کوئٹہ کے ہسپتالوں میں لوٹ مار

پیر 20 ستمبر 2021

 Asmat Ullah Shah Mashwani

عصمت اللہ شاہ مشوانی

دیگر صوبوں کی نسبت رقبے کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے بلوچستان میں مریضوں کی صحت کیلئے نا کوئی بہتر نظام ہے اور نا ہی کوئی خاص سہولیات۔ صوبے کے دارالحکومت کوئٹہ کے گورنمنٹ ہسپتال جس میں دو مین ہسپتال آتے ہیں، سنڈیمن سول ہسپتال اور بی ایم سی ہسپتال اور دیگر کا کوئی پرسانِ حال نہیں یہاں کہ گورنمنٹ ہسپتالوں میں ڈاکٹرز مکمل طور پر غیر زمہ دارانہ رویہ اختیار کرتے ہیں، انسان کو انسان نہیں بلکہ حیوان سمجھا جاتا ہے۔

گورنمنٹ ہسپتالوں میں مریض کو علاج معالجہ (شفاء) سے زیادہ تکلیف پہنچتی ہے کیونکہ مریض کا علاج بروقت شروع نہیں کیا جاتا۔ ہسپتالوں میں ہر جگہ گندگی ہی گندگی نظر آتی ہے جس سے مریض اگر آدھا مریض بھی ہوگا تو وہ پورا مریض بن جائیگا کیونکہ ہسپتالوں کے حالات ہی کچھ ایسے ہیں، مریض کے آتے ہی لوٹ مار کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔

(جاری ہے)

مریض کے ساتھ آنے والے آٹینٹنٹ کو زلیل اور خوار کیا جاتا ہے، ایک انجکشن ہو یا کوئی اور ادویات ان سب کیلئے آٹینٹنٹ کے ہاتھ میں پرچی تھما دی جاتی ہے کہ یہ باہر سے لیں آئیں کیونکہ یہاں پر دوائی ختم ہوئی ہے۔

حالانکہ گورنمنٹ ہسپتالوں کے میڈیسن اسٹور مکمل بھرے ہوتے ہیں، جن کو کچھ عرصے بعد فروخت کیا جاتا ہے۔ کچھ دن قبل کوئٹہ کے انتظامیہ نے ایک بڑے پیمانے میں سرکاری ادوایات فروخت کرنے والے کو رنگے ہاتھوں پکڑ کر گرفتار بھی کیا گیا تھا۔ کوئٹہ کے اکثر ڈاکٹرز اور پورے ہسپتال کا حملہ یہ نہیں سوچتا کہ کسی غریب کا علاج گورنمنٹ کے فری فراہم کئے گئے ادویات سے ہوسکے۔

مریض کے رشتہ دار جو کہ فری علاج کا سوچ کر کسی گورنمنٹ ہسپتال آتے ہیں ان کا بھلا ہوجائے۔ کوئٹہ کے گورنمنٹ ہسپتالوں میں ایک خاصیت ضرور ہے یہاں اگر آپ کا کوئی جاننے والا ہو یا آپ کسی بندے سے سفارش کروالیں تو ضرور آپ کو کچھ نا کچھ ادوایات اور آپ کے مریض کا بہتر علاج ممکن ہے۔ اگر کوئی سفارشی شخص نہیں تو اس مریض اور آٹینٹنٹ کا اللہ ہی آخری سہارہ ہے یہاں کے اکثر ڈاکٹرز مختلف ادویاتی اور ٹیسٹ کرنے والے کمپنیوں کے ساتھ اپنا حصہ تہہ کر کے اپنا کمیشن لیتے ہیں ڈاکٹرز کو کوئی فکر ہی نہیں کہ آگے بیٹھا ہوا مریض جس کو ڈاکٹرز ادویات کمیشن والی لکھیں گے اور وہ کمیشن پہلے ہی لے چکا ہے۔

کیا ان ادویات کو یہ مریض خرید بھی سکتا ہے یا نہیں بہت سے سرکاری ڈاکٹرز تو مریضوں کو اپنے پرائیوٹ کلینک آنے کا مشورہ دیتے ہیں، کہ آپ وہاں آئے وہاں ہر سہولت موجود ہے آپ کا علاج یہاں نہیں وہاں بہت بہتر ہوگا کیونکہ یہ ظالم ڈاکٹرز وہاں اس مریض سے ڈبل پیسے وصول کریگا۔ لوٹ مار کا سلسلہ کوئٹہ کے پرائیوٹ ہسپتالوں میں گورنمنٹ ہسپتالوں سے بھی بہت زور و شور سے جاری ہے۔

جہاں مریض کو مختلف طریقوں سے لوٹا جاتا ہے ایک قریبی دوست سے اس حوالے پر بات چیت ہورہی تھی تو انہوں نے مجھے بتایا کہ میں گزشتہ پانچ دنوں سے ایک پرائیوٹ ہوسپٹل میں زیر علاج تھا ان پانچ دنوں میں بغیر کسی آپریشن کے میرے علاج کا خرچہ ایک لاکھ بیس ہزار تک ہوا معلومات کرنے پر پتہ چلا تو ظالم ڈاکٹرز صاحبان نے غیر ضروری ٹیسٹ کروائے، اور دیگر رقم ادوایات اور پرائیوٹ ہسپتال کے رہائش میں خرچ کی گئی تھی۔

آج کل کوئٹہ شہر کے ڈاکٹرز ادویات والی کمپنیوں سے کمشین لینے کے ساتھ ساتھ مریض کو غیر ضروری جسمانی ٹیسٹ کروانے کا بھی کہتے ہیں اور ٹیسٹ کرنے والے کمپنیوں اور اداروں سے بھی دگنی کمیشن وصول کرتے ہیں۔ ایک طرف تو موجودہ تبدیلی حکومت عمران خان نے غریب کا جینا حرام کررکھا ہے جس نے روزمرہ استعمال ہونے والی اشیاء کے ساتھ ساتھ ادوایات کی قیمتوں میں بھی پچاس فیصد تک اضافہ کیا ہے۔

اگر کسی شخص کو کوئی عام بیماری جیساکہ نزلہ یا بخار ہوتا ہے تو وہ شخص اس کا علاج ایک ہزار روپے میں بھی نہیں کرسکتا۔ وہ شخص علاج کریگا تو گھر کے افراد کو کیا کھلائے گا کیونکہ پاکستان میں آج کل ایک غریب شخص صبح سے شام محنت مزدوری کرکے زیادہ سے زیادہ پانچ سو سے سات سو تک بہ مشکل کماتا ہے جس سے وہ اپنی ایک دن کی ضروریات پوری نہیں کرسکتا۔ حکومت وقت کو چائیے کہ وہ ان تمام مسائل کا کوئی پختہ حل نکالیں تاکہ ایک غریب جو دو وقت کی روٹی تو نہیں کھا سکتا مگر کم سے کم اس شخص کا مفت علاج تو ہوسکے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :