ڈینگی کا ڈنگ

جمعہ 15 اکتوبر 2021

Asifa Amjad Javed

آصفہ امجد جاوید

حالات و واقعات نے کچھ ایسا پلٹا کھایا ہے کہ ایک ہی سال میں دو ایسے وائرس اس دنیا میں آئے ہیں کہ انسان دانتوں میں انگلیاں دبائے بیٹھے ہیں انسان جس نے اتنی ترقی کر لی جو چاند پہ پہنچ گیا ہے اس جان لیوا وائرس کے آگے سب بے بس ہیں ڈینگی جس کا پھیلاؤ بڑھتا ہی جا رہا ہے یہ ایک ایسی بیماری ہے جو خاص قسم کے مچھروں کے کاٹنے کی وجہ سے ہوتی ہے یہ بیماری جسم کے سفید خلیات پر اثر انداز ہوتی ہے اور ان خلیات کو ناکارہ بنا دیتی ہے اس بیماری کی تشہیر 4 سے 5 دنوں میں ہوتی ہے ایک تحقیق کے مطابق ہر سال 40 کروڑ افراد کو ڈینگی انفیکشن کا سامنا کرنا پڑتا ہے جبکہ 40 کروڑ میں سے 9 کروڑ 40 لاکھ افراد اس بیماری کا سامنا کرتے ہیں بدقسمتی سے پاکستان میں ابھی تک ڈینگی کی ویکسین نہیں بن سکی اور ظاہر ہے ہمیں ویکسین سے کیا لینا دینا ہم کرونا کی ویکسین نہیں بنا پائے تو ڈینگی کی ویکسین کا تو تصور بھی ممکن نہیں ڈینگی میں مبتلا افراد کو پیراسیٹامول استعمال کرنی چاہیے لیکن اگر بیماری کی شدت زیادہ ہو تو مریض کو ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے ڈینگی بخار مچھروں کی ایک قسم (ایڈیز ایجپٹائی) کے کاٹنے سے ہوتا ہے یہ مچھر ستمبر سے دسمبر تک پاکستان میں رہتا ہے جبکہ ماہرین کے مطابق 10 سے 40 ڈگری سینٹی گریڈ کے درجۂ حرارت میں یہ مچھر پیدا ہوتا ہے اور اس سے کم درجۂ حرارت میں مر جاتا ہے ان مچھروں کے کاٹنے سے وائرس خون میں منتقل ہوتا ہے اور انسان ڈینگی کا شکار ہو جاتا ہے ڈینگی کی علامات میں سر درد ، بخار، تھکاوٹ، مسلز اور جوڑوں کا درد شامل ہے ڈینگی کو (بریک بون فیور) بھی کہا جاتا ہے اس مرض کی شدت اس حد تک ہوتی ہے کہ مریض کو اپنی ہڈیاں ٹوٹتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں لاہور میں ڈینگی کا پھیلاؤ انتہا پر ہے ڈینگی کے ساتھ کرونا بھی ہے اس لیے کسی بھی مشکل کا سامنا کرنے سے پہلے لاہور کے ایکسپو سینٹر میں مریضوں کے لیے 280 بستر لگائے گے ہیں جبکہ سرکاری ہسپتال کے ڈاکٹروں کی بھی لاہور ایکسپو سینٹر مریضوں کی دیکھ بھال کے لیے ڈیوٹی لگائی گئی ہے تاکہ ڈینگی کے مریضوں کا بروقت علاج کیا جا سکے چوبیس گھنٹوں کے دوران صوبے میں 226 ڈینگی کے کیسز سامنے آئے ہیں لاہور کے ساتھ ساتھ اسلام آباد ،اٹک ، ملتان اور اوکاڑہ میں بھی ڈینگی کے کیسز سامنے آرہے ہیں ان سب حالات کو دیکھتے ہوئے صوبہ پنجاب کے وزیر برائے ڈیزاسٹر مینجمنٹ میاں خالد محمود نے مینجمنٹ اتھارٹی کو ہدایت کی ہے کہ وہ ڈینگی کے پھیلاؤ پر قابو پائیں لیکن ہمیں پاکستانی اور ایک اچھے شہری ہونے کی حیثیت سے اپنے اپنے حصے کی شمع روشن کرنی چاہیے ماحول کو صاف رکھیں سڑکوں ، گلیوں ، گملوں میں پانی اکٹھا نہ ہونے دیں پانی کے کسی بھی جگہ اکھٹے ہونے پر مچھروں کے پیدا ہونے کا زیادہ امکان ہوتا ہے کھڑکیاں بند رکھیں کھانے پینے کی چیزوں اور پانی والے برتنوں کو ڈھانپ کر رکھیں گھروں میں موسکیٹو ریپیلنٹس، اور مچھروں سے بچاؤ کے لیے نیٹ کا استعمال کریں اگر گھر کے کسی فرد کو ڈینگی ہو تو باقی افراد اپنی زیادہ سے زیادہ حفاظت کریں یہ مرض اب وبائی شکل اختیار کر چکا ہے ڈینگی سے بچاؤ کے لیے احتیاط بہت ضروری ہے اس لیے تمام احتیاطی تدابیر کو مدنظر رکھیں احتیاط کے ساتھ ساتھ اس مرض سے نجات حاصل کرنے کا بہترین حل صفائی بھی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :