حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں

پیر 27 اپریل 2020

Bint E Mehar

بنت مہر

اشفاق احمدصاحب نے زاویہ میں ایک فکر آموز واقعے کا ذکر کرتے ہوئے بتایا ''جب میں اٹلی کے شہر روم میں مقیم تھا تو ایک بارمیرا چالان ہو گیا اور اپنا جرمانہ بروقت ادا نہ کرنے پر مجھے مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش ہونا پڑا جب جج نے مجھ سے پوچھا کہ جرمانے میں تاخیر کیوں ہوئی تو میں نے کہا کہ میں ایک استاد ہوں اور کچھ دنوں سے مصروف تھا اس لیے جرمانہ ادا نہیں کر پایااس سے پہلے کہ میں اپنا جملہ مکمل کرتا جج اپنی جگہ سے کھڑا ہو گیا اور بلند آواز میں کہا ''عدالت میں ایک استاد تشریف لائے ہیں ''یہ سنتے ہی عدالت میں موجود سب افراد کھڑے ہو گئے چالان جمع کروانے کی نئی تاریخ دی گئی اور عدالت طلبی پر جج نے معذرت کی''اشفاق احمد کہتے ہیں کہ اس وقت مجھے یہ نکتہ سمجھ آیا کہ ان ممالک کی ترقی کا راز یہ ہے کہ وہ لوگ استاد کا احترام کرتے ہیں
اور شاید ہماری تنزلی کے پیچھے چھپا اہم محرک استاد کا احترام نہ کرنا ہے ہمارے معاشرے میں استاد کو سب سے کم وقعت سمجھا جاتا ہے اساتذہ کو دبانا، ڈرا نا اوردھمکانا ہمارے معاشرے میں بہت عام ہو چکاہے علم سکھانے والا ہر شخص خواہ وہ کسی بھی شعبے سے تعلق رکھتا ہو اس کی تعظیم و توقیر بہرحال لازم ہے ہم لوگ جدید عصری علوم جیسے طب،طبیعات ،کیمیات،سیاسیات، معاشیات،عمرانیات، نفسیات اور ریاضیات پر دسترس رکھنے والے ماہرین کو کچھ نہ کچھ رعایت دے کر ان کی عزت و تکریم بجا لاتے ہیں جو ان کا حق ہے لیکن اگر بات کی جائے دینی علوم کے ماہرین واساتذہ کی تو انہیں ویسی عزت و تکریم دی جاتی ہے نہ عالم و استاد کا درجہ دیا جاتاہے دینی علماء کی چھوٹی سے چھوٹی غلطی پکڑ کر اس غلطی کو اچھالنا اور اور انہیں ذلیل و رسوا کرنا ہمارے معاشرے کا معمول بن چکا ہے تمام علوم کے ماہر علماء کا احترام اپنی جگہ مقدم ہے مگر بحیثیت مسلمان سب سے پہلے دینی علماء کی عزت و احترام ہم پہ لازم و ملزم ہے کیونکہ ایمان قبول کرنے کے بعد سب سے اہم چیز علم دین ہے اور اس تناظر میں عالم دین کی شان و عظمت کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے دینی علماء کی شان یہ ہے کہ اللہ رب العزت کلام پاک میں سورہ زمر کی آیت نمبر9 میں علماء کی شان ان الفاظ میں بیان فرماتا ہے
''اے نبی! کہہ دو کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے برابر ہو سکتے ہیں''
علماء کرام کی شان کے بارے میں نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا
''علماء انبیاء کے وارث ہیں اور نبیوں نے اپنا وارث درہم و دینار کو نہیں بلکہ علم کا وارث بنایا تو جس نے علم حاصل کیا اس نے ایک وافر حصہ لیا(صحیح ا بن ماجہ:183)''
انبیاء کرام کو جو علوم وحی الٰہی کے ذریعے حاصل ہوئے ان مقدس علوم کی مقدس میراث کو علماء کرام نے عوام الناس تک پہنچانے کی ذمہ داری اٹھائی اور بدلتے وقت کے بدلتے تقاضوں کے ساتھ مسائل میں جدت کے باوجود احکامات الٰہی اور فرامین رسول ﷺ کی روشنی میں ان مسائل کا حل ہم تک پہنچایاکفر و گمراہی کے اس دور میں جب پوری دنیا مسائل کی آماجگاہ بن چکی ہے ایسے کڑے وقت میں امت مسلمہ کی ہدایت و راہنمائی کابیڑہ اٹھانا کسی عام انسان کے بس کی بات نہیں تھی اور اگر علماء کرام دینی احکامات کو ہم تک نہ پہنچاتے تو دین اسلام کی علمی میراث سے کیسے فیض پاتے؟حصول علم اور پھر اس علم کو عوام الناس تک پہنچانے میں علماء کی کاوشیں ناقابل فراموش ہیںآ ج ہمارے،گھروں، دفاتر،مکتبات اور ٹیکنالوجی کے آلات میں ہزاروں لاکھوں اسلامی کتب کی موجودگی کے پیچھے انہی علماء کرام کی کوششیں کارفرما ہیں ورنہ وہ وقت بھی تھا جب اشاعتی ادارے نہیں تھے اور چھپی ہوئی کتابوں کی جگہ قلمی نسخے ہوا کرتے تھے طلباء دین اپنے ہاتھوں سے کتابیں لکھتے اور حصول علم کے لیے ہزاروں میل کے سفر کی مشقتیں برداشت کرتے۔

(جاری ہے)

امام التابعین سعید بن المسیب فرماتے ہیں ''میں ایک حدیث کو حاصل کرنے کے لیے کئی کئی دن اور راتیں سفر میں گزارتا تھا''اسی طرح امام حافظ بن طاہر مقدسی نے حصول علم کے دوران درپیش مشکلات کا ذکر ان الفاظ میں کیا'' حدیث کا علم سیکھنے کے لیے دوران سفر دو مرتبہ ایسا ہوا کہ میرے قدموں سے خون بہنے لگا'' اللہ اللہ! ان اللہ والوں کا ہی حوصلہ اور طاقت تھی جو اتنی سختیاں برداشت کر کے علم و حدیث کا خزانہ ہم جیسے نکموں تک پہنچا گئے اور اس کے لیے علمائے کرام نے گھر بار کو چھوڑا گرمی سردی اور بھوک پیاس کی صعوبتیں برداشت کیں محدثین سے براہراست ملاقاتیں کی اور جب کسی حدیث کے صحیح ہونے کا یقین ہو گیا تو پھر اسے اپنے پاس محفوظ کر کے آگے پہنچایا کیا ہم میں سے کوئی حصول علم دین کے لیے ایسی مشکلات کا تصور کر سکتا ہے؟ ہمیں تو گھر بیٹھے سب کچھ میسر ہے اور ہمیں اس کی قدر نہیں یہی وجہ ہے کہ ہم انبیاء کرام کے ورثا کی چھوٹی سی بات پہ پکڑ کر کے کئی کئی دن تک انہیں بے عزت کرتے ہیں ان کے حوصلے کو آزماتے ہیں اور انہیں جھکا کر فتح کا جشن مناتے ہیں دین کی تبلیغ و اشاعت کرنے والوں کے ساتھ یہ رویہ کس حد تک درست ہے یہ حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم کے اس فرمان سے بخوبی عیاں ہیں
 '' عالم کا تم پر یہ حق ہے کہ تم مجلس میں لوگوں کو بالعموم سلام کرو اورعالم کو خصوصیت کے ساتھ علیحدہ سلام کرو اگر ان کے سامنے بیٹھو تو ہاتھ یا آنکھوں سے اشارے نہ کرو جب وہ کوئی مسئلہ بتائیں تو یہ نہ کہو کہ فلاں نے تو اس کے خلاف کہا ہے ان کے سامنے کسی کی غیبت نہ کرو نہ ان کی مجلس میں کسی سے سرگوشی کرو ان کے کپڑے کو نہ پکڑو کیونکہ وہ کھجور کے درخت کی طرح ہے تم منتظر رہو کہ تم پر کب اس سے کوئی پھل گرتا ہے کیونکہ مومن عالم کا اجر، روزے دار اور قیام کرنے والے عابد اور اللہ پاک کے راستے میں جہاد کرنے والے شخص سے زیادہ ہے اور جب عالم مرتا ہے تو اسلام میں ایسا خلا پیدا ہوتا ہے جسے قیامت تک پر نہیں کیا جا سکتا''
حضرت علی المرتضیٰ کے اس فرمان کی روشنی میں اگر ہم اپنا جائزہ لیں تو کیا ہم لوگ علماء کرام کے حقوق ادا کر پا رہے ہیں کیا ہم ان کی ویسی ہی تعظیم کر پا رہے ہیں جیسا کہ ہمیں سکھایا گیا کیا ہم ان کی رائے سے اختلاف حدودوقیود اور شائستگی کے دائرے میں رہ کر نہیں کر سکتے کیا علماء کی یہ شان ہے کہ معمولی بات پہ ان کے ساتھ توہین آمیز رویہ رکھا جائے؟اور اگر علماء کرام کے ساتھ ہمارے رویوں کی اہانت کا یہی انداز رہا تو آنے والے وقت میں کون اسلامی احکامات کو ہم تک پہنچانے کی جرات کر پائے گا؟ کہیں ہم اپنے رویے سے اپنی آنے والی نسلوں کو علم دین کے خزینوں سے محروم تو نہیں کر رہے؟ ان تمام پہلوؤں پر غور کرنے کے بعد نتیجہ اخذ کر لیں فیصلہ آپ کے اپنے ہاتھ میں ہے
عالم ہے فقط مومن جانباز کی میراث
مومن نہیں جو صاحب لولاکﷺ نہیں ہے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :