مگر یہ راز آکر کھل گیا

بدھ 14 اپریل 2021

Bint E Mehar

بنت مہر

ایک شخص اپنے شہر کے بڑے بازار کا بہت نامی گرامی بیو پاری تھا اور اس کے کاروبار کی کامیابی کا رازسب کو معلوم تھا کہ اس کی اور اس کے دوست کی شراکت داری نے ان کے کاروبار کو ترقی کی بلندیوں پرپہنچا دیا تھالوگ ان کی دوستی اور شراکت پر رشک کرتے تھے دن گزرتے جا رہے تھے اور اس کا کاروبار اس کے شہر سے نکل کر ملک کے تمام بڑے شہروں میں پھیل چکا تھا پورے ملک میں وہ دونوں کاروباری شراکت دار کی حیثیت سے ایک نمایاں پہچان بنا چکے تھے کہ ایک دن سب کچھ بدل گیاوہ دونوں اپنے کاروبار کے حساب کتاب میں مصروف تھے کہ کسی غلط فہمی کی وجہ سے ان کے درمیان تلخ کلامی شروع ہوئی اور یہ تلخ کلامی بڑھتے بڑھتے لڑائی جھگڑے میں بدل گئی وہ شخص لڑائی کے دوران بھی اپنے دوست کی دوستی کا لحاظ رکھتے ہوئے اس کی کڑوی کسیلی باتوں کو نظر انداز کر کے معاملہ ٹھنڈا کرنے کی کوشش کر رہا تھا کہ اس کے دوست نے گالم گلوچ شروع کر دی اور اسی گالم گلوچ میں اس کی ماں کے متعلق نازیبا الفاظ استعمال کیے جسے وہ شخص برداشت نہ کر سکا اور اس نے بھی جوابی وار کرتے ہوئے ہاتھا پائی شروع کر دی بات اتنی بڑھی کہ لوگوں کو بیچ بچاؤ کروا کر انہیں ٹھنڈا کرنا پڑا لیکن اس شخص کا غصہ ٹھنڈا ہونے میں ہی نہیں آ رہا تھا اس کی بس ایک ہی رٹ تھی کہ ''میری ماں کے متعلق نازیبا الفاظ کرنے کی ہمت کیسے ہوئی'' لوگوں نے ان کا جھگڑا ختم کروانے کی کوشش کی صلح کروانا چاہی لیکن وہ شخص ضد پر اڑ گیا کیونکہ ماں سے بڑھ کر عزیز دنیا میں کوئی نہیں ہوتا اور دوست کی زبان سے ماں کے متعلق نامناسب الفاظ نے اس کے دل کو شدید صدمہ پہنچایا تھا وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اس جگہ کو چھوڑ کر چلا گیا دوست رشتے دار سب نے معاملہ رفع دفع کرنے کی کوشش کی لیکن ہر اولاد یہ سمجھتی ہے کہ ماں کے متعلق کسی کے غلط الفاظ سننا دنیا کا سب سے تکلیف دہ لمحہ ہوتا ہے اور اس شخص کی یہ تکلیف کم ہونے میں ہی نہیں آ رہی تھی کیونکہ اس کے دوست نے اس کی ماں کے متعلق ایک مجمعے میں نامناسب الفاظ کا استعمال کیا جس کے نتیجے میں دوستی تو ختم ہوہی گئی لیکن اس شخص نے اپنا کاروبار بھی علیحدہ کر لیا اس کے اس فیصلے نے اس وقتی طور پر بہت نقصان پہنچایا لیکن حالات کے ساتھ سب کچھ ٹھیک ہو گیا سوائے ان دونوں کے تعلقات کے کیونکہ وہ شخص اپنے سابقہ دوست کو دیکھنے تو کیا اس کا نام تک سننے کا بھی روادار نہ تھا اور اس کے کاروبار کے معمول پر آتے ہی اس کے دوست تو دوست دشمن بھی اس کے اس فیصلے کو سراہنے لگے جبکہ اس کے سابقہ دوست کو روز بروز نقصان کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا
قارئین دنیا میں ماں باپ اور اولاد سے بڑھ کر محترم و مکرم کوئی نہیں ہوتا لیکن ایک ہستی ایسی ہے جو ماں باپ سے بھی بڑھ کر عزیز ہے اس ہستی نے اپنی مبارک زبان و الفاظ میں خود یہ بات واضح فرمائی:
''کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اس کے نزدیک اس کے ماں باپ اولاد اور تمام لوگوں سے بڑھ کر محبوب نہ ہو جاؤں''
بے شک رسول محترمﷺ وہ عظیم ہستی ہیں جن پر ہر مسلمان اپنے ماں باپ مال اولاد اور جان سب قربان کر سکتا ہے اور جو مسلمان اس بارے میں کوئی ابہام رکھتا ہے وہ جان لے کہ اللہ تعالی قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے:
''تم فرماؤ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری عورتیں اور تمہارا کنبہ اور تمہاری کمائی کے مال اور وہ سودا جس کے نقصان کا تمہیں ڈر ہے اور تمہارے پسند کے مکان یہ چیزیں اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں لڑنے سے زیادہ پیاری ہوں تو راستہ دیکھو (انتظار کرو) یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لائے اور اللہ فاسقوں کو راہ نہیں دیتا۔

(جاری ہے)

''(پ10،التوبة:24)
لیکن افسوس صد افسوس کہ ہم میں اکثریت اس حکم کو بھول گئی ہم دنیا داری میں ایسا پڑے کی ناموس رسالتﷺ پر زبانیں دراز کرنے والوں کو بھی گلے سے لگائے بیٹھے ہیں اورناموس رسالتﷺ کے خلاف بولنے والوں کا دفاع کرنے لگے دفاع عمل سے کیا جائے یا زبان سے وہ دفاع ہی کہلائے گا بالکل اسی طرح جیسے احتجاج زبان سے کیا جائے یا عمل سے احتجاج کہلاتا ہے۔


یہاں احتجاج سے ایک وعدہ یاد آگیا بلکہ مجھے تصحیح کرنے دیں''ایک اور وعدہ ''جو ایفا نہ ہو سکا
ایک اور معاہدہ اپنے انجام کو پہنچے بغیر ٹوٹ گیا
ایک بار پھروعدہ خلافی نے تحریک کے لوگوں کو جیل اور عام عوام کو مشکل میں ڈال دیا
طرفہ لسان ہیں وہ وعدہ خلافی کے سبب
جب بگڑتا ہوں کوئی بات بنا لیتے ہیں
حکومت کی مثال اس وعدہ خلاف شخص کی سی ہے جو وعدہ توڑنے سے پہلے ساری احتیاطی تدابیر اختیار کر لیتا ہے حالانکہ غیر جانبداری سے دیکھا جائے تو تحریک لبیک نے حکومت سے ہر طرح کا تعاون کیا ہے جس طرح حکومت پاکستان نے چاہا اسی طرح کا معاہدہ کیا اور جب وعدہ پورا کرنے کا وقت آیا تو حکومت نے پھر وعدہ خلافی کی اور اسی پہ بس نہیں کیا جن سے معاہدہ کیا گیا اان کو گرفتار کر لیا گیا کیا ریاست مدینہ کا نعرہ لگانے والی حکومت نے اس قدر حساس موضوع پہ ایک بڑی سطح پر جس ڈھٹائی سے وعدہ خلافی کی ہے کیا یہ ریاست مدینہ کے تصور کے شایان شان ہے؟ کیا یہ واضح پیغام نہیں ہے کہ آئندہ ہم پہ اعتماد نہ کیا جائے ؟
 ناموس رسالت پہ آواز اٹھانے والی آوازوں کو یوں دبایا جانا یقینا ایک ایسا افسوسناک عمل ہے جس کی ہر مسلمان مخالفت کرتا ہے دوسری جانب ملک کی بگڑتی صورتحال کی ذمہ داری وعدہ توڑنے والوں پر عائد ہوتی ہے کیونکہ تحریک لبیک نے پہلے ہی وعدہ خلافی کی صورت میں احتجاج کی کال دی تھی وہی وعدہ جس کے ایفاء ہونے کا تحریک لبیک نے پانچ مہینے انتظار کیا اگر تحریک کو احتجاج کرنا ہی مقصود ہوتا تو وہ اتنا لمبا عرصہ وعدہ ایفاء ہونے کا انتظار ہرگز نہ کرتے لیکن یہاں مقصد احتجاجی مظاہروں اور توڑپھوڑ کی طرف داری ہر گز نہیں بلکہ یہ باور کروانا ہے کہ ساری دنیا میں یہ سفارتی اصول ہے کہ آپکو کسی ملک سے اختلاف ہو یا پھر کوئی ملک آپ کی آخری حد کو پار کر رہا ہے تو آپ اپنا سفیر واپس بلا لیں اور ان کا سفیر انہیں واپس بھیج دیں کیونکہ سفارتی تعلقات کی معطلی کو پوری دنیا میں احتجاج کا مہذب ترین طریقہ سمجھا جاتا ہے جو اس بات کا ثبوت ہوتا ہے کہ کچھ ایسا ہوا ہے جو حل طلب ہے اور جسے حل نہ کیا گیا تو بات بگڑ سکتی ہے تو کیا ہم تعلقات کو بحال کر کے یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ بطور ریاست ناموس رسالتﷺ کو اہم نہیں سمجھتے؟
ناموس رسالتﷺ جیسے حساس ترین مسئلے پر قلم اٹھانا یقینا ایک مشکل امر ہے لیکن یہ ایک ایسا معاملہ ہے کہ اس پر خاموش بیٹھنا غیرت ایمانی کوہر گز گوارا نہیں اور ایسے کسی بھی معاملے پر پرامن احتجاج ہر مسلمان کا حق ہے اور فرانس کی اس گستاخی آمیز جرات کے بعد یہ ضروری ہے ہم کسی بھی صورت میں اس گھناؤنے عمل کے خلاف اپنا احتجاج ریکارڈ کروا ئیں تاکہ روز روز کا یہ تماشا بند ہو سکے اور اس کے لیے اس مذموم عمل کے خلاف اپنی زبان، عمل یا قلم کے ذریعے آواز اٹھانا اتنا ہی ضروری ہی جتنا سانس لیناورنہ ہم بروز قیامت اپنے آقاﷺ کو کیا منہ دکھائیں گے حاصل بحث اس بات کے ساتھ کرتی ہوں کہ اگر ناموس رسول ﷺ محفوظ نہیں تو امت کو جینے کا کوئی حق نہیں۔


مگر یہ راز آخر کھل گیا سارے زمانے پر
حمیت نام تھا جس کا گئی تیمور کے گھر سے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :