جان جانی ہے جائے گی اک دن.....

منگل 22 ستمبر 2020

Chaudhry Amer Abbas

چوہدری عامر عباس

میرے ایک ڈاکٹر دوست کہا کرتے ہیں کہ ہمارا دماغ قدرت کا عظیم شاہکار ہے. میڈیکل سائنس آج بھی اس پر تحقیق کر رہی ہے اور بہت سی گرہیں کھلنا ابھی باقی ہیں. وہ کہتے ہیں کہ دماغ ہمارے جسم کا وزیر اعظم ہے. پورے بدن کو مختلف پٹھوں کے ذریعے پیغامات کی ترسیل دماغ کی طرف سے ہی ہوتی ہے. جسم کے کسی حصہ میں درد کے احساس کا پیغام بھی دماغ کے ذریعے ہی جاتا ہے.

کب رونا ہے کب ہنسنا ہے یہ سارے پیغامات بھیجنا دماغ ہی کی ڈیوٹی ہے. ہم اپنے اردگرد بہت سے ایسے لوگوں کو دیکھتے ہیں کہ جو صحتمند ہونے کے باوجود اپنی صحت کو لے کر ضرورت سے زیادہ حساس ہوتے ہیں ان میں سے کئی لوگ ہمارے رشتہ دار بھی ہیں، شاید ہم بھی ان میں سے ایک ہوں.

(جاری ہے)

میڈیکل سائنس میں اس بیماری کو   Hypochondriasis Disorder کے نام سے یاد کیا جاتا ہے.

بعض ڈاکٹرز اسے Illness Anxiety Disorder بھی کہتے ہیں. پاکستان میں کم و بیش پانچ فیصد لوگ اس بیماری سے دوچار ہیں. یہ ایک ایسی بیماری ہے کہ جس میں انسان اپنی صحت کے متعلق شکوک و شبہات کی وجہ سے ہر وقت ایک ہیجان کی کیفیت میں رہتا ہے. اس بیماری کے بعض مریض کسی ایک بیماری کے متعلق ہر وقت متفکر رہتے ہیں. اس بیماری کی تمام علامات اپنے اندر محسوس کرتے ہیں.

ڈاکٹرز سے چیک اپ کرواتے ہیں، ٹیسٹ کرواتے ہیں. ایک ڈاکٹر کے بعد دوسرا ڈاکٹر بدلتے ہیں. ایک ہی ٹیسٹ مختلف اوقات میں بار بار کرواتے ہیں لیکن ان کی بےچین روح کو قرار پھر بھی نہیں آ رہا ہوتا. ان کے زہن میں اس بیماری کا خوف اسقدر بیٹھ چکا ہوتا ہے کہ وہ تمام ٹیسٹس نارمل آنے کے باوجود خود کو اس بیماری کا مریض سمجھ رہے ہوتے ہیں. حتیٰ کہ بعض اوقات اپنے ڈاکٹرز کو کوس رہے ہوتے ہیں کہ مجھے فلاں بیماری ہے لیکن ڈاکٹر کہہ رہا ہے کہ نہیں تم بالکل ٹھیک ہو.

ہائپوکانڈریاسس کا مریض جب بھی کسی دوست یا رشتہ دار کو کسی بیماری میں مبتلا دیکھتا ہے تو اگلے چند گھنٹوں کے دوران اسی بیماری کی علامات خود کے اندر محسوس کرتا ہے گویا خود کو اس بیماری کا مریض سمجھنے لگتا ہے. مثلاً اگر کسی دل کے مریض کو دیکھے گا تو اگلے ہی لمحے اس کو بھی اپنا دل ڈوبتا ہوا محسوس ہوتا ہے، دھڑکن تیز ہو جاتی ہے، چھاتی میں درد محسوس ہونے لگتا ہے، پسینے آتے ہیں اور خود کو بھی دل کا مریض سمجھنے لگتا ہے.

تمام ٹیسٹس نارمل آنے پر بھی اسے تسلی نہیں ہوتی اور ایک ڈاکٹر کے بعد دوسرا ڈاکٹر بدلتا ہے لیکن ڈاکٹر کی تسلی کے باوجود خود کو بیمار سمجھتا ہے. اسی طرح اگر شوگر کی بیماری کے مریض کو دیکھ کر سوچنے لگیں تو اگلے چند لمحوں میں منہ خشک ہونے، بار بار پیشاب آنے کی شکایت کرتے ہیں اور خود کو شوگر کا مریض سمجھنے لگ جاتے ہیں. ٹیسٹ نارمل آنے کے باوجود بھی بار بار کرواتے ہیں اور یہ وہم ان کے دماغ سے پھر بھی نہیں نکلتا.

معدے کی بیماری میں مبتلا مریضوں کے ایک چوتھائی حصہ کو دراصل معدے کی فزیکلی کوئی بیماری نہیں ہوتی بلکہ وہ ایک آدھ بار کھانے پینے میں بےاعتدالی کی وجہ سے قے، بدہضمی یا لوز موشن ہونے پر ضرورت سے ذیادہ سوچتے ہیں جس کی وجہ سے وہ فزیکلی نارمل ہونے کے باوجود اکثر قے، بدہضمی اور لوز موشن کا شکار نظر آتے ہیں. انھیں بار بار واش روم آتا ہے.

Irritable Bowel Syndrome ایک الگ بیماری ہے سٹریس اور ذیادہ سوچنا اس بیماری کا سب سے بڑا سبب ہے. معدہ کی بیماری کے شک میں مبتلا ہائپوکانڈریاسس کے مریض ڈاکٹر بدل بدل کر عمر بھر معدے کی دوائیں کھاتے رہتے ہیں. ہائپوکانڈریاسس کے مریض کئی بار خود کو ایک بعد دوسری بیماری کا مریض سمجھنے لگتے ہیں. اپنے کسی بھی رشتہ دار کو کسی بیماری کا شکار دیکھ کر اس بیماری کی علامات خود میں محسوس کرنا شروع کر دیتے ہیں.

گوگل پر مختلف بیماریوں کے متعلق پڑھ پڑھ کر ہلکان ہوتے رہتے ہیں. یہ مریض خود کو دنیا کا لاچار ترین انسان سمجھتے ہیں. یہ سمجھتے ہیں کہ دنیا بھر میں کوئی انکی بات کو سمجھ ہی نہیں سکتا. بہت سے مریضوں میں زندگی کی رمق ماند پڑ جانے کی وجہ سے ہمیشہ دنیا سے بیزار نظر آتے ہیں. یہ مریض جسم کے ہر حصے پر درد محسوس کرتے ہیں. چڑچڑا پن، انگزائٹی اور ڈپریشن اس بیماری کی عمومی علامات ہیں.

آپ کورونا کی مثال ہی لے لیجئے. ہائپوکانڈریاسس کے بہت سے مریضوں نے کورونا کا مرض لاحق نہ ہونے کے باوجود کورونا کے ایام میں اس بیماری کی تمام صعوبتیں سہہ لی ہیں.
اب ہائپوکانڈریاسس کے علاج کی طرف آتے ہیں. سب سے پہلے تو آپ ایک ڈاکٹر پر اعتماد کیجئے اور اپنی ہر بیماری کے سلسلے میں اپنے اس ڈاکٹر سے ڈسکس کیجئے. وہ آپ کی بہترین رہنمائی کرے گا.

ہائپوکانڈریاسس دراصل ایک نفسیاتی بیماری ہے جس کا علاج سائیکاٹرسٹ اور ماہر نفسیات مل کر کرتے ہیں. ویسے ایک اچھا کنسلٹنٹ فزیشن بھی اس بیماری میں بہترین معاون ثابت ہو سکتا ہے لیکن اپنے فزیشن کی ہر بات کو حرف آخر سمجھنا اور من و عن ماننا شرط اول ہے. اپنی ہر بیماری کے متعلق اپنے فزیشن سے شئیر کیجئے. اگر آپ کا فزیشن مناسب سمجھے گا تو وہ آپ کو کسی دیگر سپیشلسٹ یا سائیکاٹرسٹ اور ماہر نفسیات کی طرف ریفر کر دے گا.

ان کے سیشن کافی مددگار ثابت ہوتے ہیں. دوسرا یہ کہ گوگل پر بیماریوں کے متعلق سرچ کرنا بند کر دیجئے. میڈیکل کے متعلق مواد کو ایک ڈاکٹر ہی سمجھ سکتا ہے. فارغ بیٹھنے کے بجائے خود کو مثبت سرگرمیوں میں مصروف کیجئے. آپ اس دنیا کی ہر شے سے انکار کر سکتے ہیں. بعض لوگ نعوذبااللہ خدا کے وجود سے تو انکار کر سکتے ہیں. وہ دنیا کے تمام مذاہب سے انکار کر سکتے ہیں لیکن موت وہ واحد شے ہے کہ جس سے آپ ہرگز انکار نہیں کر سکتے.

حتیٰ کہ اسقدر سائنسی ترقی کے باوجود آپ اپنی طبعی موت کیلئے معین وقت کی بھی پہلے سے پیش گوئی نہیں کر سکتے. آپ نے اپنے اردگرد بہت لوگوں کو دیکھا کہ وہ مکمل صحتمند ہوتے ہیں لیکن اگلے ہی لمحے وہ موت کی آغوش میں ابدی نیند سو رہے ہوتے ہیں. دنیا میں بڑے بڑے طرم خان آئے جو اپنے وجود کو اس دنیا کیلئے ناگزیر سمجھتے تھے لیکن آج قبرستان ایسے لوگوں سے بھرے پڑے ہیں.

قدرت کی طرف سے عطاء کردہ نعمتوں پر شکر کیجئے. مذہبی میلان بھی اس بیماری میں کافی کارگر ثابت ہوا ہے. موت اور بیماری کا خوف دماغ سے نکالنے کی کوشش کیجئے. جان تو جانے کا نام ہے جس نے ایک دن جانا ہی ہے. آپ جان کو جانے سے کبھی روک نہیں سکتے. درحقیقت دنیا کا کوئی بھی شخص نہیں روک سکتا. آپ کو کیا بیماری ہے اس کی تشخیص کرنا آپ کے ڈاکٹر کا کام ہے. اگر واقعی کوئی بیماری ہے تو اس کے علاج پر توجہ دیں. لہٰذا خواہ مخواہ کوئی بیماری خود پر طاری مت کیجئے. اپنی زندگی کے دوران اس ننھی سی جان کو اس عذاب سے نکالیں.
موت آنی ہے آئے گی اک دن،
جان جانی ہے جائے گی اک دن،
پھر ان باتوں سے کیا گھبرانا.......

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :