حسد ،منفی رویے اور شکر کی طاقت

ہفتہ 6 جولائی 2019

Dr Affan Qaiser

ڈاکٹر عفان قیصر

اس دنیا میں زندگی گزارنا آسان نہیں ہے، خاص کر ایسے معاشرے میں جہاں منفی اور مثبت قوتوں کا مقابلہ جاری ہو اور منفی مثبت پر حاوی ہوں۔ جب معاشروں میں بے انصافی، بے راہ راوی، لاقانونیت، غربت،افلاس کا بول بالا ہو اور لوگوں کو دو وقت کی روٹی کا حصول مشکل ہوتو اس معاشرے میں منفی لوگ پروان چڑھتے ہیں اور یہ اتنی بڑی تعداد میں ہوتے ہیں کہ پورے کے پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں اور سب ختم کردیتے ہیں۔

میں نے 2015ء میں Gary Hartfields کی ایک کتاب Stand پڑھی۔ یہ کتاب معاشرے میں موجود انسانوں کے ان رویوں پر مشتمل تھی جو اچھے بھلے انسان کو اندر سے توڑ دیتے ہیں ،انہیں کھو کھلا کردیتے ہیں، اپنی راہ سے ہٹا دیتے ہیں اور اسے مثبت کی طرف جاتے جاتے منفی کی جانب موڑ دیتے ہیں۔

(جاری ہے)

اب اگر آپ آگے بڑھ رہے ہیں، مثبت کی طرف مائل ہیں تو آپ کو ان لوگوں کی پہچان مشکل نہیں۔

ایسے لوگ آپ کے خون کے رشتے بھی ہو سکتے ہیں، مگر یہ ہوتے ہیں،سانپ کی طرح آپ کے اندر زہر داخل کرتے رہتے ہیں اور آخر میں آپ کو خود زہر بنادیتے ہیں۔ ہوسکتا ہے یہ منفی لوگ خود ترقی کرتے جائیں، اونچے عہدوں پر بھی پہنچ جائیں،مگر ان کا سانپ زندہ رہتا ہے اور یہ اپنے سے نیچے کسی کو ترقی کرتا دیکھیں تو ڈسنے لگتے ہیں۔ ان سب ایک قدر مشترک ہوتی ہے اور وہ قدر حسد کی ہے اور یہی وہ آگ ہے جو انہیں دنیا اور آخرت دونوں میں جلا دیتی ہے اور حاسد کے شر سے بچنا ہی ایسے معاشرے کے آگے بڑھنے والے لوگوں کا اصل فن ہوتا ہے اور جو اس سب سے لڑ لیتے ہیں ،وہ آگے نکل جاتے ہیں اور جو اس کا مقابلہ نہیں کرسکتے وہ وہیں ختم ہوجاتے ہیں۔

میں ذاتی طور پر ایک مثبت آدمی ہوں، یہ خود نمائی نہیں ، مگر جب بھی معاشرے میں موجود کچھ لوگوں سے اپنا تقابل کیا تو خود کو ہمیشہ مثبت پایا، شادی ہوئی، رب کا جتنا شکر ادا کروں کم ہے، اہلیہ مجھ سے بھی زیادہ مثبت مل گئیں اور یوں میری آگے بڑھنے کی صلاحیت اگر دس گنا تھی تو وہ سو گنا ہوگئی۔ ہم دونوں ڈاکٹری کے پیشے میں بھی آگے بڑھنے لگے اور میڈیا جوائن کیا تو اس میں بھی ترقی ملنے لگی۔

یہ سب آسان نہیں تھا،اس میں بہت رکاوٹیں تھیں، اور بعض اوقات ایسا بھی ہوتا کہ چند لوگ جینا ہی مشکل کردیتے۔ ایسے میں اہلیہ تو مثبت رہتیں ، میں کئی بار ٹوٹ جایا کرتا اور ایسی تاریک راتوں میں میرے چند دوست ہوتے جو ہمیشہ میرا ساتھ دیتے،سب سے بڑے حونصلے کا کام تو ہمیشہ والدہ نے کیا، مگر ان کے علاوہ بھی کچھ چہرے ایسے ہوتے جو ہر طرح کے منفی رویوں کے خلاف جہاد کرنے کی تلقین کرتے۔

ایک رات اسلام آباد کی رومانوی شام میں ایسی ہی کسی رکاوٹ کا سامنا تھا، میں سخت مایوسی کا شکار تھا ، میں نے اپنے دوست معروف موٹیویشنل سپیکر قاسم علی شاہ کو فون کیا،وہ مصروف تھے، مگر رات کے کسی پہر ان کا فون آگیا۔ میں گھر سے باہر نکلا اور بالکونی پر ان سے بات کرنے لگا۔ یہ میرے گھر کا وہ گوشہ ہے جہاں میں جا کر اگر کسی کو فون کروں تو میں اس کو صرف سننا چاہ رہا ہوتا ہوں۔

وہ وجہ جاننے لگے تو میں بتانے لگا کہ جب تک ناکامی تھی ،تو کوئی ساتھ نہیں تھا، جب گھر میں مشکل وقت آیا تو کوئی ساتھ نہیں تھا۔اب ہم آگے بڑھنے کی ٹھان چکے ہیں تو ہر راستے میں رکاوٹ سی کھڑی نظر آنے لگتی ہے اور یہ رکاوٹ بعض اوقات وہ ڈالتے ہیں، جن سے حونصلہ ملنا چاہیے،جن کو سب مل چکا ہے،ان کا شاید کام ہی ہاتھ پکڑ کر اوپر لے جانے والا ہے،یاں وہ قریبی یار دوست جو ناکامی میں تو بڑی محبت سے ملتے تھے اور اب وہی محبت طعنوں اور خوف میں بدل گئی ہے۔

ہر وقت ڈراتے ہیں،کہ یہ کرو گے تو یوں ہوجائے گا، پیچھے ہٹ جاؤ۔ہاں ایسے ایک شفیق ترین استاد ضرور ہیں ، جو مثبت ہیں،بہت مثبت ہیں جو ہر حال میں آگے بڑھنے اور اپنے مقصد پر لگے رہنے کی تلقین کرتے ہیں اور ایسے چند دوست بھی ہیں۔قاسم صاحب رات کی تاریکی میں قہقہہ مار کر ہنسنے لگے۔ کہتے بس چند منفی رویوں پر اتنی مایوسی ہے؟ وہ کہنے لگے میں آٹھویں جماعت تک فیل ہوا ہوں، لگاتار فیل۔

والدین کے منت ترلے سے اگلی کلاس میں بٹھا دیا جاتا اور میں پھر فیل ہوجاتا۔ کہتے زندگی میں ایک ایسا لمحہ آیا کہ مجھے رب کی ہدایت آگئی اور میں نے پڑھنا شروع کردیا اور محنت شروع کردی اور یہ مجھ سے ایک بابا جی نے کرائی، انہوں نے ایک دن پانی سے مچھلی نکالی اور میرے سامنے تڑپتی رکھ دی۔ کہنے لگے اسے میں جب تک پانی میں واپس نہیں ڈالوں گا،یہ اسی طرح تڑپتی رہے گی، پھر واپس ڈال کر کہنے لگے اب اسے پانی کی قدر ہوگی۔

تو جس تعلیم سے دور بھاگتا ہے ،وہ معاشرے کا پانی ہے،اس میں تیرنا سیکھ ،نہیں تواسی طرح تڑپ تڑپ کر مر جائے گا اور یہ نہ ہو کہ جب تجھے قدر ہو،بہت دیر ہوچکی ہو۔ میں پڑھنے لگا،تو وہ میرے دوست جو میرے ساتھی تھی، مجھے لعن طعن کرنے لگے، میں نویں میں پاس ہوا تو کئی رشتہ دار ناراض ہوگئے اور یوں مجھے پہلی بار میری قدر محسوس ہوئی ،میں اور محنت کرنے لگا،کتابیں لکھنے لگا۔

پہلی کتاب لکھی،جو میری بہت زیادہ تحقیق اور کوشش کا مجموعہ تھی تو وہی دوست کہنے لگے کہ چھاپا مارا ہے، مجھے ہر طرح سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا، میں رکا نہیں اور آج میں ایک کامیاب آدمی ہوں، تیرے ساتھ جو ہوتا ہے وہ پانی کی اصل قدر بتانے کے لیے غیب سے آنے والے لمحات ہیں،ان کی قدر کیا کر،یہ مایوسی نہیں ہے۔ تجھ میں رب کے شکر کے وٹامن کی کمی ہے۔

پھر انہوں نے مجھے اپنے ایک دوست سے ملنے کا کہا جو ملک کی دوسری بڑی فارما انڈسٹری کا بزنس یونٹ ہیڈ تھا۔ میں عرفان علی جو جانتا تھا، انہی نے قاسم شاہ صاحب سے میری پہلی ملاقات کرائی تھی۔ عرفان کی کہانی مجھے ان مایوس لمحوں سے نکالنے کی بڑی سعی ثابت ہوئی۔ عرفان کہنے لگا، ڈاکٹر صاحب، گھر کھانے کو روٹی نہیں ہوتی تھی، میں کپڑے کی دکان پر کام کرتا تھا،ایک بار کپڑے کی دکان کے مالک نے ہاتھ پکڑ کر کہا،کہ پڑھائی نہیں چھوڑنی،یہ میری زندگی میں پہلا مثبت آدمی تھا۔

پڑھائی نہیں چھوڑی، کپڑے کی دکان پر محنت کرتے ،سخت محنت کی عادت رگوں میں داخل ہوگئی۔ میں نے ایف ایس سی کی،چھوٹا سا میڈیکل ریپ بنا اور ترقی کرنے لگا۔ایک دن رات کو کلفٹن کراچی کے پاس تین تلوار چوک پر میں نے نئے ماڈل کی ایک گاڑی دیکھی، اس میں پیچھے دو بچے تھے اور سامنے ایک خوبصورت بیوی بیٹھی تھی۔ میرے دل میں اس وقت عجیب سے کیفیت آئی، مجھے لگا کہ میں کہیں ان سے حسد نہ کر بیٹھوں، ان کو میری نظر نہ لگ جائے،میں نے ان کے لیے دعا کی اور ساتھ ہی میری کیفیت رشک میں بدل گئی اور میں نے اپنے دل میں پختہ ارادہ کرلیا کہ ایک دن میں ان کی طرح یہ سب اپنی محنت سے حاصل کرلوں گا۔

میں فارما میں ہی محنت کرتا رہا، جو حسد کرتے تھے،وہ طعنے دیتے رہے، توڑتے رہے، بعض اوقات ایسے موقع بھی آئے کہ میں نے اپنے آپ کو بالکل ختم پایا، مگر بس لگا رہا۔ ایک دن اپنے جدیدترین ماڈل کی چالیس لاکھ کی گاڑی میں تین تلوار پر رکا،تو گاڑی میں اہلیہ ساتھ تھیں، پیچھے دو بچے تھے۔ دور ایک موٹر سائیکل سوار نوجوان ہمیں دیکھ رہا تھا، میں ،شاید صرف میں اس کے دل کی کیفیات پڑھ سکتا تھا۔

میں نے اپنے اور اس کے لیے دونوں کے لیے دعا کی اور گھر آکر سجدہ میں گر گیا۔ مجھے حسد سے رشک تک کے سفر نے بچالیا۔ عفان بھائی ہمارے جیسے معاشروں میں کسی بھی انسان کی کامیابی کہ دو ہی راستے ہوتے ہیں،کہ حسد سے بچا جائے اور حسد کرنے والوں کے لیے دعا کی جائے، اگر میں اس دن جب خود موٹر سائیکل پر تھا، دعا نہ کرتا توآج میں یہاں نہ ہوتا اور اگر میں آج اس کے لیے دعا نہ کرتا تو رب تک میرا شکر کیسے پہنچتا ؟ شاید یہی میری ترقی کا راز ہے، کپڑے کی دکان پر کام کرنے والے ایک عام سے انسان کی زندگی کیسے بدل گئی؟ یہ سب حسد کو رشک میں بدلنے اور مسلسل محنت کرنے کا صلہ ہے۔

میرے لیے قاسم شاہ صاحب اور عرفان علی کی زندگی میں Gary Hartfields کی کتاب Stand میں لکھی بہت سی باتیں ،مشترک تھیں اور یہی سب میرے ساتھ بھی ہورہا تھا۔ مجھے ایسا لگتا تھا کہ جیسے مجھے منفی لوگ سیدھی راہ پر کام کرنے سے روک رہے ہیں، ہر طرف رکاوٹیں ہیں ۔منفی لوگوں کا حسد میری جان کو آنے لگتا اور یوں میرے لیے مایوسی کے بہت سے اسباب پیدا کردیتا اور یوں میں اکثر ٹوٹنے لگتا۔

ایسا قاسم شاہ صاحب اور عرفان علی جیسے لوگوں کی زندگیوں میں کتنی بار ہوا ہوگا، کتنی بار ان کو راستے سے بھٹکانے کی کوشش کی گئی ہوگی اور کتنی بار انہوں نے سوچا ہوگا کہ وہ سب چھوڑ کر پھر اس آسان زندگی کی طرف آجائیں،مگر وہ زندگی حسد کی آگ سے بھری تھی اور یہ سب زیادہ مشکل تھا اور پھر ایسے معاشرے کہ جہاں منفی لوگوں کا ہجوم ہو اور مثبت لوگ آٹے میں نمک کے برابر ہوں،وہاں سب کچھ نظر انداز کرکے محنت کرنا بہت مشکل کام ہوتا ہے۔

Gary Hartfields لکھتا ہے کہ سوشل میڈیا کی وجہ سے اب چیزیں زیادہ مشکل ہیں اور Digital Hatred چیزوں کو اور مشکل کررہا ہے، خاص کر وہ انسان جن کی ترقی ایسی آنکھیں بھی دیکھ رہی ہوں جن کا بظاہر آپ سے کوئی تعلق نہ ہو تو ان کا منفی اثر بہت زیادہ ہوجاتا ہے اور یقینا انسان کے لیے مشکلات اور بڑھ جاتی ہیں۔ ان کا حل صرف یہی ہے کہ انسان خود اپنے حسد کو عرفان کی طرح رشک میں بدل ڈالے اور جب یہ لگے کہ وہ اندر سے منفی زہر سے اپنی راہ سے اور اپنے مقصد سے ہٹ رہا ہے تو اس کو چاہیے کہ وہ ان سب کے لیے بھی دعا کرے اور رب کا شکر بجا لائے،کیونکہ شکر دوسروں کے حسد کی آگ کا اثر آپ تک آنے سے محفوظ رکھتا ہے اور ا نسان اپنی منزل پا لیتا ہے۔

رات کے آخری پہر میں نے سخت مایوسی کے عالم میں اسی بالکونی میں کافی دیر اپنے دوست قاسم شاہ صاحب سے بات کی اور عرفان کے موضوع پر بھی بات کرتا رہا، نجانے کیوں فجر سے کچھ دیر پہلے جب بارش کی چند بوندیں چہرے پر پڑیں تو مجھے اپنا وہ چہرہ جو حسد کی آگ کے اثر میں اکثر جلتا محسوس ہوتا تھا،وہ عجیب سی ٹھنڈک محسوس کرنے لگا۔ میں کمرے میں آکر سجدہ میں گر گیا اور رونے لگا۔

رب کا شکر ادا کرتے ،مجھے اس بات کا شدید احساس ہونے لگا کہ وہ سکون جسے میں فقط کامیابی میں ڈھونڈ رہا تھا،اس میں شکر کی کمی تھی اور وہی شکر مجھے منفی لوگوں سے دور رکھے گا،حسد سے دور رکھے گا اور رشک کے قریب کردے گا، محنت اور کامیابی کے سفر میں قدم بوجھل ہونے لگیں تو انسان کو سمجھ جانا چاہیے کہ اس سے رب کے حضور شکر میں کمی ہوگئی۔ رات کے آخری پہر سے اجالے کی پہلی کرن کا سفر یوں تو فون پر کٹ گیا،مگر مجھے زندگی کا سب سے بڑا کامیابی کا راز دے گیا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :