جمہوریت کے تضادات (پارٹ2)

منگل 10 مارچ 2020

Atiq Chaudhry

عتیق چوہدری

جمہوریت پر مبنی نظام چیک اینڈ بیلنس پر ہی چلتاہے اور اسی بنیادپر جمہوریت کے استحکام کی جانب پیش رفت ممکن ہوسکتی ہے ۔جمہوری نظام میں آئینی ،قانونی ،انتظامی اور عوامی چیک اینڈ بیلنس اتنا سخت ہوتا ہے کہ کسی کے بچ جانے کی گنجائش نہیں ہوتی ،مگر افسوس ہماری جمہوریت میں چیک اینڈ بیلنس نام کی کوئی چیز نہیں ہے ۔مقننہ عدلیہ اور انتظامیہ جو جمہوریت کے تین بنیادی ستون ہیں، مگر پاکستان میں اداروں میں اختیارات کی کھینچا تانی جاری رہتی ہے ۔

سول ملٹری تناؤ پاکستان میں کوئی نئی بات نہیں ہے ہم دہائیوں سے اس تناؤ سے نکلنے کا حل نہیں نکال سکے ۔اختیارات و بالادستی کی جنگ کیوجہ سے ادارے مستحکم نہیں ہوسکے ۔
جمہوری نظام حکومت میں پارلیمنٹ ایک خود مختار ادارہ ہے جواہم حکومتی فیصلے کرتاہے اورایک آزاد خود مختار عدلیہ اور میڈیا دونوں اس نظام میں چیک اینڈ بیلنس کا کردار اداکرتے ہیں ۔

(جاری ہے)

ہمارے ہاں پارلیمنٹ کو صرف ربڑ سٹمپ کے طور پر استعمال کیاجاتاہے کسی بھی حکومت یا سیاسی جماعت نے زبانی کلامی نعروں ،وعدوں کے علاوہ پارلیمنٹ کی بالادستی کے لئے کام نہیں کیا ۔میاں نوازشریف جب وزیراعظم تھے تووہ شاذونادر ہی اسمبلی میں تشریف لاتے تھے ۔عمران خان وزیراعظم بنے تو انہوں نے وعدہ کیاکہ وہ اسمبلی میں باقاعدگی سے آئیں گے اور برطانوی پارلیمنٹ کی طرح سوالات کے جواب بھی دیں گے اور پارلیمنٹ کو مضبوط کریں گے ۔

مگر عمران خان کا بھی وعدہ اپنے سابقین کے وعدے کی طرح محض وعدہ ہی تھا جوانہوں نے پورا نہیں کیا ۔ہاں جب حکومت کوکوئی خطرہ ہوتا ہے یا اپنے فیصلوں پر پارلیمنٹ کی مہر لگانی ہوتی ہے تو پارلیمنٹ کا تقدس اور اسمبلی کی اہمیت بھی یاد آجاتی ہے پھر وزرا اور وزیراعظم اسمبلی میں جلوہ افروزہوتے ہیں جہاں وہ عام دنوں میں آناگوارہ نہیں کرتے ۔اب تو اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف بھی ملک سے باہر بیٹھ کر اپوزیشن کررہے ہیں ۔

اسمبلی کے وقفہ سوالات میں وزرا و متعلقہ محکموں کااراکین پارلیمنٹ کے سوالات کے جوابات دینے میں غیر سنجیدگی سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ پارلیمنٹ کو کتنا سنجیدہ لے رہے ہیں ۔ اسمبلی اجلاس میں عوامی مسائل وملک کودرپیش بحرانوں کی بجائے زیادہ تر سیشن ہنگامہ آرائی ،ہلڑبازی ،لڑائی جھگڑے ،الزامات وجوابات و سیاسی بیان بازی میں گزرجاتا ہے جس عوام نے منتخب کرکے انہیں اسمبلی میں بھیجاہے ان کی بات توہوتی ہی نہیں ۔

ایک اہم مسئلہ مقتدر جماعتوں کی پارلیمانی پارٹیاں ،کابینہ اور اراکین اسمبلی بھی واضح نظر آنے والی کرپشن اور بے ضابطگیوں پر قیادت کی باز پرس نہیں کرتیں کیونکہ جمہوریت کے نام پر مک مکا کا نظام چل رہا ہے ۔
ستم ظریفی یہ ہے بلیک میلنگ و اپنے مفادات کی خاطر ایک ہی جماعت کے لوگ ایک دوسرے کواپنے اپنے مفادات پر بلیک میل کررہے ہوتے ہیں گذشتہ دنوں وزیراعلی کے پی اور کچھ وزرا شہرام ترکئی، عاطف خان کی مثال ہمارے سامنے ہیں ۔

پنجاب میں بیس لوگوں کا تحریک انصاف کا گروپ واس طرح کی درجنوں مثالیں دی جاسکتی ہیں ۔ حکومتیں اپنے اتحادیوں کے ہاتھوں بلیک میل ہوتی ہیں جیسے موجودہ حکومت مسلم لیگ ق ،ایم کیوایم ،اختر مینگل ،جی ڈی اے سے ہورہی ہے اور ان کے جائز وناجائز مطالبات ماننے پر مجبور ہیں۔ یہ بلیک میلنگ ومفادات کا سلسلہ اوپر سے لیکر نیچے تک یونہی چلتا رہتاہے اراکین اسمبلی نے اپنے اپنے اضلاع اور حلقوں میں مرضی کے ایس ایچ او ،ڈی پی او ،ڈی سی، انتظامی افسر مرضی کے لگوا کر اپنی ریاست قائم کرنی ہوتی ہے اسی مفادات کے بندھن کو جمہوریت کا نام دے دیتے ہیں ۔

پاکستان میں جمہوریت کی بنیادی مضبوط نہ ہونے کی بڑی وجہ یہی مفادات کا کھیل ہے ۔جمہوریت وعسکری آمریت کے دور میں بھی وزیراعلی ،صدر،گورنر ،وزیراعظم جمہوری طریقہ کار واصول ضابطوں کوبھی پس پشت ڈال کر یک جنبش فیصلے کرتے رہے ہیں اور اب بھی ایسا ہی ہورہا ہے۔ادارے موجود ہیں ،عدالتیں موجود ہیں ،اسمبلیاں موجودہیں مگر فیصلے وہی ہورہے ہیں جوبادشاہ وقت چاہتا ہے ۔

قطب الدین ایبک سے لیکر آج کے دن تک ہمارے بادشاہ ،ہمارے حکمران ،ہمارے قائدین کے مزاج میں کچھ خاص فرق نہیں آیا یہ سب لوگ اپنے آپ کو مضبوط کرتے ہیں باقی عوام وادارے جائیں بھاڑ میں ۔
ایک اور اہم ایشو جس کی وجہ سے سب سے زیادہ جمہوریت وجمہوری اداروں کونقصان ہوا وہ ہے سول ملٹری تعلقات میں عدم توازن۔ تاریخی اعتبار سے پاکستان میں سول ملٹری کے مابین اختیارات کی کش مکش کا نقطہ آغاز اُسی وقت سے ہو گیا تھا جب قائداعظم نے انگریز کمانڈر اِن چیف جنرل گریسی کو کشمیر میں پیش قدمی کا حکم دیا۔

پاک بھارت کے فوجی کمانڈر اُس وقت لندن میں اپنے فوجی کمانڈر سربراہ کے ماتحت تھے۔سُو ایک ہی کمانڈ کے افسر کا اپنی ہی کمانڈ کے دوسرے افسر سے جنگ کرنا نامناسب قرار دے کر پہلی حکم عدولی کی گئی۔ جنرل اکبر کی ”پنڈی سازش“ تاریخ کا حصہ ہے۔ ایوب خان کا 1954ء سے اقتدار میں آنے کی پلاننگ کرنے کا اعترافِ جرم ”جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی“ میں موجود ہے۔

یہ بات بھی سچ ہے کہ 1958 میں ایوب خان نے پہلا مارشل لا کا اعلان کیا لیکن اگر1947 سے لیکر1958 تک کے گیارہ سالوں میں جمہوریت کے نام پر آپس کی چپقلش اور جدید مغربی جمہوریت کے اصولوں کے زوال کا جائزہ لیں تومارشل لا کا نافذ کیا جاناکوئی اچھنبے کی بات نظر نہیں آتی ۔ جنرل موسیٰ کے بعد یحییٰ خان کی خواہشِ اقتدار کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ 
1971ء میں سقوطِ مشرقی پاکستان کے المیے نے جنرل گل حسن اور ائر مارشل رحیم کو اقتدار بھٹو کو سونپنے پر مجبور کر دیا تھا۔

ذوالفقار علی بھٹو کوراستے سے ہٹانے کے بعدجنرل ضیاء الحق 12 سال تک ایوانِ صدر میں براجمان رہے اور انہوں نے آئین میں ترامیم کرکے تمام اختیارات صدر کو منتقل کرلئے تھے ۔ نواز شریف 1990ء میں پہلی مرتبہ وزیراعظم بنے تو خلیجی جنگ اور آرمی چیف کی صدام حسین کی حمایت حکومت کی پالیسی سے متصادم تھی۔ اس سے حکومت پریشان رہی۔ اس کے بعد 1992ء میں جنرل آصف نواز نے سندھ آپریشن کا رُخ ایم کیو ایم کی جانب موڑ کر حکومت کو دوراہے پر لاکھڑا کیا۔

فوج کے ساتھ مسائل کے ساتھ نوے کی دہائی میں ایوان صدر و ایوان وزیراعظم میں بھی اختیارات کی جنگ لگی رہی ۔نوازشریف کی غلام اسحق خان اور بے نظیر بھٹو کی صدر فاروق خان لغاری سے بہت سے معاملات پر شدید اختلاف رائے و کھینچاتانی رہی ۔ صدرکے پاس 58 ٹو بی کا اختیار تھا جس سے وہ وزیراعظم کو ڈراتے تھے ۔
مسلم لیگ ن اور پی پی کی 90 کی دہائی میں شدید سیاسی لڑائی والزامات نے بھی جمہوری اداروں کو مضبوط نہیں ہونے دیا یا یوں کہہ لیں جمہوری اداروں کی مضبوطی کی طرف ان کی عدم توجہی رہی ۔

نواز شریف کا اس کے بعد واسطہ اپنے تیسرے آرمی چیف جنرل وحید کاکڑ سے پڑا۔ نواز شریف جنرل فرخ کو چیف بنانا چاہتے تھے۔ لیکن آٹھویں ترمیم کی تلوار استعمال کرتے ہوئے غلام اسحق خان نے اپنی مرضی منوائی۔ اُس کے بعد نوازشریف کے منتخب کردہ چیف پرویز مشرف نے ان کی منتخب حکومت کا تختہ اُلٹ دیا۔ یوں اسلم بیگ سے آصف نواز اور وحید کاکڑ سے جہانگیر کرامت اور پھر پرویز مشرف تک پانچ فوجی سپہ سالاروں سے نوازشریف کے تعلقات کی تاریخ خوشگوار نہیں رہی۔

پرویز مشرف نے اختیار سنبھالتے ہی اپنی من مرضی کی آئین میں ترامیم کی،پی سی او کے تحت ججوں سے حلف لیا ۔سیاسی جماعتوں سے لوگ اکٹھے کرکے مسلم لیگ ق بنائی ۔نیا بلدیاتی نظام بنا کر ضلعی حکومتوں کا نظام دیا اور دنیا کو دکھانے کے لئے الیکشن کرواکر مسلم لیگ ق کی حکومت بنوائی ۔ مسلم لیگ ق کے دور حکومت میں اختیارات کا مرکز ومحور جنرل پرویزمشرف کی ذات ہی تھی ،کمزور اپوزیشن یاجسے ہم فرینڈلی اپوزیشن بھی کہہ سکتے ہیں نے مشرف کو سخت ٹائم نہیں دیا۔

 مشرف بھی پارلیمنٹ و کیبنٹ کوزیادہ اہمیت نہیں دیتے تھے جس کی وجہ سے ادارے مضبوط نہیں ہوسکے ۔مشرف نے تو ایمرجنسی لگا کر چیف جسٹس افتخار چوہدری کو ہٹانے کی کوشش کی تھی مگر عدلیہ بحالی تحریک نے پرویزمشرف کے اقتدار کوبہت کمزور کیا اور عدلیہ کے ادارے کے وقار میں بھی اضافہ ہوا ۔این آر اوکے بعد نوازشریف اور بے نظیر بھٹوپاکستان واپس آگئے ۔

2008 میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پی پی پی کی حکومت بنی اس دوران بھی فوج کے ساتھ اختیارات کی جنگ جاری رہی مگر اٹھارویں ترمیم کے نتیجے میں وزیراعظم و پارلیمنٹ کو مضبوط بنانے کے لئے کافی اقدامات کئے گے ہیں ۔
2013 میں جب تیسری دفعہ نوازشریف وزیراعظم بنے تودھرنوں کیساتھ ساتھ ڈان لیکس و دیگر ایشوز کا سامنا رہا ۔موجودہ حکومت کے بظاہر فوج سے تعلقات بہت مثالی ہیں مگر اس میں کبھی کبھی تناؤ نظر آتا رہتا ہے ۔

میڈیامیں تو یہی تاثر دیا جاتا ہے کہ سب ادارے ایک پیج پر ہیں مگر یاران نکتہ دان کے بقول اکثر اوقات وہ کتاب ہی گم ہوجاتی ہے جس کے پیج میں سب ایک پیج پر ہوتے ہیں ۔
آخر میں اس بات کو یاد رکھنا چاہیے کہ سول ملٹری اتفاق کی خواہش چاہے کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہو، مگر یہ ہمیشہ ممکن نہیں ہوگا۔ سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کو اس حقیقت کا معترف ہونا چاہیے کہ تمام جمہوریتوں میں یہ روایت ہے کہ منتخب سیاسی حکومت کے پاس ہی ہر معاملے پر فیصلے کا حتمی اختیار ہے۔

مگر سیاسی قیادت کو بھی یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ انہیں سلطنت کے بادشاہوں کے طور پر منتخب نہیں کیا جاتا، بلکہ انہیں پارلیمنٹ میں وسیع تر مشاورت کے مرحلے کے ذریعے کام کرنا ہوتا ہے۔ کابینائیں فیصلہ سازی کا ایک اہم جزو ہیں اور انہیں نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔اگر ہم واقعی ہی ملک میں جمہوریت و اداروں کومضبوط کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں شخصیات نہیں اداروں کومضبوط کرنا ہوگا ۔

تمام اسٹیک ہولڈرز کوبیٹھ کر اختیارات واداروں کے حدود و قیود کوازسرنو زیر بحث لاکر نیوسوشل کنٹریٹ کرنا چاہئے ۔ جمہوریت کی کامیابی کا تیسراراز عدلیہ کی بالادستی ہوتی ہے ۔جب حکومتیں و پارلیمنٹ آئین وقانون سے متجاوز اقدامات کر رہی ہوتی ہیں توعدلیہ ان کا راستہ روکتی ہے مگر افسوس پاکستان میں عدلیہ اس طرح ایک مضبوط آئینی کلیدی فورم نہیں بن سکی جس کی کسی بھی بے مثال جمہوری معاشرے میں ضرورت ہوتی ہے ۔

آزاد وخود مختار عدلیہ کا قیام جمہوریت کی اہم شرائط میں سے ایک ہے اگر عدلیہ آزاد نہیں ہوگی توافراد کے بنیادی حقوق سلب کر لئے جائیں گے ۔اور جب عوام کوبنیادی حقوق ہی میسر نہ ہوں گے توپھر جمہوریت کی پاسداری نہ ہوسکے گی ۔ایک اور اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کے مخصوص سیاسی ،معاشی وسماجی صورتحال میں شہریوں کوکس قسم کا سوشل کنٹریکٹ چاہئے ۔

سوشل کنٹریکٹ یعنی سماجی ،معاہدہ جس کو ابن خلدون نے عمرانی معاہدہ کہاتھا کے دوحصے ہوتے ہیں ایک ریاست وشہریوں کے درمیان، دوسرا مرکز اور اکائیوں کے درمیان تعلق ۔فرد اور ریاست کے مابین تعلق کا سوال بنیادی طور پر لبرل پیراڈائیم نے اٹھایا تھا ۔یونان کے زمانے میں فرد کے حوالے سے کوئی ڈسکورس نہیں تھا جب یورپ میں صنعتکاری آئی اور نشاتہ ثانیہ کا دور آیا تو ہابس ،لاک اور پھر خاص طور پر روسو اور لبرل فلاسفرز تھے انہوں نے انفرادی آزادی کا سوال اٹھایا ۔

روسو کا ایک شہرہ آفاق جملہ جو تاریخ کی کتابوں میں مہر تصدیق ثبت کرچکاہے کہ ”انسان آزاد پید اہوتا ہے مگر یہاں دیکھووہ پابہ زنجیر ہے “Man is born free ,but he is in chains every where 
 اگر اسی تناطر میں پاکستان کی ریاست کودیکھیں تو پاکستان کی ریاست میں انصاف نہیں ہے ،یہ بھی عمرانی معاہدے کا سوال ہے ،انصاف فرد کے ساتھ ہے نہ کمیونٹی کے ساتھ ،نہ قوموں کے ساتھ اور نہ صوبوں کے ساتھ ۔

اور ریاست کے اس کی فراہمی کے لئے میکنزم کو ازسرنو تشکیل دینا ہوگا ۔اگرچہ آئین پاکستان کے آرٹیکلز 8 سے لیکر28 تک بنیادی انسانی حقوق دئیے ہیں مگر ان پر عملدرآمد نہیں ہورہا ۔مختصرا جب تک اداروں میں چیک اینڈ بیلنس کا نظام نہیں ہوگا اور شہریوں کوان کے بنیادی حقوق نہیں ملیں گے ملک میں حقیقی جمہوریت و جمہوری اداروں کی مضبوطی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا ۔

جب تک وہ تمام لوازمات پورے نہیں ہوتے جوجمہوری نظام کے لئے ضروری ہوتے ہیں نام نہاد جمہوریت ٹوٹ پھوٹ کاشکار رہے گی ۔
(نوٹ :وفاق اور اکائیوں کے درمیان اختیارات ،مقامی حکومتوں کا نظام ،جمہوریت کی مضبوطی میں میڈیا کا کردار ،مہنگا نظام انتخاب، پارلیمانی جمہوری نظام یا صدارتی نظام جمہوریت کا تنقیدی جائزہ اگلے کالموں میں لیں گے کہ جمہوریت کن تضادات کی وجہ سے مضبوط نہیں ہوسکی )

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :