ڈاکٹررابندر ناتھ ٹیگورنے1938میں ڈاکٹر علامہ اقبال کی وفات کے موقع پرتاریخی الفاظ کہے تھے کہ ''اقبال کی موت سے ادب کی دنیا میں ایک خلا پیدا ہو گیاہے جو ایک جان لیوا زخم کی طرح اچھا ہونے اور پوری طرح بھرنے میں بہت وقت لے گا''اوریہ حقیقت ہے کہ آج 82برس گزر جانے کے باوجود بھی وہ زخم بھر نہ سکا علامہ اقبال ایک شخصیت یا شاعر ہی نہیں بلکہ ایک عہد کا نام ہے جن سے بہت سے نئے عہد جنم لے رہے ہیں اقبال آسمان علم وادب کے وہ آفتا ب ہیں جن سے ہزاروں ستارے روشنی مستعار لیتے ہیں مگر اقبال اپنی جگہ پہ اسی آب تاب سے جگمگا کر دوسروں کو اپنی روشنی میں رستہ دکھاتے چلے جا رہے ہیں علامہ اقبال کی شاعری کا ادبی ورثہ عالمی شہرت رکھتا ہے اقبال کی شاعری نہ صرف پاک و ہندبلکہ ایران، افغانستان ،انگلستان ،جرمن،فرانس،روس، امریکہ اور عرب ممالک میں بھی خصوصی اہمیت کی حامل ہے اقبال کی شاعرانہ عظمت کا عتراف بہت سارے ممالک نے کیا ہے ان میں ازہر یونیورسٹی قاہرہ کے شیخ الجامعہ، مصر کے ڈاکٹر محمد حسنین ہیکل، محمد علی پاشا، شہزادہ ولی محمد مانگرول، روم کے ڈاکٹر اسکاریا پروفیسر جنٹلی،ڈاکٹر نکلسن، مسولینی، اٹلی کے پرنس کیتانی بیرن، فلسطین کے مفتی اعظم امین الحسینی، پیرس کے میگ نوں برگساں، اسپین کے پروفیسرآسین، افغانستان کے نادر شاہ اور سردار صلاح الدین جیسے عظیم نام بالخصوص قابل ذکر ہیں اقبال کے ہم عصروں میں سے جسٹس امیر علی، رابندر ناتھ ٹیگور، محمد علی جناح، مولانا ابولکلام آزاد، مہاتما گاندھی اورپنڈت جواہر لال نہرو نے ان کی عظمت کا دل سے اعتراف کیا اقبال کی شاعری کی سب سے نمایاں خصوصیت یہ ہے دنیا کا کوئی موضوع ،تحریک اور رجحان ایسا نہیں جس سے اقبال واقف نہ ہوں جس کا انہوں نے مطالعہ نہ کیا ہو اور جسے وہ موضوع بحث نہ لائے ہوں اور اقبال کی ان خصوصیات کی وجہ سے ہی ان کی شاعری اپنے قاری پر سوچ و فکر کے نئے در وا کرتی ہے ان کی آفاقی شاعری اگر ایک طرف انفرادی کردار کی تعمیر و تشکیل پہ زور دیتی ہے تو دوسری طرف قوم کے نوجوانوں کو تقدیر بدلنے کی جدوجہدپر ابھارتی ہے اقبال کی شاعری کی یہی نمایاں خصوصیات انہیں تمام ادوارکا ممتاز شاعر بناتی ہیں اور اسی وجہ سے ان کی شاعری کو آفاقی درجہ حاصل ہے اقبال کی شاعری کو بیرون ممالک میں پڑھانے کے پیچھے بھی یہی وجہ پوشیدہ ہے کہ اقبال کی شاعری بالخصوص نوجوانوں کی تربیت میں نمایاں کردار ادا کرتی ہے دنیا اقبال کو ان کی شاعری سے جانتی ہے لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ ہم اقبال کو کتنا جانتے ہیں بچپن میں یاد کروائے مضمون کی وجہ سے ان کی تاریخ پیدائش، تاریخ وفات اور ان کے قومی شاعر ہونے تک بس۔
(جاری ہے)
اس سے زیادہ جاننے کی کوشش رہی نہ خواہش اور یہی وجہ ہے کہ ہم اقبال کی شاعری میں چھپے پیغام کو پانے سے محروم ہیں ہم جیسے نوجوانوں کے لیے ہی اقبال نے کہا تھا
جوانوں کو مری آہ سحر دے
پھر ان شاہین بچوں کو بال و پر دے
خدایا آرزو میری یہی ہے
میرا نور بصیرت عام کر دے
ہم وہ خوش نصیب قوم ہیں جن کی اصلاح و رہنمائی کے لیے اقبال نے اپنے مستقبل کی قربانی دے کر خود کو ملک و قوم کے لیے وقف کیا اپنی شاعری سے نئی راہیں دکھائیں نئی منزلوں کا پتا دیا اقبال نے بتایا کہ اس جہان کوتیرے لیے اس لیے بنایا گیا تاکہ تو اپنے اسلاف کے نقش قدم پہ چلتے ہوئے کامیابیوں اور فتوحات کی نئی تاریخیں رقم کریں اقبال نے نوجوانوں کو ان کی روشن تاریخ یاد کروا کر ان میں نئی روح پھونکی اور انہیں بتایا کہ یہ زندگی فضول کاموں اور بے مقصد چیزوں میں ضائع کرنے کے لیے نہیں ہے بلکہ نوجوانوں نے کائنات کی تسخیر کا کام کرنا ہے یہ کائنات اسی لیے بنائی گئی کہ اس میں چھپے رازوں کو جانا جائے
خیمہ افلاک کا استادہ اسی نام سے ہے
نبض ہستی تپش آمادہ اسی نام سے ہے
دشت میں دامن کہسار میں میدان میں ہے
بحر میں موج کی آغوس میں طوفان میں ہے
چین کے شہر مراکش کے بیابان میں ہے
اور پوشیدہ مسلمان کے ایمان میں ہے
ہم نے سمجھ لیا کہ زندگی کا مقصد ملازمت کے حصول کے لیے تعلیم کا حصول اور پھر اچھی ملازمت کے بعد دولت کمانا ہی اصل کامیابی ہے اورلیکن کیا پیام اقبال سے ہمیں یہی سیکھنے کو ملتا ہے؟ اگر اقبال کی شاعری سے سبق حاصل کر کے نوجوانان ہند آزادی کی تحریک کے لیے نہ نکلتے تو آج ہم لوگ کہاں کھڑے ہوتے تحریک پاکستان کے نوجوانوں نے تو اقبال کے پیغام کو پا کر شاہین کی طرح اپنے مقصد پر نظر رکھی جو اپنے شکار پر اپنی نگاہیں اس وقت تک گاڑھے رکھتا ہے جب تک وہ اس کو پا نہیں لیتامگر ہمارے حالات اقبال کے اس شعر بیان کیے گئے
افسوس صد افسوس کہ شاہیں نہ بنا تو
سمجھے نہ تیری آنکھ نے فطرت کے اشارات
تقدیر کے قاضی کا یہ فتوی ہے ازل سے
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات
قیام پاکستان میں اقبال کی شاعری نے نوجوانوں میں تحریک کا کام کرتے ہوئے انہیں عمل پہ آمادہ کیا تھااور اب تعمیر پاکستان کا کام بہت باقی ہے جسے پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے بھی نوجوانوں کی ہی ضرورت ہے ہمارے نوجوان خواب غفلت کا شکار ہیں جنہیں بیدار کرنے کے لیے کوئی اقبال موجود نہیں ہیں لیکن ان کی شاعری کی صورت میں ان کی رہنمائی آج بھی ہمارے لیے ایک چراغ کی طرح کام کر سکتی ہے جس کی روشنی میں ہم اپنا راستہ اور اپنی منزل پا سکتے ہیں لیکن نوجوان سطحی شاعری سے اس حد تک لگاؤ رکھتے ہیں کہ اقبال کے پیغام کو سمجھنے کی کبھی کوشش ہی نہیں کی
خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کر دے
کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں ہے
اکثر نوجوان اقبال کی شاعری کے مشکل ہونے کا شکوہ کرتے ہیں حالانکہ سچ یہ ہے کہ اقبال کی شاعری اپنے اندر سمندر کی سی وسعت سموئے ہوئے ہے جس میں سے ہر کوئی اپنی چاہ اور طلب کے مطابق حصہ پا لیتا ہے اقبال کے پیغام کو سمجھنے کے لیے سب سے پہلے ہماراکتاب سے ٹوٹا ہوا ناتا جوڑنے کی ضرورت ہے کتاب اور قلم سے مطالعہ اور غوروفکر کے ذریعے ہی ہم اقبال کی شاعری میں چھپے گوہر نایاب پا سکتے ہیں اقبال کا نوجوان بننے کے لیے ہمیں خود میں شاہین کے بلند عزائم، خود پہ یقین اور عمل پیہم کی خصوصیات پیدا کرنے کی ضرورت ہے
یقیں محکم عمل پیہم محبت فاتح عالم
جہاد زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں
اپنے ملک و قوم اوراللہ پاک کی مخلوق سے محبت اقبال کے شاہین کی پہلی خوبی ہے جو خوبیوں کی بنیاد بھی ہے اس کے بعد اپنے ملک و قوم کے لیے عمل کرنے کا جذبہ اورعمل کرنے کے بعد کامیابی کا یقین یہ اقبال کے شاہین کواس کی منزل سے جا ملاتی ہیں اور یہی صورت قوم کو تقدیر سنوارنے کا رستہ ہے
یقیں افراد کا سرمایہء تعمیر ملت ہے
یہی قوت ہے جو صورت گرِ تقدیر ملت ہے