جب تک عبور فلسفہ خیر و شر نہ ہو!
ہفتہ 9 دسمبر 2017
(جاری ہے)
بہرکیف بات ہورہی تھی" بھرے بھڑولے" کی، میں آپ کے سامنے بیٹھا ”بھرے بھڑولے“ کے مسودے کا ایک ایک کاغذ سیدھا کرتا اور ساتھ ہی ساتھ آپ کو "اطلاع" بھی فراہم کرتا”سر! یہ تو1970ء کا کاغذ ہے ، سر! یہ 1971ء میں لکھا ہوا ہے“۔ میری اکثر اطلاعات پر آپؒ مسکرایا کرتے۔ مٹیالے رنگ کے ملجگے خستہ کاغذوں کے پلندے میں ہر کاغذ کے اوپر دائیں کونے پر سن ِ تحریر بھی درج ہوتا اورسنِ تحریر کے نیچے ایک خط کشیدہ ۔ "بھرے بھڑولے" آپ کا بھرپور روحانی تعارف ہے، لیکن زندگی بھر آپ ؒ یہ کلام چھپوانے کی بجائے چھپاتے رہے۔ یہ طرِز فکر و عمل درحقیقت "کشف المحجوب" میں درج اس کلیے کا عملی مظاہرہ تھا کہ "نبی پر اپنی نبوت کا اظہار فرض ہے اور ولی پراپنی ولائت کا اخفا فرض ہے"۔ آخر وقتوں کی ایک نجی محفل میں آپؒ نے ایک مرتبہ فرمایا تھا "میں نے سب سے بڑا کام یہ کیا ہے کہ خود کو چھپانے میں کامیاب رہا".... لیکن اللہ اپنے دوستوں کو کہاں چھپا رہنے دیتا ہے.... ان میں سے اکثر کو ” فاذکرونی اذکرکم“ کا مصداق کر دیتا ہے.... بعد از وصال ان کے نام کا ڈھول بجا دیتا ہے.... اور زبانِ خلق پر یہ ڈھول نقارہ خدا بن جاتا ہے۔ "بھرے بھڑولے" کا پنجابی کلام دیکھیں تو ایسے معلوم ہوتا ہے جیسے بابا بلھے شاہ ؒکے کلام کا دوسرا ایڈیشن پڑھ رہے ہیں۔ بھڑولے اناج کو ذخیرہ کرنے والا مٹی سے بڑے سے برتن ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ صاحبِ کلام کے سارے بھڑولے معارف سے بھرے ہوئے ہیں۔
”شب راز" باقیاتِ واصف ؒہے، بعد ازوصال سخن شناسی کے مرکز سے دُور بیٹھے کچھ عقیدت مندوں نے آپؒ کے متروک کلام کو یکجا کیا اور شائع کر دیا۔ اس میں”شب چراغ“ میں موجود بعض غزلیات کا تواتربھی ہے۔ ”ذکرِ حبیبﷺ“ آپؒ کے نعتیہ کلام کا مجموعہ ہے۔ خوبی اس میں خاص یہ ہے کہ آپؒ کا لکھا ہوا بہت سا نعتیہ کلام جو نعت خوانوں کی ڈائری اور دوشِ آواز پر موجود تھا ‘ وہ ایک جگہ محفوظ کر لیا گیا۔
کلامِ واصفؒ بالخصوص ”شب چراغ“ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ آپؒ کی شاعری میں ”تدریجی ارتقا“ نام کی کوئی چیز نہیں پائی جاتی، ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے آپؒ نے فکر و سخن کی معراج پانے کے بعد قلم اٹھایا ہو۔ یہی اندازِ ِسخن ہمیں دیگر صوفیا کی شاعری میں بھی ملتا ہے۔ حق اور حقیقت ایک حتمی سچائی ہے‘ جسے پانے کے بعد مزید کسی ”ارتقا“ کی ضرورت نہیں رہتی۔ حق کی ایک تعریف یہ بھی ہے کہ حق‘ حق کو قطع نہیں کرتا۔ یہی وجہ ہے ‘ صوفیانہ شاعری میں ایک ہی فکر کا تسلسل نظر آتا ہے۔ قصور کے بابا بلھے شاہؒ ہوں ، لاہور کے شاہ حسینؒ ہوں ، بھٹ کے شاہ عبدالطیف بھٹائیؒ ہوں، شور کوٹ کے سلطان العارفین حضرت سلطان باہوؒ ہوں‘ یا پھر بنگال کے ”لالن فقیرؒ “.... سب کا کلام موضوع کے اعتبار سے ایک دوسرے کے اس قدر قریب ہے کہ پڑھنے والے فراخدلی سے ان کے کلام میں گرہ لگاتے ہیں اور سننے والوں کو یہ موہوم سا اشارہ بھی نہیں ملتا کہ ان کی سماعتیں کب ایک شاعر سے دوسرے صوفی شاعر کی طرف منتقل ہو گئی ہیں۔ مذکور صوفیا کا زمانہ کم و بیش ایک ہے، ملاقات ثابت نہیں ہے، زبان اور علاقائی ثقافت کا فرق ہے لیکن کلام ایک ہے ٗ کیونکہ اُس دور کے فکری طلب اور تقاضے ایک سے تھے ۔ حضرت واصف علی واصفؒ کا کلام جن معروف مغنیوں نے گایا ہے‘ ان میں مہدی حسن ، عابدہ پروین اور استاد نصرت فتح علی خان شامل ہیں۔ مغنیوں کا کسی کلام کی طرف مائل ہونا اس کلام میں غنایت کی دلیل ہوا کرتی ہے۔
حضرت واصف علی واصفؒ نے دیگر صوفیا کی طرح اپنے پیغام کی ترسیل اور ابلاغ کیلئے شعر کو ایک ذریعہ بنایا ہے۔ ایک صوفی کا پیغام گو کائناتی اور آفاقی ہوتا ہے لیکن ہر دور میں اُس دَور کے مخصوص طلب اور تقاضوں کی سیرابی کا سامان بھی کرتا ہے۔ آپؒ کے 1960ء کے عشرے کے ایک دیرینہ شاگرد مرحوم حسن محمد سوہلوی بتایا کرتے کہ 70 کی دہائی کے وسط تک آپؒ اپنی شاعری مکمل کر چکے تھے۔ اس طرح آپؒ کی نظم اور نثر کے دَور میں تقریباً بیس برس کا وقفہ ہے لیکن مضامینِ واصف ؒ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؒ نے جن موضوعات کو اشعار میں ایجاز کی صورت بیان کیا تھا ‘ نثری مضامین میں انہیں بالشرح کھول دیا۔ اس ضمن میں زیرِ بحث شعربھی ایک مثال ہے:
جب تک عبور فلسفہ خیر وشر نہ ہو
اپنی اپنی صفات کی خوشبو
اپنی اپنی صفات کی خوشبو
مرے پاس آئیں گے وہ کبھی جنہیں اک سحر کی تلاش ہے
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
ڈاکٹر اظہر وحید کے کالمز
-
خاص خدمت.... خاص عبادت!!
جمعرات 15 نومبر 2018
-
”گمنام ادیب“
جمعرات 31 مئی 2018
-
تا ثریا می رَور دیوار کج
ہفتہ 12 مئی 2018
-
خیال .... نظریہ .... اور پاکستان!!
جمعرات 10 مئی 2018
-
ہمیں فنڈز نہیں چاہییں
اتوار 4 مارچ 2018
-
بڑے دن کا آغاز.... ایک چھوٹے سے کام سے !!
جمعہ 2 مارچ 2018
-
اخلاص اور اخلاق
جمعرات 15 فروری 2018
-
رات اور دن
ہفتہ 20 جنوری 2018
ڈاکٹر اظہر وحید کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2024, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.