Accilimitization

پیر 13 مئی 2019

Dr Affan Qaiser

ڈاکٹر عفان قیصر

یہ ہاسٹل کے شروع کے دن تھے، اتنے سال کی محنت کے بعد میڈیکل کالج میں داخلہ ملا تھا،لگتا تھا کہ اب ہم دنیا کے سب سے بڑے ہیرو بن گئے ہیں، مگر گورنمنٹ کے میڈیکل کالج کے ہاسٹل نے دو دن میں ہی اوقات یاد کروا دی۔یہ کیسے بد بو دار کمرے تھے،پوری پوری رات نیند نہیں آتی تھی،ایک کمرے میں چارچار،پانچ پانچ لڑکے ،لگتا تھا جیسے جانور رہ رہے ہوں اور واش روم اس قدر غلیظ کے انسان کی روح کانپ جاتی تھی۔

مجھے یہ سب ہولناک لگتا تھا،ایسا لگتا کہ کچھ دن اور یہاں رہا تو یاں تو پاگل ہوجاؤں گا،یا مر جاؤں گا۔روز فون پر زاروقطار رونا، کئی بار سوچا ڈاکٹری کا جنون یہیں ختم کردوں اور واپس بھاگ جاؤں،مگر جس طرح ایڈمیشن ہوا تھا،اور کچھ اس کے علاوہ نظر نہیں آتا تھا، ہاسٹل رہنا مجبوری تھی۔

(جاری ہے)

پانچ سال، سوچ کر ہی ریڑھ کی ہڈی میں ایک سرسری سی بجلی کی لہر دوڑتی اور زمین سے ٹکرا کر واپس دماغ میں آجاتی۔

یہ میں اکیلا نہیں تھا، میرا ساتھ کچھ اور بھی اس قسم کی مخلوق تھی،جو میڈیکل کالج کے ہاسٹل سے بھاگنے کا پلان بنا رہی تھی۔ہاسٹل کے میس کا کھانا ،گلے سے نیچے جانے سے انکاری تھا۔والدین کا پیسہ بھی تھا،اور ان کے عہدوں کی سپورٹ بھی تھی،سو اس سب کو استعمال کرکے ،اپنے جیسی مخلوق کے ساتھ مل کر چور راستے تلاش کرنے لگا۔ پورا دن کالج کے سامنے ایک برانڈ ہوٹل میں گزار دیتا،وہیں پڑھ لیتا،وہیں کھا لیتا اور انہیں کا واش روم استعمال کرلیتا۔

ہماری تعداد چونکہ زیادہ تھی،تو ہوٹل والوں کی بھی ہم پر عنایت تھی۔مگر ایسا پانچ سال تو نہیں چل سکتا تھا، آہستہ آہستہ ہاسٹل کی عادت ڈالنے کی کوشش کی۔ چند دنوں تک ،بس باہر سے فوڈ کی ڈیل کی ڈلیوری ہوجاتی اور آنے والے وقتوں میں وہ بھی بس مخصوص دنوں تک محدود ہوگئی،مثال کے طور پر جب ہاسٹل کے میس کوئی بہت بد ذائقہ سبزی یا دال پکی ہوئی ہو۔

میرے ساتھ ایک اور مخلوق بھی تھی، یہ لوگ میس میں جو پکا ہوتا،چپ کرکے کھالیتے تھے اور اتنا کھاتے تھے کہ میس والا بعد میں ان کے آگے ہاتھ جوڑنے پر مجبور ہوجاتا تھا۔ یہ لوگ سردی میں شدید ٹھنڈے پانی سے نہالیتے،حمام میں پانی کھڑا ہوتا،نیچے اینٹ رکھتے ،اس کے اوپر کھڑے ہوکر نہا لیتے۔ ان کو نہ وہ باتھ روم برے لگتے ،اور نہ ہی وہ مچھر جو پوری رات مجھے سونے نہیں دیتے تھے۔

یہ لوگ ایسے سوتے تھے کہ جیسے ابدی نیند کی وادی میں جاچکے ہیں۔ ہم لوگوں کے پاس جدید موبائیل فون تھے،لیپ ٹاپ تھے،ان میں اکثریت کے پاس موبائیل فون ہی نہیں تھے اور انٹرنیٹ کی خاطر یہ کالج جایا کرتے تھے۔ ایک ہی پتلون میں دو دو ہفتے نکال لینے والی یہ عجیب مخلوق ،اگر ہاسٹل کے کسی کمرے میں اکٹھی ہوجاتی ،تو ان کے قہقہوں سے پورا ہاسٹل پناہ مانگتا۔

ان لوگوں کی کلاس سے تعلق رکھنے والے سینئر بھی،ان کے ساتھ رہتے،یہ لوگ گروہ بناتے،بدمعاشی کرتے اور لڑائیوں میں ایسے شیر ہوتے کہ ان کے ہاسٹل کے ونگ ہمارے لیے بھوت بنگلہ یعنیHaunted House ہوا کرتے تھے۔ہماری کلاس سے تعلق رکھنے والے سینئر بھی ہماری طرح تھے،انتہائی ڈرپوک،کمروں میں سہم کر ہر وقت کتابوں میں غرق، نہ کبھی اکٹھے ہوکر،کوئی فلم دیکھنی ،نہ کسی سے کوئی بات کرنی،نہ کسی کے کام آنا،بس اپنی خودغرضی میں لگے رہنا۔

پانچ سال اسی طرح گزر گئے۔اس دوران کتنی محبتیں بھی ہوئیں۔ہم لوگوں کے عشق بھی ،اسی برانڈ فاسٹ فوڈہوٹل سے شروع ہوئے اور وہیں دم توڑ گئے،جن سے ہوئے وہ بھی ہمارے جیسی ہی،سہمی ہوئی،پڑھائی میں مگن،خاموش طبع، مگر ایکٹیو ، کلاس کے ہر ایونٹ میں چھا جانے والی۔ہم لوگ آرگنائز کیا کرتے اور یہ دوسری مخلوق کے لوگ اس آرگنائز کو ڈس آرگنائز کرتے تھے، فنکشن کے دوران فکرے بازی،اونچے اونچے نعرے،یہ کیا لوگ تھے؟ ان کے عشق بھی ہمارے جیسے نہیں تھے،جن سے تھے وہ بھی ہماری طرح نہیں تھیں، یہ لوگ ریڑھی پر چاول چھولے بیٹھ کر کھاتے، گول گپے کھاتے،پارکوں میں بیٹھے نظر آتے ۔

جب وقت گزرا شعور آیا تو ان لوگوں پے تحقیق کا موقع ملا، یہ سب ان کے لیے آسان تھا، کیونکہ یہ لوگ مصائب، مشکلات کا سامنا کرکے یہاں تک پہنچے تھے۔ یہ لوگ حالات سے لڑنے اور آگے جانے کے لیے تیار ہوکر یہاں تک پہنچے تھے، دوسرے الفاظ میں یہ Accilimitized تھے۔ یہاں مجھے زندگی کا سب سے بڑا سبق مل گیا، زندگی میں کچھ بھی بننا ہے تو اپنے آپ کو ٹف ٹائم دینا ہے، مشکل سے گزرکر کندن بننا ہے۔

قدرت کا ایک قانون ہے وہ انسان کے قد کو بڑا کرنے کے لیے اس کے سامنے ایک مشکل ترین امتحا ن رکھتی ہے، جو انسان اس کو پار کرلیتا ہے،اس کا قد بڑا ہوجاتا ہے یعنی وہ بڑا آدمی بن جاتا ہے۔ بالکل ویسے ہی جیسے تتلی کا لاورا جس قدر چھوٹے سوراخ سے نکلتا ہے، اس کے پر اتنے ہی خوبصورت ہوتے ہیں۔ جیسے چوزے کو اگر انڈے سے نکلنے میں مدد دے دی جائے تو اس کی زندگی تھوڑی ہوتی ہے ،اگر وہ اپنے زورِ بازو پر نکلے تو اتنا ہی تناور پرندہ بنتا ہے۔

الغرض جتنا بڑا چیلنج ملے گا ، آپ اتنے ہی عظیم انسان بنیں گے۔ آپ تاریخ پڑھیں، کوئی بھی بڑا انسان لے لیں، حتی کے کسی پیغمبر کی مثال لے لیں آپ اس کی زندگی سے مصائب، مشکلات، امتحانات نکال دیں، وہ ایک عام انسان بن جائیں گے۔ آپ حضرت یوسف  کی زندگی لے لیں، اور اس میں سے دھوکہ دینے والے بھائی نکال دیں، الزامات نکال دیں، مصائب نکال دیں، ہدایت کی سب بنیاد ختم ہوجائے گی۔

کہتے ہیں کہ کسی بادشاہ کے محل کے باہر کسی نابینا بابا جی کی جھونپڑی تھی، وہ روز رات گڑگڑا کر ، آنکھیں مانگا کرتے تھے، ایک دن وہاں بادشاہ آگیا، ماجرا معلوم ہوا کہ یہ بابا جی دس سال سے رب سے ایک ہی دعا مانگ رہے ہیں ،تو بادشاہ نے ان کے پاس ایک جلادکو تلوار دے کر کھڑا کیا کہ بابا آج تمام رات رب سے مانگیں گے، اگر صبح تک بینائی واپس نہ آئے تو ان کا سر قلم کردینا۔

اس رات بابا جی بہت روئے ، بہت گڑگڑائے ، را ت کے آخری پہر بینائی لوٹ آیا، صبح بادشاہ آئے تو بابا جی نے کہا رات پر مجھ پر کیا ظلم ڈھایا، مجھے ہر پہر موت کا خوف رہا، اس پر بادشاہ بولے کہ وہی موت کا خوف تمہیں بینائی دے گیا۔ اگر ہم اپنی زندگی کا تفصیلی مقصد جانیں ،تو موت یعنی قبر کا امتحان ہی وہ واحد سخت ترین چیلنج ہے جو ہمیں صراطِ مستقیم پر رکھ سکتا ہے، یعنی آپ کی زندگی میں آنے والی سب سے بڑی اصلاح بھی کسی نہ کسی امتحان کے تابع ہے، تو زندگی میں کامیابی کے لیے ، بڑا آدمی بننے کے لیے آپ کو کس قدر امتحانات کی ضرورت پڑ سکتی ہے، درد کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔

یہی درد آپ کو رب سے سوال کی عادت ڈالتا ہے، در در کا سوالی بنانے کیے بجائے، ایک رب کا سوالی بناتا ہے اور آپ بیدار ہوجاتے ہیں، مشکل سے نکلنے کی قوت ، آپ کو کندن بنادیتی ہے اور آپ بڑے سے بڑے امتحان میں سرخرو ہوجاتے ہیں، کیونکہ بیدار انسان کی زندگی سے بدقسمتی ہمیشہ کے لیے اٹھ جاتی ہے۔ ان ساری باتوں کا مقصد ، ان تمام والدین کے لیے جو آج اپنی اولادکی تربیت میں ہر لاڈ کا عنصر ڈال کر انہیں مشکل ترین حالات سے مقابلے کی عادت ڈالنا بھول جاتے ہیں، انہیں Accilimitized کرنا بھول جاتے ہیں ،اور پھر وہ ساری زندگی فرار ڈھونڈتے ہیں۔

راقم القلم وہ رات کیسے بھول سکتا ہے کہ ہاسٹل سے واپس بھاگ آیا توگھر سے نہیں جارہا تھا، والد صاحب دعا کرانے ایک مزار پر لے گئے،سخت سردیوں کی راتیں تھیں، کہا ٹوپی سویٹر اتار کر ایک کونے میں بیٹھ کر دعا مانگو، سنگِ مر مر کا سخت ٹھنڈا فرش، تھوڑی دیر میں ہی کپکپی طاری ہوگئی، دعا مکمل بھی نہیں ہوئی تھی کہ والد نے بلا لیا، اور سویٹر دے کر کہنے لگے، یہ پہن لو، یاد رکھنا کہ زندگی میں کسی کو بغیر کپڑوں کے دیکھو تو اسے اپنا اترا ہی دے دینا، آج تمہیں سخت حالات میں اس لیے رہنا ہے کہ کل تم زندگی کے ہر امتحان سے لڑجاؤ، بالکل ویسے جیسے کسی بے لباس کو سخت سردی میں یہاں رب سے سوال کرکے ، سب مانگنا آتا ہے۔

اگر مشکل حالات میں لڑنے کا عادی نہیں بنو گے تو رب اپنے سے سوال کی بھی طاقت نہیں دے۔ آج خود ایک بیٹی کا باپ ہوں، ہر طرح کی آسائش دے کر بھی عہد ہے کہ اسے کبھی کبھار ٹف حالات میں ڈال کر زندگی سے لڑنا سکھاؤں گا، یہ اس کی تربیت کا سب سے اہم جزو ہے۔ وہ تمام والدین جو اپنی اولاد کی تربیت میں پیسہ ، طاقت، وقت سب ڈال کر ، انہیں چیلنج میں ڈال کر ، سرخرو ہونے کا نشہ چھین لیتے ہیں ، وہ انہیں سب کچھ دے کر بھی ،ان سے سب لے لیتے ہیں۔

آپ اپنی اولاد کو سرکس کا شیر تو بنادیتے ہیں ، مگر انہیں جنگل کی حیوانگی میں رہنا نہیں سکھاتے۔ آج بھی کبھی کسی گاؤں کے بچے کو کسی بیل گاڑی پر بستہ لٹکائے، جاتے دیکھتا ہوں، تو جدید ماڈل کی کار میں با وردی ڈرائیور کے ساتھ بیٹھے بچے کے مستقبل سے خوف آنے لگتا ہے۔ وہ سستے میں بھی کندن تیار ہوتا ہے اور دوسرا مہنگے میں بھی کوئلہ۔ اپنی نسلوں کو ہر قسم کے حالات سے مقابلے کے لیے تیار رہنے کی عادت ڈالیں، اگر ہر گھر میں مصائب سے لڑنے والے مجاہد تیار ہوں گے، تو ایک سخت قوم تیار ہوگی اور یوں انفرادی اور قومی ہر طرح کے امتحانات کے لیے ہم سب جنگل کے اصل شیر بنیں گے، وہ شیر جنہیں دنیا بادشاہ کہتی ہے، عظمت ہمیشہ جھونپڑیوں سے نکلتی ہے، آپ اپنی بڑی بڑی سیکیورٹی کے حصاروں میں قائم کوٹھیوں میں پلے بچوں کی تربیت میں جھونپڑی کے مصائب شامل کرلیں ،آپ دنیا کے بہترین والدین بن جائیں گے۔

آخر میں درد ،امتحانات سے گزر کر کندن بنے والوں سے سبق سیکھنے والوں کے لیے اتنا ہی،
رات پوے تے بے درداں نو ں سکھ دی نیندر آوے
درد منداں نوں تانگ سجن دی ستیاں آن جگاوے
آپ اپنی اولاد کی تربیت میں وہ درد شامل کریں، جو انہیں آج بے چینی ، اضطراب دے کر ،کل کابڑا آدمی بنا دے۔اسی درد کی تیاری کا نام Accilimitization ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :