میری زمین میرا آخری حوالہ

جمعہ 14 اگست 2020

Bint E Mehar

بنت مہر

یوم آزادی پاکستان کے جشن کی ساری تیاریاں مکمل تھیں اسے اپنے دوستوں کے ساتھ خوب ہلّا گلّاکرنا تھا محفل موسیقی کا اہتمام تھا جھنڈے، جھنڈیاں، بیج، آتش بازی اور جشن کا سارا سامان بھی خریدا جا چکا تھا گھر کی چھت پرچراغاں ہو چکا تھا اور جھنڈا بھی لگ چکا تھا بارہ بجتے ہی دوستوں کے ساتھ خوب آتش بازی اور ہلڑ بازی کی پھر یوم آزادی کا جشن منانے کو اس نے سینے پہ پاکستانی پرچم سجایا ہاتھ میں جھنڈا تھاما اور بائیک پر پوری رات سڑکوں پر گھومتے ہوئے نعرے بازی کی گئی صبح ہوتے ہی دوستوں کے ساتھ آزادی جلوس میں شرکت کی جلوس میں وطن کی محبت سے سرشار دوستوں کے ساتھ مل کر خوب نعرے بازی کی اور خشک گلے کو تر کرنے کے لیے جوس کے ڈبے خالی کر کے سڑک پر گرا دیے پھر اسی جذبے سے پاکستان زندہ باد اور سب سے پہلے پاکستان کے نعرے لگائے شام تک سڑکوں پہ جھنڈے لہراتے اور نعرے لگاتے آزادی کا جشن منایا رات میں محفل موسیقی میں شرکت کی اور پھر اس کے بعد ون ویلنگ کے لیے نکل گئے ون ویلنگ کے دوران پولیس اہلکاروں نے اپنی حراست میں لے لیا اور اپنے ساتھ لے گئے رستے میں وہ سب دوست غم و غصے سے بھرے بیٹھے تھے اسی غصے سے اس نے اپنے دوست سے کہا :
''اس ملک کا کچھ نہیں ہو سکتا کہنے کو ہم آزاد ہیں لیکن اپنی مرضی سے کچھ کر بھی نہیں سکتے۔

(جاری ہے)

۔ آزادی کا جشن منانے کی سزا مل رہی ہے ۔۔اس ملک نے آخرہمیں دیا ہی کیا ہے۔۔۔''
یہ شکوہ اس ملک کے نوجوان طبقے کی زبان سے اکثر جاری رہتا ہے۔ایسے شکووں کا اظہار کرنے والوں سے ایک سوال ہے ''ہم نے پاکستان کو کیا دیا ہے'' اس ملک نے ہمیں پہچان دی عزت دی اور وہ سب کچھ دیا جس کے لیے آج کشمیر کے مسلمان لڑ رہے ہیں جو اپنی نسلیں کٹوا تے اور اپنے عزیزوں کو دفناتے رہتے ہیں مگر پھر بھی آزادی کی جنگ لڑنا نہیں چھوڑتے ۔

جو گولیوں کی چھاؤں میں دن رات گزارتے ہیں مگر آزادی کا نعرہ لگانا نہیں چھوڑتے۔تصور کریں ہم آزادی کی جنگ لڑتے ان مظلوم کشمیریوں کا حصہ ہوتے تو ہماری کیا ہم ایسے شکوے کرنے کے قابل ہوتے؟ ہماری پہلی ترجیح آزادی آزادی اور صرف آزادی ہوتی۔لیکن ہمیں اس آزادی کی قدر نہیں ۔ایک دن جشن آزادی کے نام پر ناچ گانا اور ہلاّ گلّا کر کے وطن سے محبت کا حق واقعی ادا ہوجاتا ہے کیا اس انداز سے ہمارا اس وطن سے کیا گیا عہد پورا ہو جاتا ہے؟شہیدوں کے لہو سے رنگین اس دن پر ہم لوگ شکرانے کے نفل ادا کرنے کی بجائے محفل موسیقی کا اہتما م کرتے ہیں یہ غور کیے بغیر کہ خون سے سینچے اس وطن کے حصول کے پیچھے چھپی عظیم قربانیوں کی داستان آج بھی آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑی جاری کر دیتی ہے کبھی لازوال قربانیاں دینے والے ان عظیم لوگوں کے عزیزوں سے ملاقات کریں تو احساس ہو گا ہم نے یہ وطن کتنی قربانیوں کے بعد حاصل کیااس وطن عزیز کی سر زمین کو چھونے کی خواہش کے بدلے ہمارے بزرگوں نے اپنی اولادیں اپنی آنکھوں کے سامنے کٹتی دیکھیں تو کسی نے اپنی جوان بیٹیوں کی عزتیں بچانے کے لیے خود اپنے ہاتھوں سے ان کی جان لے کر اس وطن پر قربان کر دیامیں نے ایسے بزرگ سے ملاقات بھی کی ہے جن کے دادا نے اپنے کنبے کے دس افراد کو بچانے کے لیے شیرخوار بچی کو سمندر میں بہا دیا کچھ خاندان تو ایسے ہیں جو آج تک اپنے بچھڑے عزیزوں سے مل نہ پائے اور آج بھی ان کی راہ تکتے زندگی کے شب و روز گزارتے ہیں وہ آنکھیں جو آج بھی اپنوں کی جدائی پہ روتی ہیں ان سے پوچھیں کہ آزادی کا جشن کیا ہوتا ہے
ملی نہیں ہے ہمیں ارض پاک تحفے میں
جو لاکھوں دیپ بجھے ہیں تو یہ چراغ جلا
 کوئی یوم آزادی ان کے ساتھ منائیں تو جان جائیں گے کہ ہمیں جشن آزادی کے ساتھ ساتھ تحفظ آزادی کے جذبے کو پروان چڑھانا ہے لاکھوں جانوں کی قربانیوں کے بعد ملی اس نعمت کی قدر کرنی ہے اور اس کے لیے اپنے وطن عزیز کی حفاظت کی ذمہ داری کو نبھانا ہے وطن عزیز سے محبت کے تقاضوں کو نبھانا ہے اور محبت کا سب سے پہلا تقاضا یہ ہے کہ جس سے محبت ہو اس کا خود سے بڑھ کر خیال رکھا جائے لیکن ہم لوگ آتے جاتے اس چمن کی خوبصورتی کو برباد کرتے رہتے ہیں اپنے گھر کو اپنے ہاتھوں سے گندا کرتے ہیں اور پھر شان بے نیازی سے وہاں سے گزر جاتے ہیں۔

قانون توڑتے ہیں اور پھر قوانین نافذ کرنے والے اداروں کو کوستے ہیں کہ اس ملک میں کوئی قانون نہیں ہے ۔ہم پاکستان کے لیے جان دینے کے دعوے تو کرتے ہیں لیکن جان سے پیارے اس وطن کا خیال رکھنے سے قاصر ہیں ۔جو پاکستان زندہ باد کا نعرہ تو لگاتے ہیں لیکن اس نعرے کے اصل مقصد کو نہیں پہچانتے ۔سپاہی مقبول حسین جو چالیس سال تک بھارتی مظالم سہتے رہے مگر پاکستان مردہ باد کا نعرہ نہ لگایا جن کی پاکستان سے محبت کے جرم میں زبان کاٹ دی گئے تاکہ وہ پاکستان زندہ باد کا نعرہ نہ لگا سکیں مگر دھرتی کے اس عظیم سپوت نے پھر بھی تشدد سے بہنے والے خون سے بھارتی کال کوٹھڑی کی دیواروں پہ جگہ جگہ پاکستان زندہ باد لکھ کر یہ ثابت کیا کہ پاکستانی خون کے آخری قطرہ اور آخری سانس تک اس وطن کی حفاظت کا فرض ادا کریں گے۔


میں اپنے خواب سے کٹ کر جیوں تو میرے خدا
اجاڑ دے میری مٹی کو دربدر کر دے
میری زمین میرا آخری حوالہ ہے
سو میں رہوں نہ رہوں اس کو بارور کر دے
ہمارے آباؤ اجداد تو قربانیاں دے کر اس عظیم وطن کا تحفہ ہمیں دے گئے لیکن اس کی تکمیل ہمارے ذمہ تھی ہم نے تکمیل پاکستان کے لیے کوئی ذمہ داری نبھائی؟ کیا ہم اپنے آباؤ اجداد کی قربانیوں کا قرض چکا پا رہے ہیں ہمارے بزرگوں نے جس مقصد کے لیے یہ وطن حاصل کیا اس مقصد کو پورا کر پا رہے ہیں؟ ہمارے آباؤ اجداد نے جس پاکستان کا خواب دیکھا تھا کیا ہم اس پاکستان کو ان کے خوابوں جیسابنا پائے ہیں؟ یہ ملک جو ہمارے بزرگ ہمارے ذمہ کر گئے تھے کیا ہم اس ذمہ داری کو پورا کر پارہے ہیں ؟ ان تمام سوالوں کے جواب آپ خود سے لیں اور اگر اس کا جواب نفی میں ہے تو کل بروز قیامت اس وطن کے لیے قربانیاں دینے والوں کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہیں جو ہمیں ہماری غیر ذمہ داری پر کبھی معاف نہیں کریں
گے۔


ہم وطن یہ گلستاں تیرا بھی ہے میرا بھی ہے
اس کا ہر سود و زیاں تیرا بھی ہے میرا بھی ہے
سوچ تو گلشن کی بربادی کا کیا ہووے گا حال
شاخ گل پہ آشیاں تیرا بھی ہے میرا بھی ہے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :