ٹک ٹاک۔ ایک معاشرتی ناسور

پیر 13 اپریل 2020

Dr Abdul Majeed

ڈاکٹر عبدالمجید

تقریباََچالیس سال پہلے انٹر نٹ کے وجود میں آنے اور پھر رفتہ رفتہ اس میں ترقی کے ساتھ ساتھ دنیا ’ڈیجیٹل ایج‘ میں داخل ہو گئی۔ 1990 کے اواخر میں Six Degree کے نام سے دنیا کی پہلی سوشل میڈیا ویب سائٹ وجود میں آئی، 2004 میں اسکی ترقی یافتہ شکل فیس بک متعارف کرایا گیا جس نے سماجھی رابطوں کو ایک نیا انداز دیا۔ پھر 2005 میں یوٹیوب لانچ کر دیا گیا۔

وقت کے ساتھ ساتھ مزید دلچسپ سماجھی رابطوں کے ویب سایٹس متعارف کرائے گئے جن کے پلیٹ فارم سے تقریباََ تمام عمر کے لوگوں کو آپس میں رابطوں، معلومات کے تبادلوں، تصایر اور ویڈیوز کو شیئر کرنے میںآ سانی ملی۔سوشل میڈیا کی پیدائش نے دنیا کو سکھیڑ کر فاصلوں کو محدود اور معلومات تک کی رسائی کو سہل بنایا۔ گویایہ ایک انقلاب تھا لیکن وقت کے ساتھ یہ انقلاب اپنے ساتھ کچھ ’خرافات‘ بھی لے آئی۔

(جاری ہے)

اب حال ہی میں ایک نیا اور منفرد ایپلیکیشن ’ٹک ٹاک‘ کے نام متعارف کرایا گیا ہے جس پر صا رفین پندرہ سیکنڈز کی مختلف ویڈیوز کو اپلوڈ کر کے شیئر اور دیکھ سکھتے ہیں۔
بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق 2019 کے اواخر تک دنیا میں ٹک ٹاک کے صارفین کی تعداد پانچ سو ملین سے زیادہ تھی جن میں اکثریت 16-24 سال کی عمر کی نوجوان نسل کی تھی۔ٹک ٹاک بیشتر صارفین تفریح اور شغل کا ذریعہ سمجھتے ہیں لیکن حقیقت میں یہ ایپلیکیشن نوجوان نسل کی تباہی کا ایک ایسا مہلک ہتھیار ہے جو غیر ارادی طور پر ان کے ذہنی استعداد کے ساتھ ساتھ اخلاقی زوال کا سبب بھی بنتا جا رہا ہے۔

چونکہ نوجوان نسل کی بہتر تعلیمی سرگرمیوں اور تعلیمی نتائج کے حصول میں دیگر عوامل کے ساتھ ساتھ ’وقت‘ کا ایک انتہائی کردار ہوتا ہے،ٹک ٹاک صارفین اپنا زیادہ تر وقت ویڈیوز اپلوڈ کرنے اور دیکھنے میں صرف کرتے ہیں جس سے ان کی تعلیمی عمل بری طرح متاثر ہو سکتی ہے۔سمارٹ سوشل ویب سائٹ کے مطابق ٹک ٹاک کی طرف نوجوان نسل کی بڑھتی ہوئی رجحان کی اہم ترین نقصانات میں ’ٹک ٹاک ایڈکشن‘ یعنی عادت ہے جو بری طرح ان کے صحت اور دیگر مثبت سرگرمیوں کو روند ڈالتا ہے۔

ٹک ٹاک ایڈکشن کی بدولت کم عمر صارفین اپنی صحت، کھانا کھانے، اور تعلیمی سرگرمیوں پر کم توجہ دیتے ہیں جس سے ان کی مزاج میں اضطراب کا پیدا ہونا ایک فطری امر ہے۔
ٹک ٹاک کا دوسرا بڑا نقصان نوجوان نسل میں فحاشی کی طرف مائل ہونا اور اس کی ترویج ہے۔چونکی ٹک ٹاک ایک بین القوامی ایپلیکیشن ہے جس کو باآسانی ہر کوئی بلا تفریق عمر و جنس کے جوائن کر سکتا ہے، بڑے عمر کے افراد اپنے اپ کو کم عمر ظاہر کر کے کم عمر افراد کی فرینڈ لسٹ میں شامل ہوکرجنسی مواد پر مبنی ویڈیوز اپلوڈ کر کے نہ صرف ان میں وقت سے پہلے بلوغیت کو پروان چڑھا رہے ہوتے ہیں بلکہ فحاشی کو پھیلانے میں بھی کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔

انگلینڈ کے ایک اخبا ر ’ڈیلی میل‘ کے ایک سروے کے مطابق متعدد والدین کو اس وقت سخت تشویش لاحق ہوئی جب انہوں نے اپنے کمسن بچوں کے ٹک ٹاک پروفائلز میں فحش قسم کے ویڈیوز اور جنسی مواد کو پایا۔اس کے علاوہ کئی ماہرین کا خیال ہے کہ ٹک ٹاک کا بے دریغ استعمال نوجوان نسل میں مختلف قسم کے نفسیاتی عوارض کو تیزی سے بڑھا رہا ہے۔اسی طرح زیادہ سے زیادہ Likes اور Followers حاصل کرنے کے لئے منفرد ویڈیوز بنانے کے دوران کئی نوجوان اپنی زندگی کھو بیٹھے جن میں دو واقعات پاکستان کے شہروں سیالکوٹ اور کراچی میں وقوع پزیر ہوئے۔


دنیا کی دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی نوجوان نسل بڑی تیزی کے ساتھ ٹک ٹاک کی طرف مائل ہورہی ہے، لڑکے اور لڑکیاں دونوں اس ناسور سے بری طرح متاثر ہورہے ہیں اور نہ صرف ان کا قیمتی وقت ضائع ہو رہا ہے بلکہ وہ جنسی بے راہ روی اور نفسیاتی مسائل سے بھی دوچار ہو رہے ہیں۔اپنی ویڈیوز کے لئے زیادہ پزیرائی حاصل کرنے کے لئے اکثر نوجوان لڑکے لڑکیاں اخلاقی گراوٹ اور خاندانی عزت کو داؤ پر لگانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔

نیز ویڈیوز کو منفرد بنانے کے چکر میں نوجوان اپنی زندگیوں کو بھی خطرات سے دوچار کرتے ہیں۔ستمبر 2019میں کراچی میں بیس سالہ’ف‘ اس وقت موت کے آغوش میں چلی گئی جب وہ ویڈیو ریکارڈ کروا رہی تھی اور اچانک گولی چل گئی۔اسی طرح کا ایک دوسرا واقع سیالکوٹ میں وقوع پزیر ہوا جس میں فرسٹ ائر کا طالب علم ’ع ح‘ گولی چل جانے سے جاں بحق ہوا۔ والدین اور حکومتی اداروں کی زمہ داری بنتی ہے کہ نوجوان نسل کو ٹک ٹاک جیسی معاشرتی ناسور سے بچانے کے لئے چوکس رہے اور اس وباء کو روکنے کے لئے ممکن اقدامات کرے۔

سکول اور کالجوں میں اساتذہ کرام اگر تدریسی عمل کے ساتھ ساتھ ٹک ٹاک کے نقصانات اور اس کے نتائج پر بات کرے تو کافی حد تک قوم کے بچوں اور بچیوں کی جسمانی، نفسیاتی اور تعلیمی مستقبل کو سدھارا جا سکتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :