مخیر حضرات کی خدمت میں گزارش

جمعہ 17 اپریل 2020

Dr Abdul Majeed

ڈاکٹر عبدالمجید

دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی کرونا کی وباء نے لوگوں کو ذہنی اذیت سے دوچار کیا ہوا ہے۔ ایک طرف خوف کی کیفیت لوگوں پر مسلط ہے تو دوسری طرف لاک ڈاؤن کی وجہ سے کاروبار بند ہیں، لوگ گھروں میں مقید ہیں اور ہر طرف پریشانی، بے یقینی اور بے چینی کی فضاء ہے۔ صاحب حیثیت لوگ گھروں میں اگر رہیں بھی تو کم ازکم ان کو پیٹ پالنے کی پریشانی نہیں ہوگی، متوسط اور تنخواہ دار طبقہ بھی کسی نہ کسی طرح گزارہ کر لیں گے لیکن موجودہ صورت حال میں جو سب سے زیادہ متاثر ہوگا وہ ہیں مزدور اور محنت کش۔


دیہاڑی دار، ریڑھی بان، کارخانوں میں کام کرنے والے، اور وہ تمام لوگ جن کا گزر بسر روزمرہ کی محنت مزدوری کے ساتھ منسلک ہے اس وقت سخت آزمائش سے گزر رہے ہیں۔ان حالات میں ان کی گھروں کو فاقوں سے بچانے کے لئے قومی سطح پر متحرک ہونے کی ضرورت ہے۔

(جاری ہے)

گو کہ حکومت نے ’احساس‘ پروگرام کا آغاز کرکے ضرورت مندوں کی مدد کرنے کے لئے مالی امداد مہیا کرنے کاایک احسن قدم اٹھایا ہے جس سے مستحقین کی کچھ نہ کچھ مداوا ہوسکے گی، لیکن یہ کافی نہیں اور مزید بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔

تصور کیجئے جس بندے کا روزگار بند ہواور اس کوماں باپ، بیوی بچوں کو پالنے کے ساتھ ساتھ بجلی اور گیس کی بل بھی جمع کرنے ہو، ہسپتال کے اخراجات بھی پوری کرنے ہوبھلا بارہ ہزار روپے میں وہ یہ سب کچھ کیسے کر پائے گا؟۔چین اور یورپ میں لاک ڈاؤن کے باعث لوگ گھروں میں محصور ہوئے تو وہاں کے حکومتوں نے ان کو گھروں پر راشن پہنچایا اوران کو گھروں کی دہلیز پر بیشتر سہولتیں میسر کیں۔

بدقسمتی سے پاکستان کی معاشی صورتحال ان ممالک جیسا نہیں ہے اور نہ ہی ہماری معیشت اس بات کا متحمل ہے کہ ملک کے ہر ضرورت مند کو پورے مہینے کا راشن مہیا کر سکے اور ان کو زندگی کی دوسری ضروریات گھروں پر ہی فراہم کرے، اس کے باوجود حکومت جو کچھ کرسکتی تھی اس نے کوشش کی۔ضرورت مندوں کی امداد میں جو کمی باقی رہتی ہے وہ ہم سب نے ایک قوم بن کر اور ایثار کا جذبہ دکھا کر پورا کرنا ہے۔

اللہ کے فضل سے پاکستان میں صاحب ثروت مخیر حضرات اور مخیر اداروں کی کوئی کمی نہیں۔ ان حضرات اور اداروں نے پہلے بھی آزمائش کی گھڑی میں حاجتمندوں کی بھر پور مدد کی اور انشاء اللہ اب بھی قوم کی ضرورت مندوں کو تنہا نہیں چھوڑ ینگے۔
 2005 کا قیامت خیز زلزلہ ہو یا2010 کی سیلاب کی تباہ کاریاں، پاکستانی قوم نے ان آزمائشوں کو نہ صرف صبر و استقامت کے ساتھ برداشت کیا بلکہ ہر فرد نے اپنی بساط کے مطابق آفت زدہ علاقوں میں متاثرین کی ایسی فقیدالمثال مدد کی جس کی معترف پوری دنیا ہوگئی۔

بے گھر لوگوں کے لئے سر چھپانے کے انتظامات کیے گئے، ان کو کھانے پینے کے لئے اشیاء فراہم کی گئی، مریضوں کو بروقت طبی سہولیات مہیا کی گئی، خون کے عطیات دیے گئے، آفت کے نتیجے میں یتیم ہونے والے بچوں کو سہارا دیا گیا۔ ان امدادی کاموں میں ہر پاکستانی نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
 مخیر حضرات نے مصیبت میں پھنسے اپنے بھائیوں کی دل کھول کر مدد کی، فلاحی اداروں نے دن رات ایک کرکے مصیبت زدہ لوگوں کی بحالی میں اپنی توانیاں صرف کیں۔

ان ہی قربانیوں کی بدولت آزمائش کے ان دنوں میں ہم سر خروں ہوئے ۔ موجودہ صورتحال میں ایک بار پھر پوری قوم آزمائش میں مبتلاء ہے ، قربانی اور ایثار کی ضرورت پہلے سے بہت زیادہ ہے کیونکہ اس دفعہ ہمارا واسطہ ایک نامعلوم وباء سے ہے جس کے نقصانات غیر واضح ہیں اور یہ بھی معلوم نہیں کہ کتنے عرصے تک ہمارے سروں پر منڈلاتا رہیگا۔جن لوگوں کے پاس اللہ کا دیا ہوا بہت کچھ ہیں ان کی خدمت میں بس اتنی سی گزارش ہے کہ آزمائش کی یہ گھڑی اللہ سے تجارت کرنے کا بہترین موقع ہے، اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں اور جن لوگوں کے روزگار رک گئے ہیں ان کی مدد کریں شائد اللہ آپ کی اس ادا پر پوری قوم سے موجودہ آزمائش اٹھا لے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :