القدس سے آتی ہیں صدائیں

اتوار 10 مئی 2020

Bint E Mehar

بنت مہر

ایک مرتبہ شیر، لومڑی اور گیدڑ مل کر شکار کوگئے شام کو جب دن بھر کی کمائی تقسیم کرنے کا وقت آیا تو شیر نے ان دونوں سے کہا کہ تم اسے تقسیم کروان دونوں نے عرض کیا ، ''بادشاہ سلامت! آپ تقسیم فرمائیے'' ''اچھا تو پھر میں ہی اسے تقسیم کیے دیتاہوں'' یہ کہہ کر شیر آگے بڑھا اور شکار کی تین ڈھیریاں بنائیں اور پہلی ڈھیری کو گھسیٹ کر اپنی طرف کرتے ہوئے کہا، ''یہ میرے لیے اس واسطے کہ میں شکارمیں شریک تھا۔

'' پھر اس نے دوسری ڈھیری کوبھی گھسیٹ کر پہلی سے ملا دیا اور اس کی وجہ یوں بیان کی:''یہ بھی ہماری ہی ہے اس لیے مابدولت جنگل کے بادشاہ ہیں۔''اس کے بعد وہ تیسری ڈھیری کی طرف بڑھا اور اس پر اپنا پنجہ رکھ کر فرمایا:''رہ گئی یہ تو جس کی ہمت ہو وہ اسے لے لے۔''یہ سارا ماجرا دیکھ کر لومڑی اور گیدڑ میں ہمت تو کیا ہوتی الٹا رذالت کا عالم یہ تھا کہ اپنے قبیلے میں پہنچ کراس بات پر ڈینگیں مارتے خوشی سے پھولے نہ سماتے تھے کہ انہوں نے بادشاہ سلامت کے ساتھ شکار پر جانے کا اعزاز حاصل کر لیا۔

(جاری ہے)

کچھ ایسے ہی حالات امت مسلمہ کے ہو چکے ہیں جو امریکہ بہادر اورمغربی طاقتوں کے آگے بے بسی سے ان کی بات مان کر بھی بے بسی کو تسلیم کرنے کی بجائے اس بات پر اتراتے رہتے ہیں کہ وقت کے بادشاہ نے بہرحال اس قابل تو سمجھا کہ ہماری قسمت کا فیصلہ کر یں یہی وجہ ہے کہ امریکہ یا کسی بھی طاقتور ملک کی جانب سے یروشلم کے صیہونی قبضے پرمبنی بیانات کے متعلق وہ ردعمل سامنے نہیں آتا جس کا غیرت ایمانی تقاضا کرتی ہے مسجد اقصی آج سوگوار ہے اس کا حسن ویرانی و اداسی کی تصویر بنتا جا رہا ہے لیکن مسلمانوں کا دل اقصیٰ کی ویرانی پر نہیں کڑھتا۔

عالمی وباء کی وجہ سے جب دنیا بھر میں مساجد کو بند کرنے کی خبر پہنچی تو ہر مسلمان دل غم سے بھر گیا مسجدوں کی اداسی نے مسلم غیرت کو جگا دیاشدید احتجاج سامنے آیا اور مسلمان آہ وبکا کرتے سنائی دیے کیا وجہ ہے کہ کچھ عرصہ کے لیے مجبوری کے تحت مساجد کے بند ہونے پہ تو دل مسلم تڑپ گئے لیکن پچاس سال سے غیر کے قبضہ ناحق کی وجہ سے ہونے والی اقصی کی مظلومیت بھری پکارسننے سے قاصر ہیں اقصی ہر روز سلطان صلاح الدین ایوبی کے فرزندوں کی آمد کی منتظر رہتی ہے ایوبی کے فرزند آج اس کی نسبت پر فخر تو کرتے ہیں لیکن اس کی جانشینی کا حق ادا کرنے کو تیار نہیں اب جوانان اسلام کی جوانیاں دنیا پر لگ رہی ہیں القدس کے جانشین مظلوم اقصی کی سوز بھری صدائیں سننے سے محروم ہو چکے ہیں بلکہ اب تو ہماری بے حسی کا عالم یہ ہے اپنے قبلہ اول کو یکسر فراموش کیے بیٹھے ہیں حالانکہ مسجد اقصیٰ،مسجد الحرام کے بعد کی دوسری قدیم مسجد ہونے ک باعث مسلمانوں کا قدیم و عظیم ورثہ ہے جسے ہمارے دشمن فراموش کروانا چاہتے ہیں اور ہم دشمن کی کوششوں کا بھرپور جواب دے رہے ہیں ہم لوگ مسجد الحرام اور مسجد نبوی کی زیارت کے لیے تڑپتے ہیں لیکن ہمارا تیسرا مقدس مقام مسجد اقصی ہماری دعاؤں اور تڑپ میں ذرہ برابر حصہ نہیں رکھتا ہم میں سے کتنے مسلمان مسجد اقصی کی زیارت کی تمنائیں کرتے ہیں کتنے لوگ القدس میں مرنے کی سعادت پانا چاہتے ہیں؟ اس کا جواب ڈھونڈنے نکلیں تو جواب شرم سے سر جھکا دینے والا ہے ۔

قیام مقبوضہ فلسطین( اسرائیل )کو نصف صدی سے زائد کا عرصہ گزر چکا اور اس عرصے میں مسلمانوں کی وہ نسل بھی دنیا سے گزر چکی جس نے اپنی آنکھوں سے قبلہ اول کی زیارت کی ہو اب تو اسپین کی مسجدقرطبہ کی طرح نئی نسل جانتی بھی نہیں بیت المقدس نامی وہ کیا چیز ہے جو ہم سے چھن چکی آپکو تمام بڑی مساجد اور مزارات کے نمونے تو اپنے ملک میں مل جائیں گے لیکن ہم نے بیت المقدس کو اتنا یتیم سمجھ لیا ہے کہ اس کی کوئی یادگار یا شبیہہ بھی کوئی نہیں بناتا اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں نے اپنے قدیم ورثے پہ صبر کر لیااور اپنے قبلہ اول پہ غیروں کا قبضہ تسلیم کر لیا
زمانہ اب بھی نہیں جس کے سوز سے فارغ
میں جانتا ہوں وہ آتش تیرے وجود میں ہے
تیری دوا نہ جنیوا میں ہے، نہ لندن میں
فرنگ کی رگِ جاں پنجہءِ یہود میں ہے
 انبیاء کی مقدس سرزمین پہ اغیار کے تسلط کے بعد اسلام کے تیسرے مقدس ترین مقام پر فلسطین سے باہر کو لوگوں کا داخلہ ممنوع قرار دیدیا گیا لیکن ہمارے کان پہ جوں تک نہ رینگی القدس کے گرد یہودی عبادتیں اور مذہبی رسومات جاری ہو گئیں لیکن ہمیں فرق نہ پڑا مسجد اقصی سے ہمارا صرف اتنا واسطہ رہ گیا کہ سال میں ایک بار واقعہ معراج پر روشنی ڈال کر اس مقدس مقام کا تذکرہ کر کے اپنے فرض سے بری الذمہ ہوجاتے ہیں لیکن اقصی کے یہودی تسلط پر غم منانا کبھی یاد نہیں رہتا۔

شب معراج پر مساجد میں چراغاں سے ہر طرف جگمگاہٹ ہوتی ہے لیکن اقصی پر اس رات بھی اندھیروں اور یہودی قبضے کا راج ہوتا ہے ہم مقبوضہ فلسطین کی جانب سے القدس کی بے حرمتی کے آئے روز کے واقعات سن کر ایک لمحے کو جاگتے ہیں لیکن کسی ایوبی کے انتظار میں پھر سے سو جاتے ہیں افسوس صد افسوس مسلمانوں کی اقصی سے بے وفائی اور بے اعتنائی نے اقصی کو کو ایسی شب ظلمت کی لپیٹ میں لے رکھا ہے جس کی صبح ہوتی دور دور تک نظر نہیں آ رہی ہم وہ قوم ہیں جوسلطان صلاح الدین ایوبی کے انتظار میں شب ظلمت تاریک سے تاریک ہوتا دیکھ رہے ہیں لیکن کوئی جانشین ایوبی بننے کو تیار نہیں جو قوم اپنی روایات اور ورثے کی حفاظت نہیں کرتی وہ دنیا میں ذلیل و رسوا ہو کر رہ جاتی ہے جیسے کہ آج مسلمانوں کی حالت ہے۔

آج مسلمانوں کی غفلت و لاپرواہی پرمسجد اقصی سوال کرتی ہے اے اہل اسلام! تمہاری غیرت کہاں جا سوئی جو اپنی مسجدوں کی حفاظت نہ کر سکے اور سمجھتے ہو کہ تم صرف سجدوں پر بخش دے جاؤ گے؟ کیا اپنی نسلوں کو قبلہ اول سے محروم کرکے مسلمانوں کی کوئی عزت باقی رہ گئی ہے؟ کیا مسجد اقصیٰ مسلمانوں کی بربادی و محرومی کی ابتدا ہے؟ مسلمانوں خواب خرگوش کے ایسے ہی مزے لیتے رہے تو مسجد قرطبہ اور مسجد اقصی کے بعددوسری مساجد محفوظ رہ سکتے ہیں؟ مسلمانوں کی بے حسی کا شکار مسجد اقصی کی منتظر نگاہیں اپنی بے حرمتی پہ ماتم کناں مسلمانوں سے رو رو کر سوز بھری صدا کر رہی ہے :آج جو مسلمان میرے غم میں شامل نہیں کل وہ رب کے حضور میرا سامنا کس طرح کر پائیں گے؟ اے نوجوانان اسلام! اٹھو اور میری حرمت کو پامال ہونے سے بچا لو۔


ہیں تیری طرف قبلہ اول کی نگاہیں
سن غور سے القدس سے آتی ہیں صدائیں
لِلّٰہ مجھے غیر کے قبضے سے چھڑا ئیں
یا پھر مجھے دنیا کے مسلمان بتائیں
باقی نہیں کیا اسلام میں میرے طلبگار
اک ہاتھ میں قرآن لے اک ہاتھ میں تلوار

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :