مسجد میں اب یہ وعظ ہے بے سود و بے اثر

پیر 10 مئی 2021

Bint E Mehar

بنت مہر

ہامان یہودیوں کا مشہور تاریخ داں، جغرافیہ داں ،فلسفی ، ماہر مستقبلیات اور اعلی پائے کا منصوبہ ساز گزرا ہے اس کا پورا نام الفریڈ ہامان تھا اور اس کا شمار یہودیت کے ممتاز دانشوروں میں ہوتا ہے اس نے یہودی ریاست کی تشکیل کے لیے یہودیوں کو ایک'' روڈ میپ'' کا ابتدائی خاکہ بنا کر دیااور کہا تھا کہ''جس کی حکمرانی مشرقی یورپ پر ہو اس کی حکمرانی ہارٹ لینڈ پر ہوتی ہے اور جس کی حکمرانی ہارٹ لینڈ پر ہو اس کی حکمرانی ''ورلڈ آئی لینڈ'' یعنی یوروشیا(یورپ و ایشیا )اور افریقہ پر ہوتی ہے اور جس کی حکمرانی ورلڈ آئی لینڈ پر ہو اس کی حکمرانی ساری دنیا پر ہوتی ہے''یہود نے اپنے منصوبہ ساز کے منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچایا اور اپنے مقاصد کا پہلا حصول اسرائیل کی صورت میں پایا۔

(جاری ہے)


یہ 6جون 1967 کا دن تھا جب اسرائیلی القدس شہر میں داخل ہوئیں اور بیت المقدس پر قبضہ کر لیااس دن موشے دایان اسرائیلی فوج کا سربراہ تھا جس کا شما ر چوٹی کے صیہونی رہنماؤں میں ہوتا تھااس کی ایک عادت یہ بیان کی جاتی ہے کہ یہ کوئی بھی منصوبہ مکمل کر کے اس کی مبارک بادیں لینے کی بجائے کسی نئے منصوبے کی تیاری شروع کر دیتا تھا چنانچہ اس نے''یروشلم آپریشن''کامیابی سے مکمل ہونے کی اطلاع پاتے ہی کہا:
''ہم نے یروشلم پر قبضہ مکمل کر لیا ہے اب ہم یثرب اور بابل کی طرف بڑھنے والے ہیں''
جس وقت موشے دایان نے تل ابیب سے یہ بیان جاری کیا اس وقت عراقی مسلمانوں کو دیوانیہ، ناصریہ،عمارہ اور دہوک سے نقل مکانی کر کے مقبوضہ فلسطین جانے والے یہودیوں کے الفاظ یاد آئے جنہوں نے اپنا سامان باندھتے ہوئے علی الاعلان کہا تھا کہ'' وہ دن دور نہیں جب ہم عراق واپس آئیں گے اور اپنی جائیدادیں واپس لیں گے'' عراقی مسلمان حیران تھے کہ یہ کم بخت اتنا عرصہ ہمارے پڑوس میں آرام و سکون سے رہنے کے بعد جاتے وقت ہمیں ہی دھمکی دے رہے ہیں لیکن یہودی وہ بات کرتے ہی نہیں جس پر وہ عمل نہ کر سکیں یہی وجہ ہے کہ صیہونی تحریک القدس سے ہو کر بابل تک پہنچ چکی ہے دجلہ تک قبضے کے بعد ''عظیم تر اسرائیل '' کی مشرقی سرحدوں کی تکمیل ہو چکی ہے اور اب ان کے اگلے ہدف کو سمجھنا مشکل نہیں۔


ایک طرف تو اسرائیل اپنے '' عظیم تر اسرائیل''کے منصوبے پر کامیابی سے ترقی کی منازل طے کر رہا ہے اور دوسری طرف ا پنے سب سے گندے منصوبے یعنی مسجد اقصی کو شہید کر کے ہیکل سلیمانی کی تعمیر پر بھی کام کر رہے ہیں جس کے لیے ہر سطح پر کام ہو رہا ہے اس منصوبے کی ایک کڑی میڈیا کا اسرائیل کے فلسطین پر قبضے سے متعلق معاملے کو غلط رنگ د ے کر دکھانا ہے جیسے اسرائیل کے ناجائز قبضے کو فلسطینیوں کی لالچ کا نام دے کر اسرائیلی مظالم کو یکسر فراموش کر کے اسرائیلیوں کو اس معاملے سے بری الذمہ قرار دے دیا جاتا ہے اور ابھی اس کا ایک ثبوت کل ملا جب مسجد اقصی میں مسلمانوں کی شب بیداری کے دوران اسرائیلی فوج نے دھاوا بول دیا اور نمازیوں پر ظلم و تشدد کی نئی داستان رقم کی لیکن میڈیا کی جانب سے اس واقعے کو غلط رنگ دے کر فلسطینیوں کی جانب سے اسرئیلی فوج پر حملہ قرار دیا گیامظلوم کا ساتھ دینے کی بجائے ظالم کا ساتھ دینے والے میڈیا کو اندازہ نہیں کہ یہ حق و باطل کی جنگ ہے جس میں ہر صاحب ایمان کی آزمائش ہے۔


ایک طرف تو اسرائیلی فوج نے حملے کے دوران مسجد اور عبادت کے تقدس کو پامال کیا دوسرا ماہ مقدس میں مسلمانوں کے قبلہ اول پر حملہ کر کے کھلا پیغام دیا کہ ہم اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں مسجد اقصی کو منہدم کر کے راستے میں وہ نمازی یقینا ایک رکاوٹ ہیں جنہیں یہودی ہر حال میں ختم کرنا چاہتے ہیں اور یہ بات تو کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ مسجد اقصی کی سرنگیں کھود کر وہاں عارضی عبادت گاہ قائم کی جا چکی ہے اور یہودی اپنے عوام کو یہ باور کروا چکے ہیں کہ ''فی الحال زیر زمین اور مستقبل برسرزمین'' اوران کا یہ مستقبل بہت قریب نظر آ رہا ہے جس کی ایک جھلک کل دیکھنے کو ملی لیکن اس پر بھی مسلم امہ کی جانب سے سوائے مذمتی بیان جاری کرنے کے کچھ نہیں کیا عملی اقدام اٹھانا تو بہت دور کی بات ہے کچھ مسلمان حکمرانوں نے مذمتی بیان جاری کرنے کی بھی ضرورت محسوس نہیں کی ۔

یہودی اپنی چالیں کامیابی سے چلتے جا رہے ہیں اور مسلمان دم سادھے ان کے سر پر پہنچنے کے انتظار میں ہیں ۔
کوئی تو ایسا ہو جو ہمت کرے جو آگے بڑھے جو سپہ سالار بن کر ابھرے اور سلطان صلاح الدین ایوبی کی یاد کو تازہ کر دے۔
 کوئی تو ایسا اٹھے جو مسجد اقصی کی رونقوں کو واپس لانے کے لیے کوششیں کرے اور یہودیوں کو ان کے انداز میں بھرپور جواب دے ۔


اے کاش! کوئی تو حکمران،منصوبہ ساز یا سپہ سالار مسلمانوں میں سے بھی ابھرے ۔
لیکن یہاں تو اس طرح کے موضوعات پہ بات کرنے والے کو ہی جذباتی قرار دے دیا جاتا ہے شاید مسجد اقصی کے آنسو اور اس کی بے بسی کسی کے دل کو نہیں دکھاتی ورنہ اب تک مسلمان ممالک کی جانب سے کوئی تو عملی قدام ایسا اٹھایا جاتا جو کم از کم مسجد اقصی میں یہود کے اس بے ادبی کے داخلے پر پابندی لگا سکتا ۔افسوس کہ اتنا بڑا سانحہ بھی ہمیں غفلت سے بیدار نہ کر سکا تو کیا یثرب کی جانب ان کی پیش قدمی پہ ہمیں ہوش آئے گا؟؟؟
فتوی ہے شیخ کا یہ زمانہ قلم کا ہے
دنیا میں اب رہی نہیں تلوار کارگر
لیکن جناب شیخ کو معلوم کیا نہیں؟
مسجد میں اب یہ وعظ ہے بے سود و بے اثر

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :