کو کیا گیا جس کی رینج 1500 کلو میٹر تھی اتنی خدمات سر انجام دینے کے بعد بھی ڈاکٹر عبد القدیر نے اپنے اوپر لگایا گیا ہر الزام خندہ پیشانی سے قبول کیا لیکن ہمیشہ ملکِ پاکستان کا دفاع کیا غیر ملکی نوکری چھوڑی اور بغیر کسی آسائش اور صِلے کے صرف پاکستان کی محبت میں سرشار ہو کر انتھک محنت کی پرویز مشرف کے دور میں محسنِ پاکستان پر "یورینیم" دیگر ممالک کو فراہم کرنے کے الزامات لگائے گئے اس الزام  کے بعد ڈاکٹر عبد القدیر خان کو ان کے گھر میں ہی نظر بند کر دیا گیا مغرب نے پروپیگنڈا کے طور پر ڈاکٹر صاحب کے بنائے گے ایٹم بم کو اسلامک بم کا نام دیا اس بات کو بھی شکوہ کیے بغیر تسلیم کیا ڈاکٹر عبد القدیر خان جب  ایٹم بم بنانے میں مصروف تھے ان کی حفاظت کے لیے کوئی سیکیورٹی اہلکار تعینات نہ کیا گیا  یہاں بھی میرا ایک سوال ہے؟ کیا پروٹوکول صرف حکمرانوں کے لیے ہے؟ یہاں ہر وہ شخص پروٹوکول سے محروم ہے جو اس کا اصل حقدار ہے خیر چھوڑیئے!  یہاں پروٹوکول صرف کرپشن کرنے والوں اور ملک لوٹنے والوں کو ملتا ہے اور یہ کرپٹ وزراء عوام کا پیسہ ہضم کیسے کرتے ہیں یہ صرف یہی جانتے ہیں قوم کے عظیم ہیرو پر بےتحاشہ جائیداد رکھنے کا بہتان بھی لگایا گیا لیکن  وقت کے ساتھ ساتھ ہمیشہ کی طرح یہ الزام بھی جھوٹ ثابت ہوا  28 مئی 1998ء کا دن پاکستان کے لیے تاریخی دن بنانے میں ڈاکٹر عبد القدیر خان کا بہت بڑا کردار ہے پاکستان کے مستقبل کو محفوظ کرنے کے لیے اپنے مستقبل کو نظر انداز کر دیا ڈاکٹر عبد القدیر خان نے اس بات کا بھی ذکر کیا پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے میں میری صرف 20 فیصد صلاحیتوں سے استفادہ حاصل کیا گیا ہے باقی 80 فیصد میں اپنے ساتھ قبر میں لے جاؤں گا ایک سو پچاس سے زائد سائنسی تحقیقاتی مضامین لکھے تین "صدارتی ایوارڈز" اور دو بار "نشانِ امتیاز" سے نوازا گیا یہ سب انعامات ان پر لگائے گئے الزامات کا مداوا نہیں کر سکتے پاکستانی قوم کو اس عظیم ہیرو کی صلاحیتوں کو فراموش نہیں کرنا چاہیے جس نے پاکستان کو ایٹمی طاقت والے ممالک کی فہرست میں لا کھڑا کیا ان کی وفات سے پہلے حکومت اور وزراء نے ڈاکٹر صاحب سے سوتیلی ماں  جیسا سلوک کیا وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کے علاوہ کسی وزیر نے مزاج پُرسی نہیں کی اپنی زندگی میں اچھے ، بُرے حالات کا سامنا کیا اور پھیپھڑوں کے مرض میں مبتلا ہونے کی وجہ سے 10 اکتوبر 2021ء کو خالقِ حقیقی سے جا ملے ان کی خدمات کو تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا  اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ڈاکٹر عبد القدیر خان کے درجات بلند فرمائے اور انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے آمین! اور پاکستانیوں کو اپنے محسنوں کی ان کی زندگی میں قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین!
ہمارے ذکر سے خالی نہ ہو گی بزم کوئی
ہم اپنے کام کی عظمت وہ چھوڑے جاتے ہیں
گزر تو خیر گئ ہے تیری خیات قدیر
ستم ظریف مگر کوفیوں میں گزری ہے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :