ایک ہوں مسلم

اتوار 28 جون 2020

Bint E Mehar

بنت مہر

فوک برناڈاٹ زمانہء طالب علمی میں اسکاؤٹس کاگروپ لیڈر تھا اپنے شوق اور لگن کے سبب ترقی کرتے کرتے سویڈن میں ''صلیب احمر''(ریڈ کراس) کا سربراہ بن گیاجنگ عظیم دوم میں اس نے یہودیت کے لیے ناقابل فراموش خدمات سر انجام دیں جب جرمنی میں یہودیوں پر ہٹلر کاکوڑا برسا تو اس شخص نے عقوبتی کیمپوں سے یہودیوں کو بچا بچا کر نکالنے میں اپنی جان کی بھی پرواہ نہ کی یہودی اس کے احسان مند ہو گئے اور یوں یہ غیر یہودی شخص یہودیوں کے ہاں بہت معتبر بن گیا20 مئی 1997 کو اسے اقوام متحدہ کی طرف سے اسرائیل اور عربوں کے درمیان ثالثی بنا کر بھیجا گیا یہودیوں نے اس کا پرجوش خیر مقدم کیا ۔

برناڈاٹ نے اپنی صلح جو اور امن پسند طبیعت کے پیش نظر آتے ہی صیہونی جنونیوں اور نہتے فلسطینیوں کے درمیان لڑائی روکنے کے لیے اپنے پورے اختیارات استعمال کیے اور شر پسندی کو محدود سے محدود تر کرنے کی کوشش کی لیکن اس کی یہی صلح پسندی اور منصف مزاجی اس کے قتل کا پروانہ ثابت ہوئی اس نے ایک تجویز پیش کی جس کا خلاصہ یہ تھا کہ کوئی فلسطینی مسلمان کسی بھی وقت یہ حق رکھتا ہے کہ یا تو فلسطین میں واقع اپنے گھر میں لوٹ آئے یا اسے کوئی معقول معاوضہ دے دیا جائے اب قطع نظر اس بات سے کہ اس کی تجویز میں مسلمانوں سے زیادتی تھی یا نہیں۔

(جاری ہے)

دیکھنے کی بات یہ تھی کہ اس شخص کے ماضی کے ریکارڈ کو سامنے رکھتے ہوئے یہ سوچنا بھی احمقانہ بات تھی کہ وہ کوئی یہود مخالف منصوبہ بنا رہا ہے مگریہود کی محسن کشی کی عادت کی پستی دیکھیے کہ وہ شخص جس نے تن تنہا اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر تقریباََ 20 ہزار یہودیوں کو ہٹلر سے نجات دلائی تھی ان یہودیوں نے اپنے اس مسیحا کو صلح پسندی کی اس تجویز پیش کرنے کے جرم میں دوسرے دن ہی قتل کر دیااور اس کے قتل کا فیصلہ جاہل یا متشدد یہودیوں نے نہیں بلکہ اعلیٰ یہودی قیادت کی متفقہ رائے سے اور اسحاق شیمر جیسے چوٹی کے رہنما کے حکم پر کیا گیااور یوں انسانیت کی خدمت کی نیت سے پہنچنے والا یہ شخص ان ہی یہودیوں کے ہاتھوں جان گنوا بیٹھا جن کو وہ مظلوم اور ہمدردی کے قابل سمجھتا تھا۔

تو قارئین یہ ہے کفر کی ذہنیت اور ان کی تاریخ ! وہی یہود جو مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دیتے ہیں اور یہودیوں کی اس رائے کو بدلنے کے لیے ہم ان کی نظر میں قابل اعتراض امور سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن اس کے باوجودہم ان کو خوش کرنے میں ناکام ہیں کیونکہ عزت و کامیابی اپنے اصل پر پورے اعتماد سے ڈٹے رہنے میں ہے ایسے لوگوں کا بظاہر وہ جتنا بھی مذاق اڑائیں لیکن اندر سے وہ ان سے مرعوب بلکہ خائف ہوتے ہیں۔

چین کی مثال ہمارے سامنے ہے چین نے سپر پاور کی دھمکیوں پرواہ کیے بغیر اپنامقبوضہ علا قہ واپس لیا اور عالمی طاقتوں کو اپنے مسئلے میں مداخلت کرنے کی اجازت دیے بغیر اپنی بہترین حکمت عملی کے ساتھ اس معاملے کو سلجھاتے ہوئے بھارت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنا حق لے لیا ادھرہم انہیں خوش کرنے اور ان کی خوشنودی حاصل کرنے میں لگے ہوئے ہیں اور اسی چاپلوسی کے چکر میں اپنے قبلہ اول سے بھی دستبراد ہو چکے ہیں
ایک بار اوربھی مدینہ سے فلسطین آ
راستہ تکتی ہے پھر مسجد اقصیٰ تیرا
 ایک اکیلے اسرائیل نے فلسطین کی سرزمین پر مسلسل قبضے کا کام جاری رکھا ہوا ہے لیکن تمام مسلمان طاقتیں مل کربھی اسرائیل کو ان کے مذموم عزائم میں کامیاب ہونے سے روک نہ پائیں امریکہ و اسرائیل کی ڈیل آف سنچری کے مطابق امریکہ نے تل ابیب سے یروشلم میں اپنا سفارتخانہ منتقل کر کے علی الاعلان فلسطین پر اسرائیل کا مکمل قبضہ تسلیم کیا لیکن مسلمان ممالک کی جانب سے کیا پالیسی اپنائی گئی؟ چند لفظی احتجاج اور سمجھ لیا کے القدس کا حق ادا ہو گیااقوام متحدہ میں 1947 کو منظور ہونے والی قرارداد کے مطابق فلسطینی آزاد ریاست کا قیام عمل میں لانا تھا لیکن آج تک اس قرار داد پر عمل نہ ہو سکا یا یوں کہنا چاہیے کہ مسلمان اپنی بزدلی کی وجہ سے حق پہ ہوتے ہوئے بھی اسرائیلی بدمعاشی کو خاموش تماشائی بنے دیکھ رہے ہیں اسرائیلی جنہوں نے فلسطینیوں کو ماضی میں بھی دھوکہ دیا اب بھی دے رہے ہیں لیکن دھوکہ دہی کے اس کھیل میں وہ اکیلے نہیں ہیں بلکہ تمام مسلمان طاقتیں بھی اسرائیل کے اس جرم میں برابر کی شریک ہیں مسلمان ممالک اسرائیل سے اپنا حق تو کیا واپس لیتے الٹا اسرائیل کے ساتھ تعلقات بنا کر مسلم امہ کے مفاد کو نقصان پہنچا رہے ہیں اسرائیل کی پالیسی اور اسلامی ممالک کی مجرمانہ خاموشی کو دیکھ کر بھارت نے بھی اسی پالیسی کو اپناتے ہوئے مقبوضہ کشمیر اپنے مظالم کو جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کے لیے کئی لاکھ غیر مقامی افراد کو کشمیر کے ڈومیسائل جاری کر دیے ہیں اور ڈومیسائل حاصل کرنے والوں میں ایک بھی مسلمان شامل نہیں ہے مظلوم فلسطینیوں کی مانند مظلوم کشمیری بھی اپنی آزادی کی خواہش کی سزا بھگت رہے ہیں اور وہ اپنی اس سزا کے جلد ختم ہونے کی امید کے ساتھ پاکستان کی جانب دیکھ رہے ہیں جبکہ ہمارا حال یہ ہے کہ ہم نے مسئلہ کشمیر کو بھی سیاسی میدان سمجھ لیا ہے جسے بیان بازی سے جیتنا چاہتے ہیں مسئلہ کشمیر جو پاکستان کے وقار اور بقا کا مسئلہ ہے اس کے لیے ہم نے چند سفارتی اقدامات کے علاوہ کوئی عملی مدد نہیں کی فسلطین و القدس کے تحفظ کے لیے اقوام اسلام مل کر بھی کچھ نہ کر سکے تو کشمیر کے تحفظ کے لیے اکیلے پاکستان سے کسی اقدام کی توقع رکھنا عبث ہے ہماری یہی لاچاری و بے بسی ہے جو کفار کو مسلمان علاقوں کی جانب پیش قدمی کی ہمت دے رہی ہے کشمیر، فلسطین، برما، شام، چین،چیچنیا، بوسنیا ،یمن اور افغانستان میں مسلمانوں پہ ہوتا ظلم ہماری بے حسی و مجرمانہ خاموشی کا نتیجہ ہے
نشاں یہی ہے زمانے میں زندہ قوموں کا
کہ صبح و شام بدلتی ہیں ان کی تقدیریں
خطبہ حجتہ الوداع میں ہمیں اخوت کا جو درس دیا گیا ہم وہ کتنی آسانی سے بھول گئے مسلمان علاقوں پہ قبضہ تو کیاجگاتا اسلامی وراثت پر قبضہ بھی ہمیں جنجھوڑنے میں ناکام رہاعیسائی یہودی یا کسی بھی مذہب کی مقدس عمارت یا عبادت گاہ پہ کسی دوسرے مذہب کاشخص ناجائز قبضہ کرے تو اس مذہب کے لوگ پوری دنیا میں کہرام مچا دیں اپنی عبادت گاہ کو منہدم کرنے والے یامشکوک کاروائی کرنے والے شخص کو پھانسی پہ لٹکا کر نشان عبرت بنا دیں کیونکہ مذہب ہر انسان کا سب سے حساس معاملہ ہوتا ہے جس پہ وہ کسی قسم کو کوئی سمجھوتا نہیں کرتا اسی طرح مذہبی عبادت گاہوں پر کسی دوسرے مذہب کے قبضے کو نہ تو دنیا کا کوئی انسان مانتا ہے اور نہ کوئی قانون۔

لیکن ہماری بے حسی دیکھیے کہ نصف صدی سے زائد کا عرصہ گزر چکا لیکن ہماری غیرت ایمانی پہ ایک آنچ نہ آئی کیونکہ اقصیٰ کا حق سلطان صلاح الدین ایوبی جیسے لوگ ہی ادا کر گئے یہودی انتہا پسند جون 1967 سے لیکر اب تک سو سے زائد مرتبہ اس مقدس مسجد پر حملہ کر چکے ہیں اور ان حملوں کے لیے ان تاریخوں کو انتخاب کیا جاتا ہے جب مسلمانوں کوخیبر کے غدار یہودیوں پر فتح حاصل ہوئی تھی اور یہ مسلمانوں کی غیرت پر ایک تازیانہ ہے شاید امت مسلمہ اب بانجھ ہو چکی ہے جو صلاح الدین ایوبی جیسے فرزند پیدا نہیں کر سکتی ہم مسلمانوں پہ ہوتا ظلم نہیں روک سکتے لیکن اس ظلم کو روکنے اور مسلمان علاقوں کے قبضے نہیں چھڑا نے کے لیے آواز تو اٹھاسکتے ہیں صدائے احتجاج یوں بلند کریں جیسے بلند کرنے کا حق ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ دنیا کی باضمیر حکومتیں مسئلہ کشمیر، مسئلہ فلسطین اور امت مسلمہ پہ روا رکھے مظالم کے خلاف مل کر غاصب و ظالم دشمن کو جواب دیں تاکہ دنیا کو اندازہ ہو کہ مسلمان اپنے آباؤ اجداد کی تاریخ آج بھی دہرا سکتے ہیں اگر ہم فاتح القدس نہیں بن سکتے تو کم از کم محافظ القدس تو بنیں تاکہ روز قیامت اللہ اور اس کے رسولﷺ کے سامنے سرخرو ہو سکیں ورنہ ہمارا طرز عمل اور بے حسی روز قیامت ہمیں اللہ اور اس کے رسول ﷺکے سامنے شرمندہ کروا دے گی اس شرمندگی سے فقط وہی بچے گا جوامہ کے دکھ کو اپنا دکھ اور امت مسلمہ کی تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھتا ہے یہ ایمان والوں کا امتحان ہے کہ کون اپنے جذبات اور عمل کا رخ کس طرف موڑے رکھتا ہے
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیک کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر تک

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :