یہ انداز مسلمانی ہے؟

جمعہ 30 اکتوبر 2020

Bint E Mehar

بنت مہر

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے ایک بار نبی کریم ﷺ سے پوچھا کیا احد کے دن سے بھی زیادہ سخت کوئی دن آپﷺ پر گزرا ہی؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ''ہاں اے عائشہ وہ دن میرے لیے جنگ احد کے دن سے بھی زیادہ سخت تھا جب میں نے طائف میں وہاں کے سردار عبد یا لیل کو اسلام کی دعوت دی ''۔اس ظالم نے شریر لڑکوں سے کہہ کر آپ ﷺ پر پتھر برسائے اور آپ کو زخموں سے لہولہان کر دیا ۔

یہ سیرت کا اس طرز کا واحد واقعہ تھا کہ جبرائیل امین نے گستاخی رسول پر کسی بستی کو تباہ کرنے کی پیش کش کی ہو لیکن آقاﷺ نے رحم کی اعلیٰ ترین مثال قائم کرتے ہوئے منع فرما دیا اور رحمت کا یہ باب یہیں تمام نہ ہوا بلکہ عبد یا لیل ایک بار طائف کے لوگوں کو وفد لے کر مدینہ آیاتو رسول اللہ ﷺ نے اس کا مسجد نبوی میں خیمہ لگوایااور وہ جتنے دن مدینہ رہا رسول اللہ ﷺ ہر روز نماز عشاء کے بعد اس کے پاس جاتے اس کا حال احوال پوچھتے اس کے ساتھ گفتگو فرماتے اور اس کی دلجوئی کرتے۔

(جاری ہے)

مدینہ کے یہودی اکثر مسلمانوں سے بحث چھیڑ دیتے کہ نبی اکرمﷺ فضیلت میں بلند ہیں یا حضرت موسیٰ، یہ معاملہ جب بھی دربار رسالت میں پیش ہوتا رسول اکرم ﷺ مسلمانوں سے فرماتے ” آپ لوگ اس بحث سے پرہیز کیا کریں“
 رحمت اللعالمین ﷺ کی اسی عظمت کا اعتراف کرتے ہوئے مغربی مصنف مائیکل ہارٹ نے اپنی مشہورِ زمانہ کتاب The Hundredd میں دنیا کے ان سو عظیم ترین آدمیوں کا ذکر کیا ہے جنہوں نے دنیا کی تشکیل میں بڑا کردار ادا کیا۔

اس نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو سب سے پہلے شمار پر رکھا ہے۔ مصنف ایک عیسائی ہوکر بھی اپنے دلائل سے یہ ثابت کرتاہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پورے نسل انسانی میں سیّدالبشر کہنے کے لائق ہیں۔تھامس کارلائیل نے 1840ء کے مشہور دروس (لیکچرز) میں کہا کہ ”میں محمد سے محبت کرتاہوں اور یقین رکھتا ہوں کہ ان کی طبیعت میں نام ونمود اور ریا کا شائبہ تک نہ تھا۔

ہم انہی صفات کے بدلے میں آپ کی خدمت میں ہدیہً اخلاص پیش کرتے ہیں“۔ جارج برناڈشا لکھتا ہے ”موجودہ انسانی مصائب سے نجات ملنے کی واحد صورت یہی ہے کہ محمد اس دنیا کے رہنما بنیں ۔ فرانس کے محقق ڈی لمرٹائن نے اپنی کتاب ”تاریخِ ترکی“ میں انسانی عظمت کے لیے جو معیار قائم کیا اس ضمن میں فاضل تاریخ دان لکھتاہے ”اگر انسانی عظمت کو ناپنے کے لیے تین شرائط اہم ہیں جن میں۔

مقصد کی بلندی، وسائل کی کمی، حیرت انگیر نتائج۔ تو اس معیار پر جدید تاریخ کی کو ن سی شخصیت محمد سے ہمسری کا دعویٰ کرسکتی ہے“۔ ڈاکٹر شیلے پیغمبر آخرالزماں کی ابدیت اور لاثانیت کا اقرار کرتے ہوئے لکھتے ہیں ”محمدﷺ گزشتہ اور موجودہ لوگوں میں سب سے اکمل اور افضل تھے اور آئندہ ان کا مثال پیدا ہونا محال اور قطعاً غیر ممکن ہے“ فرانسیسی مصنف دی لمرتین لکھتاہے ”فلسفی، مبلغ، پیغمبر، قانون سا ز، سپاہ سالار، ذہنو ں کا فاتح، دانائی کے عقائد برپا کرنے والا، بت پرستی سے پاک معاشرہ تشکیل دینے والا۔

بیسیوں ریاستوں کو ایک روحانی سلطنت میں متحد کرنے والا۔.۔.وہ محمدﷺ ہیں۔.۔.جہاں تک انسانی عظمت کے معیار کا تعلق ہے ہم پوچھ سکتے ہیں کہ ان معیاروں پر پورا اُترنے والا محمدﷺ سے بھی کوئی برتر ہوسکتا ہے“۔؟
ان چند مثالوں سے واضح ہے کہ میرے آقاﷺ کی مدح سرائی ان کے مخالفوں نے بھی کی ہے آپﷺ حسن اخلاق کا ایسا پیکر جس کی مثالیں دشمن دیتے اور آج تک ان کے اعلیٰ اخلاق اور بہترین حسن سلوک کے غیر مسلم بھی گرویدہ ہیں دیگر تعلیمات کے ساتھ ساتھ رحمت عالمﷺ نے کسی دوسرے کے مذہب کو برا نہ کہنے اوردوسرے مذاہب کا احترام کرنے کی تعلیم بھی دی ہے یہی وجہ ہے کہ مسلمان تمام مذاہب اور تمام انبیاء کرام کی دل و جان سے توقیر کرتے ہیں لیکن مسلمانوں کو ان کے نبی ﷺ کی ناموس پر قدغن لگا کر دکھی کیا جاتا ہے پیارے آقا ﷺ کی شان مبارک کو کم کرنے کی کوشش کر کے مسلمانوں کے دلوں پر غم کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ میلاد النبیﷺ کی تیاریاں اس بار سوز و درد کی آمیزش لیے ہوئے ہیں فرانس کی گستاخی نے ہر مسلمان کے دل کو غم و غصے سے بھر دیا ہے فرانسیسی معاشرے میں اسلامی مقدسات کی توہین کی طویل تاریخ ہے۔ 1789 میں برپا ہونے والے انقلاب کے بعد فرانس میں دینی مقدسات کی توہین قانون کے زمرے میں نہیں آتی فرانس یوارپ کا وہ واحد ملک ہے جہاں 1881 میں سرکاری سطح پر الحاد اور دینی مقدسات کی توہین کا آغاز ہوا تھا۔

2015میں چارلی ایبڈو میگزین کی جانب سے پیغمبر اکرم ﷺ کی شان میں گستاخی کے بعد اس کی عمارت پر حملہ ہوا اور ملعون کارٹونسٹ سمیت کئی افراد مارے گئے اس واقعے کے خلاف احتجاجی مظاہروں میں لاکھوں افراد نے شرکت کی افسوسناک بات تو یہ ہے کہ ملعون کارٹونسٹ کی ہلاکت پر فرانس کے صدر سمیت کئی مغربی اور عرب ممالک کے سربراہان نے بھی احتجاجی ریلی نکالی انہوں نے خود کو '' آزادی آزار(اظہار) '' کا حامی قرار دیتے ہوئے '' میں چارلی ہوں'' کا نعرہ لگایا۔

اب پھر مسلمانوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کر کے اکسانے کی کوشش کی جارہی ہے تاکہ ایک بار پھر مسلمانوں کے غم و غصے سے بھرے احتجاج کو جواز بنا کر مسلمان دہشت گرد کا نعرہ لگایا جا سکے اور مسلمانوں پر جاری پابندیوں کے شکنجے کو مزید کسا جا سکے۔کفار دراصل اسلام کے خلاف ایک بلاک بنا رہے ہیں اور تمام غیر مسلم ممالک اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جمع ہو رہے ہیں دوسری طرف مسلمان ہیں جو آپس میں ہی لڑنے جھگڑنے میں مصروف ہیں۔

دشمنان اسلام کو مسلمانوں کے اختلاف کا تو علم ہے جو کہ ان کی کوششوں کی ہی مرہون منت ہے لیکن وہ اس وقت کے انتظار میں ہیں جب وہ مسلمانوں کے دل سے ان کے محبوب نبی ﷺ کی محبت نکال دیں گے غیر مسلم ایسی گھناؤنی حرکتوں سے مسلمانوں کی غیرت ایمانی کا امتحان لیتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ صرف نبیﷺ کی محبت ہی مسلمانوں کے ایمان کو زندہ رکھے ہوئے ہے جس دن یہ محبت دل سے نکل گئی اس دن مسلمانوں کو تباہ کرنا نہایت آسان ہو جائے گالیکن وہ یہ بات نہیں جانتے کہ مسلمان کٹ سکتا ہے اپنی جان دے سکتا ہے لیکن اپنے نبی ﷺ کی ناموس پہ کوئی گستاخی برداشت نہیں کر سکتا۔


وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا
روح محمدﷺ اس کے بدن سے نکال دو
یہاں ایک بات غور طلب ہے کہ آکر غیر مسلموں کو اتنی ہمت کیسے ہوئی کہ وہ مسلمانوں کی غیرت ایمانی کا امتحان لیں اس کے جواب میں ہمیں کوئی لمبی چوڑی تحقیق کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اپنا جائزہ لینے کی ضرورت ہے ہم جو مسلمان کہلاتے ہیں کیا عملاََ بھی مسلمان ہیں مغرب کے لبادے میں لتھڑے ہم مسلمان جب مغرب کی اندھا دھند تقلید کریں گے تومغرب کو مسلمان اور غیر مسلم میں کوئی فرق کیونکر محسوس ہو گا؟
وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود
یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کر شرمائیں یہود
ہم اس نبیﷺ کے امتی ہیں جو سب سے بہترین اخلاق والے تھے لیکن ہمارا اخلاق ہمیں نبی ﷺ کا امتی ظاہر کرتا ہے؟ وہ جو دشمنوں کے لیے بھی رحمت اور ہم لفظ رحم سے نا آشنا ۔

وہ ساری مخلوق کے لیے رحیم اور ہم اپنے حلقہ احباب تک میں اپنی شناخت ایک خوش اخلاق انسان کی حیثیت سے نہ کروا سکے بلکہ انتہائی دکھی دل کے ساتھ یہ بات تسلیم کرنا پڑ رہی ہے کہ اب ہم مغرب کے ر نگ میں ایسے رنگ چکے ہیں کہ ہمیں ایک باعمل مسلمان کی طرح زندگی گزارتے اورخود کو بحیثیت مسلمان متعارف کرواتے شرمندگی محسوس ہوتی ہے
ہر کوئی مست مئے ذوقِ تن آسانی ہے
تم مسلمان ہو؟ یہ انداز مسلمانی ہے؟
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہمارے پاس اپنے نبیﷺ کے امتی ہونے کے حوالے کے علاہ کوئی قابل فخر حوالہ نہیں ہے ہماری ذات و عادات میں مسلمان ہونے کی کوئی ایسی خوبی نہیں ہے جس سے ہم غیر مسلموں کو بحیثیت مسلمان متاثر کر سکیں اگر ایک مسلمان کی مسلمانیت اس کے انداز و اطوار سے ظاہر نہ ہو سکے بلکہ اس کو اپنے مسلمان ہونے کا زبان سے بتانا پڑے تو اسے اپنے مسلمان ہونے پر غور کر لینا چاہیے۔

ہمارے عادات و اخلاق سے غیر تو غیر اپنے بھی ناہ مانگتے ہیں مسلمنوں کی بددیانتیوں، بدعنوانیوں اور بے راہ رویوں کے قصے زبان زد عام ہیں
ہاتھ بے زور ہیں الحاد سے دل خوگر ہیں
امتی باعثِ رسوائیِ پیغمبر ہیں
 کفار کی سازشوں کا جواب احتجاج سے دینا اچھی بات ہے کہ یہ غیرت ایمانی کا تقاضا ہے لیکن یہ مستقل حل بہرحال نہیں ہے مغرب کے گندے منصوبوں کو خاک میں ملانے کے لیے ہمیں سب سے پہلے خود کو ایک با عمل مسلمان بنانے کی ضرورت ہے اپنے پیارے نبی ﷺ کی ساری تعلیمات پر عمل کر کے ہی ہم اچھے مسلمان بن سکتے ہیں اور میلاد النبی ﷺ کے اس بابرکت موقع پر اپنی خوشی اور مسرت کے اظہار کے لیے نذر و نیاز اور چراغاں کرنا یقینا باعث سعادت ہے لیکن کسی کی ولادت کا جشن منانے کے لیے سب سے اہم چیز تحفہ ہوتا ہے تو ہم جشن کے ساتھ ساتھ اپنے تحفے کی نوعیت پر بھی غور کر لیتے ہیں کہ ہم درود پاک کے تحفے کے ساتھ ساتھ ایسا کونسا تحفہ دیں کہ ہمارے آقا ﷺ ہم سے راضی ہو جائیں ۔

آقاﷺ کو راضی کرنے اور ان کی خوشنودی پانے کا سب سے بہترین طریقہ ان کی تعلیمات پر عمل کرنا اور ان کے اسوئہ حسنہ کے مطابق زندگی گزارنا ہے اپنی ذات سے دوسروں کو فائدہ دینا اور ہر انسان کے ساتھ اچھے اخلاق کا مظاہرہ بھی پیارے آقا ﷺ کی تعلیمات ہیں اور مخالفین کو جواب دینے کے لیے ہمیں متحد ہو کر اللہ کی رسی اور اسوئہ رسول ﷺ کو مضبوطی سے تھامنے کی ضرورت ہے اگر کفار اسلام کی دشمنی میں اتحاد کر سکتے ہیں تو ہم اپنے نبی ﷺ اور اسلام کی محبت میں ان کو جواب دینے کے لیے متحد ہو سکتے ہیں اور اب وقت آ گیا ہے کہ ہمیں یہ دنیا کو دکھانا ہے اور اپنی پیارے نبی ﷺ کے اسوہ کی روشنی میں خود کو سنوارتے ہوئے ان کی محبت کے نئے چراغ جلاتے رہنا ہے ان شاء اللہ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :