
سچ کا قحط
جمعرات 3 مارچ 2016

اظہر تھراج
(جاری ہے)
سوال یہ ہے کہ صرف یہ چند ہزار ہی پاکستان کی آواز ہیں؟کیا یہ چند ہی جمہور ہیں؟سب کچھ یہی ہیں تو باقی کیا ہیں جن کی حمایت سے یہ پارلیمنٹ آباد ہوا؟یہ صوبائی اسمبلیوں میں رونق لگی؟یہ سیاست کا کاروبار چل رہا ہے،کیا یہ ٹیکس دینے والے کیڑے مکوڑے اور کھانے والے ہی سب کچھ ہیں؟
چند ہزار کوچھوڑ کرجو کروڑوں میں ہیں ان کے ذہنوں میں یہ سوال بھی جنم لے رہا ہے کہ جو ممتاز قادری کے غصے اور ایکٹ کی وجہ تھی اس وجہ کو ختم کیا جائے گا؟گستاخ رسول،ملعونہ آسیہ مسیح کو پھانسی دی جائے گی جس کو پانچ سال سے سزا تو ہوچکی لیکن عملدرآمد نہیں ہوا،رمشا مسیح،جس کو نابالغ قرار دے کر چھوڑ دیا گیا(حالانکہ وہ بالغ تھی)کو واپس لا کر اس کے کیے کی سزا ملے گی؟
یہ بات بھی سچ ہے کہ احتجاج کرنیوالے بھی دودھ کے دھلے نہیں،ان میں بھی ایسے شامل ہیں جو بکاؤ مال کے نام سے شہرت رکھتے ہیں،معاملہ ٹھنڈا ہونے اور پیسہ اچھا ملنے پر خاموش ہوجائیں گے،عوام نے بھی حرمت رسول ایکٹ غلط استعمال کیا اور ایسے بے گناہوں کو سزا دی جو بے قصور تھے جن کو ذاتی عناد کی بھینٹ چڑھایا گیا جو نہیں ہونا چاہیے تھا،محبت رسولﷺ اور عشق رسولﷺ ہر مسلمان کا ایمان ہے،اس کے بغیر تو ایمان بھی نامکمل ہے،گستاخان رسول کی سزا قانون میں موجود ہے اور قانون ان کو سزا دے سکتا ہے،کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ قانون کو ہاتھ میں لے کر خود ہی مدعی ،خود ہی وکیل اور خود ہی منصف، بن کرکسی کو سزا دیتا پھرے۔
اسی طرح تحفظ خواتین بل پر شور مچانے والوں کو مشورہ ہے کہ پہلے اس قانون کا باریکی سے جائزہ لیں،اگر دیکھا جائے تواس قانون میں کوئی قباحت نہیں،اس قانون سے ان کو خوفزدہ ہونا چاہیے جو آوارہ گرد ہیں جو بیویوں کو اپنی باندی سمجھتے ہیں،جن کی راتیں کہیں اور دن کہیں اور گزرتے ہیں،کہاں لکھا ہے کہ بیویوں پر تشدد کیا جائے؟بیٹیوں کی مرضی کے بغیر ان کی شادی کا فیصلہ کیا جائے،عورت کوئی بھیڑ بکری تو ہے نہیں جس کو جہاں چاہا،جس کے ساتھ چاہا کھونٹے سے باندھ دیا،اس قانون سے ان قانون بنانے والوں کو ڈرنا چاہیے جو سب سے زیادہ قانون شکن ہیں مولانا کو نہیں۔قانون بنانیوالوں نے مرد کے پاؤں میں تو بیڑیاں ڈال دیں ہیں عورتوں کیلئے بھی کوئی شکنجہ تیار کرنا چاہیے تھا کہ وہ مردوں کو کسی کھاتے میں ڈالے بغیر غیروں کی کھیتی میں چرتی پھرتی رہیں۔
ہمارے معاشرے میں مسئلہ کسی قانون کا نہیں،کسی کو سزا دینے کا نہیں،مسئلہ یہ ہے کہ یہاں سچ بولنے والوں کا قحط ہے،سچ لکھنے والوں کا فقدان ہے،سب سے بڑھ کر سچ سننے والوں کی کمی ہے،کوئی سچ لکھنا نہیں چاہتا،کوئی سچ بولنا نہیں چاہتا،اگر کوئی بولتا بھی ہے تو کوئی اسے سننا پسند نہیں کرتا۔
مرحوم ممتاز قادری نے غلط کیا یا سہی یہ الگ بحث ہے لیکن یہ بات اٹل ہے کہ آواز دبانے سے دبتی نہیں بلکہ زیادہ بلند ہوتی ہے،ظلم فی الوقت دب تو جاتاہے لیکن انتقام بن کر ظاہر ہوتا ہے،حکومت نے پھانسی دے کر کوئی کامیابی حاصل نہیں کی بلکہ اپنے لیے گڑھا کھودا ہے،صاحب اقتدار یاد رکھیں کہ کپتان اور قادری کے دھرنے وہ نہیں کرسکے جو یہ ایک پنڈی کا جنازہ کر جائے گا۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
متعلقہ عنوان :
اظہر تھراج کے کالمز
-
”وزیر اعظم استعفیٰ نہیں دینگے“
جمعہ 28 اپریل 2017
-
جمعیت،میری پہلی محبت
بدھ 22 مارچ 2017
-
ویلڈن پاکستان
منگل 7 مارچ 2017
-
کاش!آپریشن”ردالفساد“کی نوبت نہ آتی
جمعرات 23 فروری 2017
-
ہم بڑی دھوم سے بس سوگ منالیتے ہیں۔۔۔!!
جمعہ 17 فروری 2017
-
دنیا بدل رہی وزارت خارجہ کے”بابے“بھی بدلے جائیں
ہفتہ 10 ستمبر 2016
-
”پاکستان جہنم نہیں ہے“
اتوار 28 اگست 2016
-
وزیر اعظم صاحب! جو کہا سچ کر دکھائیں
منگل 23 اگست 2016
اظہر تھراج کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.