زاویہ !!!

جمعرات 5 ستمبر 2019

Ayesha Noor

عائشہ نور

ہم مایوس کیوں ہوتےہیں ؟؟؟ یہ بڑا اہم سوال ہے۔  کیا وجہ ہےکہ لوگ زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر مایوس ہوجاتے ہیں ۔ اس کی وجہ دوسرے لوگ ہی ہوتےہیں ۔ ایک وقت آتا ہے کہ انسان ہررشتے , ہردوستی , ہر تعلق سے مایوس ہوجاتا ہے ۔ اس کی وجہ توقعات ہیں , جو کہ ہم دوسروں سے وابستہ کرلیتے ہیں ۔ چونکہ ہر عمل کا ایک ردعمل ہوتا ہے۔ اور انسانی تعلقات سے مایوس ہوکر ہم یقیناً بیزار ہوجاتے ہیں ۔

اس بیزاری کی کیفیت میں ہم نئے تعلقات نہیں بنانا چاہتے اور نہ ہی مزید توقعات رکھنا چاہتے ہیں ۔ ہم اپنے ماضی کے حالات و واقعات کو خود پر حاوی کرلیتے ہیں ۔ مگر یہ ہم فطری طور پر اور غیر ارادی طورپر کرتےہیں ۔ کیونکہ جب ہمیں پے در پے دھوکہ یا دکھ ملے تو ہم بیزار ہوجاتے ہیں ۔

(جاری ہے)

ایسی صورتحال میں اکثر لوگ اپنی کیفیات کسی دوسرے انسان سے شیئر نہیں کرپاتے ۔

رفتہ رفتہ ہم ڈپریشن کا شکار ہونے لگتے ہیں ۔ اور وہ مایوسی اور بیزاری کچھ اس طرح ہمارے مزاج پر حاوی ہوجاتی ہے کہ ہم تنہائی پسند , غصیلے اور چڑچڑے ہوجاتے ہیں ۔ ہم دوسروں کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانا ترک کردیتے ہیں ۔ ہم خود کو یاد ماضی کے خول میں قید کرلیتے ہیں ۔ یہ ایسا نفسیاتی حصار ہے جو کہ ہمیں نئے تجربات سے روکتا ہے اور ماضی کے تلخ تجربات کا حوالہ دے کر ہمیں خوف دلاتا ہے۔


یہ ہی  وہ وقت ہے کہ جب ہماری تنہا پسندی ہمارے مستقبل پر فیصلہ کن انداز میں اثرانداز ہوتی ہے۔ ہم میں سے کچھ لوگ منفی سوچوں میں خود کو اس قدر جکڑ لیتے ہیں کہ وہ منفی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا سنجیدگی سے سوچ لیتے ہیں ۔ اسی سوچ کو بدلہ لینے کی خواہش کہتے ہیں ۔ یہ انتقام کی وہ آگ ہے , جو بہت کچھ جلا کر بھسم کردیتی ہے۔ انسان ہر اس شخص کو نقصان پہنچانے کی شعوری کوشش شروع کردیتا ہے , جس نے اسےماضی میں  دکھ دیا تھا ۔

بعض سنگین ترین صورتوں میں لوگ اپنے دشمن کے خون کے پیاسے بھی ہوجاتے ہیں ۔ اور انتقام کی یہ آگ وہ دشمن کے خون سے ہی بھجاتے ہیں ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ مذہب  " معاف " کرنے کا درس دیتا ہے۔ لہذٰا جو لوگ دنیا سے بیزار ہوکر مذہب میں پناہ لیتے ہیں , وہ مزید کوتاہیوں سے بچ جاتے ہیں ۔ یقیناً کسی کا جرم / قصور معاف کرنا آسان نہیں ہوتاہے ۔ اس کےلیے دل میں رحم کا مادہ ہونا بہت ضروری ہے۔

کچھ لوگ مذہبی تعلیمات کی پناہ گاہ میں آکر اپنے دل میں رحم کا مادہ پیدا کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں ۔ اگرچہ وہ اپنے دشمن سے شدید نفرت برقرار ہی کیوں نہ رکھیں مگر وہ انتقام لینے کی بجائے معاف کردیتے ہیں ۔ مگر ایسے لوگ آج کے دور میں بہت کم ہیں ۔ جب کوئی انسان کے دل میں نفرت کا بیج بو دیتا ہے تو پھر یقیناً اسے معاف کرنا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔

نفرت اورانتقام کے ان  مہلک جذبات کوصرف شفقت ومحبت اور بھرپور توجہ سے ہی ٹھنڈا کیاجاسکتا ہے۔ سچ  تویہ ہے کہ نفرت و انتقام سے بھرے لوگ اندر     سےبہت ٹوٹ چکےہوتےہیں ۔ ان کونہ تو پھر   اپنی فکرہوتی ہےاورنہ کسی دوسرے کی پرواہ باقی رہتی ہے۔ اگرہمارےاردگردایسے بیزار لوگ موجود ہیں توانہیں یکسرنظراندازنہ کیجیئے۔ انہیں وقت دیجیئے , یادماضی کےحصارسےباہرنکالیے۔

انہیں احساس دلائیےکہ اگرچہ آپ  ان کی محرومیوں کا ازالہ تونہیں کرسکتےمگرانہیں زندگی کو جینےکی نئ امید ضرور دلاسکتےہیں ۔ انہیں زندگی کی   رعنائیوں کی طرف واپس لانےکی سہی کرکے    تودیکھیے۔ ٹوٹےہوئے دلوں کوجوڑنا اورانہیں     زندگی کی رونق کی طرف واپس لانا مشکل    ضرورہےمگر ناممکن نہیں ہے۔ بس انسانی ہمدردرد اورخلوصِ نیت سے کوشش کی ضرورت ہے۔

اگراورکچھ نہ کرسکیں توکم  ازکم ان کی کیفیت کا مذاق نہ اڑائیں۔ کیونکہ       کسی کی خاموشی کے پیچھے کوئی گہرا راز   , کوئی اذیت , کوئی کرب , کوئی درد , کوئی    غم چھپا ہواہوسکتا ہے ۔ کسی کےماضی کو   کریدنے کی کوشش بھی نہیں کرنی چاہیے ۔ کیونکہ ہرخاموشی اور بیزاری کےپیچھےکوئی     رازہوتاہے۔ اگرکوئی ہمیں اپنا ہمرازنہیں بنانا     چاہتا تو اپنےتجسس میں اس کا ماضی کریدنے       کی کوشش نہ کریں۔

اگرکچھ کرسکتےہیں تو   اس انسان کا حوصلہ بڑھائیے , یہ زیادہ      مشکل نہیں ہے , بس اسے "اپنےہونے" کا  احساس دلائیے ۔ یہاں تک کہ اسےیقین آجائے      کہ آپ خوشی کےہرپل سے لےکر دکھ اور   مشکل کی گھڑی میں اس کے ساتھ ہیں ۔  یہ وہ  احساس ہوتاہے جوبہت پراثرہے , اتنا کہ یہ  بہت کچھ بدل سکتاہے , رویوں کوبھی اور    مزاجوں کوبھی , اور سوچوں کو بھی ۔ یہ ہی  احساسِ کمتری اوراحساس محرومی کا اصل    توڑہے۔  کیونکہ غریب ,  نظرانداز, تنہا , مایوس , بیزار, اور احساس کمتری و محرومی  میں مبتلا لوگ جرائم کی دنیا کا پہلا  نشانہ , اولین شکار اور آسان ترین حدف ہوتےہیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :