با کمال لوگ ہیں ہم بھی

اتوار 12 اپریل 2020

Dr Abdul Majeed

ڈاکٹر عبدالمجید

جب قومیں ازمائشوں اور بحرانوں میں مبتلاء ہوتی ہیں تو دستیاب وسائل کے ساتھ ساتھ چارعوامل ان کو بحرانوں سے چھٹکا رہ دینے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں اور وہ ہیں حوصلہ، استقا مت، زمہ داری اور بہترین حکمت عملی۔ بیشک دستیاب وسائل وافر مقدار میں ہی موجود کیوں نہ ہولیکن حوصلے، استقامت، زمہ داری اور حکمت عملی کا فقدان ہو تو وسائل کا استعمال بیکار۔

جنگ عظیم دوم میں جب جاپان کے دو شہروں پر ایٹمی حملہ کیا گیا تو پورا جاپان مفلوج ہوگیا ، ہر طرف مایوسی پھیلی ہوئی تھی اور پوری قوم ٹوٹ چکی تھی۔کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ راکھ میں لپیٹا ہوا اور لاشوں کو اٹھانے والا ملک دنیا کا ایک بڑا معاشی قوت بن کے ابھرے گا۔ آج اوٹو موبائل اور الیکٹرانک اشیا ء کی صنعت میں نہ صرف جاپان خود کفیل ہے بلکہ پوری دنیا کو برآمد بھی کر رہی ہیں۔

(جاری ہے)

تباہی سے ترقی تک کا سفر جاپان کے لئے کٹھن تھا لیکن جاپانی قوم نے دنیا کو بتایا کہ حوصلہ، استقامت اور زمہ داری کے ساتھ بہترین حکمت عملی اپنا کر ازمائشوں کو شکست دیا جاسکتا ہے اورزندگی کو نئی تقویت دیکر جیا جاسکتا ہے۔ دنیا کی تاریخ ان جیسے کئی مثالوں سے بھری پڑی ہیں۔جاپان ہی میں سونامی اور زلزلہ، چین کی ’افیونی دور‘ سے لیکر معاشی اُڑان تک کا سفر، امریکہ میں خانہ جنگی سے لیکر دنیا پر حکمرانی ، اور سنگاپور اور کورریا کی مفلوک الحالی سے معاشی ترقی کا سفر سب اولول عزمی کے مثالیں ہیں۔


حال ہی میں کورونا کی وباء نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے، یہ وباء دنیا کے ہر ایک ملک کے لئے ایک قومی بحران اور آزمائش ہے ۔ سب سے پہلے چین میں اس وباء نے دسمبر2019 کے اواخر میں چین کے شہر وہان میں سر اٹھایا۔ جس رفتار سے چین میں کرونا کی وباء پھیلتی رہی پوری دنیا یقین کے ساتھ کہہ رہی تھی کہ چین اس پہ قابو نہیں پا سکے گا اور تباہی اس کا مقدر ہے۔

لیکن چینی حکمرانوں اور قوم نے نہایت زمہ داری اور بہترین حکمت عملی سے ثابت کر کے دکھایا کہ آفتوں اور بحرانوں پر قابو کیسے پایا جاسکتا ہے۔اب صورتحال یہ ہے کہ جو ممالک چین پر طعن کر رہے تھے وہ خود تباہی سے دوچار ہیں اور بے بسی کی تصاویر بنی ہوئیں ہیں۔
اٹلی، ایران اور سپین حتٰی کہ امریکہ میں لوگوں نے غیر زمہ داری کا مظاہرہ کیاجس کا خمیازہ لاشوں کی صورت میں وہ بھگت رہے ہیں۔

پاکستان میں بھی ابھی تک کرونا کا صورت حال قومی غیر زمہ داری اور حکمت عملی کی فقدان کے باعث قابو سے باہر نکلتا ہوا نظر آرہا ہے۔ ملک میں جب پہلا کیس رپورٹ ہوا اور متعلقہ اداروں کی جانب سے جب احتیاطی تدابیر اپنانے کو کہا گیا تو لوگوں کی اکثریت نے اس کا مذاق اُڑایا، فیس بک اور ٹویٹر پر کورونا کے متعلق لطیفے گھاڑے گئے، کوئی اس کو مغربی ممالک کا سازش قرار دے رہے ہیں تو کوئی ورلڈ بنک سے امداد وصولی کا بہانہ۔

کچھ لوگ اس بات پر مصر ہیں کہ کورونا لیبارٹری میں تیار کردہ وائرس ہے جس کا مقصد دنیا کی آبادی کو کنٹرول کرنا ہے۔ لاعلمی اور جہالت کی بناء پر ہم خود اس وباء کو اپنے گھروں میں دعوت دے رہے ہیں۔ ستم ظریفی ملاحظہ ہوبیرون ممالک جیسے ایران، اٹلی، سعودی عرب وغیرہ سے پلٹ کر آنے والے متاثرہ افراد ائرپورٹ پر اتر کر بیماری کو ساتھ لاکر سیدھا گھر چلے جاتے ہیں اور اپنی بیماری کو چھپا کررشتہ داروں کو بھی متاثر کرتے ہیں۔

ایک حضرت پشاور کے ایک سرکاری ہسپتال میں امراض قلب کے وارڈ میں داخل ہوتا ہے لیکن اپنی بیماری کو چھپاتا ہے، نتیجتاََ اپنی زندگی سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتا ہے اور دو ڈاکٹرز کو بھی وائرس کا شکار بنا ڈالتے ہیں۔ حکومت کی طرف سے بار بار احکامات جاری ہوتے ہیں کہ گھروں میں رہو، بھیڑ والی جگہوں میں جانے سے گریز کرو لیکن ہمارے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتے۔

خدا نخواستہ اگر غیر زمہ داری کی یہی روش رہی تو خاکم بدہن ہمارا حال بھی ایران اور اٹلی جیسا ہوگا۔
دوسری اذیت ناک پہلوں موجودہ صورتحال میں جو سامنے آئی وہ کچھ عنا صر کی بے ضمیری اور بے حسی ہیں۔جوں ہی میڈیا پر لاک ڈاؤن کی خبریں گردش کرنے لگیں ذخیرہ اندوزوں کے وارے نیارے ہونے لگے۔اشیائے خورد و نوش کو ذخیرہ کرکے مصنوعی قلت پیدا کی گئی اور شہریوں کو اذیت سے دوچار کر دیا گیا۔

چند دن پہلے آٹے کا جو تھیلا نو سو روپے میں ملتا تھا اچانک اس کی قیمت بارہ سو روپے کر دی گئی، ماسک اور سینیٹا ئزر کی قیمت کو تو پہلے ہی دن سے پر لگ چکے تھے۔ بربریت کا یہ سلسلہ ابھی تھما نہیں بلکہ اب بھی جاری ہے اور ہم کھلم کھلا بے حسی کے باوجود قدرت سے رحم کی بھیک بھی مانگتے ہیں۔اس گھناؤنی تصویر کے برعکس اس وباء سے نمٹنے کی غرض سے قومی یگانگت کو اُجاگر کرنے والی چند افرادی اور اجتماعی کاوشیں بھی ہورہی ہیں جو یقیناحوصلہ افزا ہیں اور بے ضمیری کے بھیانک چہرے کو چھپانے کے لئے کافی ہیں۔

جونہی ماسک کی قیمتوں میں اضافے کی خبریں گردش کرنے لگی، چارسدہ میں خالد خان اورمانسہرہ میں عدیل تنولی نامی درزیوں نے کثیر تعداد میں کپڑے سے ماسک بنا کر عوام میں تقسیم کرنا شروع کر دی۔ گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج مردان کے پروفیسراورنگزیب شیرازی صاحب نے اپنی مدد آپ کے تحت خود اور دوستوں سے گھروں ہی میں کئی ماسک سلوا کر لوگوں میں بانٹ دی۔

قومی سطح پر الخدمت فاؤنڈیشن کی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیگی جنہوں نے ملک بھر میں الخدمت ہسپتالوں کو حکومت کو پیش کیں جن میں کورونا سے متاثرہ افرد کی دیکھ بھال کی جائیگی۔ کورونا کی وباء ہمارے لئے ایک قومی بحران ہے اور اس بحران سے نکلنے کے لئے ہمیں حوصلہ واستقامت دکھانی ہے، زمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہے ۔ حکومتی اور عوامی سطح پر ایسی حکمت عملی اپنانی ہے جس سے وباء کا مزید پھیلاؤ کم سے کم ہو اور دنیا ہماری مثال دیکر کہے کہ آزمائشوں پر قابو ایسے پایا جاسکتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :