جب تک عبور فلسفہ خیر و شر نہ ہو!

ہفتہ 9 دسمبر 2017

Dr Azhar Waheed

ڈاکٹر اظہر وحید

یہ مصرع” شب چراغ“ کی ایک غزل سے ہے۔”شب چراغ “ ایک قدرتی بوٹی کا نام ہے جو رات کے اندھیرے میں روشن ہوتی ہے اور ارد گرد کے ماحول کو روشن کر دیتی ہے۔ عین ممکن ہے ٗ حضرت واصف علی واصفؒ نے اپنے شعری مجموعے ”شب چراغ“ کا نام اپنے سوز وگداز سے لبریز دل ِ بے تاب کا تعارف کروانے کیلئے رکھا ہو۔ یہ دلِ مضطر جب شب کی تاریکی میں محافلِ گفتگو میں شب چراغ کی مانند دمکتا اور مہکتا تو خوشبوئے ذات کی مہک سے اکناف ِعالم کو معطر کرتا۔

شعریاتِ واصف کے باب میں "شب چراغ" پہلا مجموعہ ہے، یہ 1978ء میں شائع ہوا۔ اس وقت سید عبداللہ نے اس کی تقریظ لکھی تھی۔ اس کتاب کو تبصرے کیلئے جنابِ اشفاق احمد کوبھی بھیجا گیا۔ حضرت واصف علی واصفؒ کے سالانہ سمینار کی ایک تقریب میں وہ بتاتے کہ میں رات بر "شب چراغ" کے مطالعے میں محو رہا، اگلے دن جب واصف صاحب میرے دفتر میں داخل ہوئے تو میں نے اٹھ کر دروازے کی چٹخنی لگا دی اور سرگوشی کے انداز میں پوچھا ‘ جنابِ والا! آپ یہ بتائیں کہ آپ ہیں کون؟ میدانِ سخن کا یہ شہسوار سمجھ چکا تھا کہ یہ کلام محض شاعری نہیں۔

(جاری ہے)

ظاہر ہے کلام صاحبِ کلام کا تعارف ہوتا ہے۔ کلام اپنے صاحب کا بھی تعارف ہوتا ہے، لیکن "شب چراغ" میں میرے صاحب کے تعارف کی صرف چند جھلکیاں ہیں .... " نوائے راز" ، "نعرہِ مستانہ" ، "دُور کی آواز" اور "میں کون ہوں‘ بادل ہوں" کی نظمیں آپؒ کے روحانی مقام ومرتبے کی طرف صرف اشارہ کرتی ہیں۔ "میں کون ہوں بادل ہوں" نظم میں "با" اور "دل" کو الگ پڑھنے سے نقطہ ِ"با" کا نکتہ قدرے کھلتا ہے۔

آپؒ کا اصل روحانی تعارف آپؒ کے پنجابی کلام "بھرے بھڑولے" میں ملتا ہے۔ ڈاکٹر ناہید شاہد مرحوم کے مقالے " بھرے بھڑولے.... صوفیانہ شاعری کا تسلسل" میں اس موضوع پر سیر حاصل گفتگو موجود ہے۔ "بھرے بھڑولے" کی اشاعت آپؒ نے اپنی زندگی میں نہیں ہونے دی، ہر چند کہ یہ کلام 1970ء سے 1972ء کے دوران لکھا جا چکا تھا۔ مجھے اس کی خبر یوں ہے کہ اس خاکسار کو "بھرے بھڑولے" کے مسودے کے کاغذات ترتیب دینے کا موقع ملا۔

ایک بوسیدہ کالے رنگ کا جستی صندوق تھا، مجھے کہا گیا "دیکھو! اس کے اندر کاغذات رکھے ہیں، انہیں سیدھا کرنے کی کوشش کرو"۔ صاحبو! اسی ٹرنک میں اس مریدِ بے خبر نے لکڑی کا وہ عصا بھی دیکھا، جسے فقیری زبان میں "مطیرھ" کہتے ہیں، سنا ہے ٗ عصائے موسیٰ کی طرح یہ عصا بھی روحانی طاقت کی علامت کے طور فقیر کو عطا ہوتا ہے۔ خیر! اس زمانے میں روحانی اصطلاحات اور طاقت دونوں سے میں یکسر بے خبر تھا۔

بس مجھے آپ کی دانش ، دانائی اور اس پر مستزاد علمِ کلام کشش کرتا اور میں کشاں کشاں آپ کی محفل میں پہنچ جاتا۔ محفل میں آپ کو تکتا رہتا اورآپؒ کے ہرلفظ اور لہجے کے زیر وبم کے زیرِاثرمیرے سازِ شعور کا تار تار لرزتا رہتا۔ میری ساری زمین وجود جس فلک میں تیر رہی تھی وہ آپؒ کے فکر و سخن کا آسمان تھا۔ مجھے ایسے معلوم ہوتا جیسے میں قدیم یونان میں سقراط کی محفل میں جا پہنچا ہوں۔

یہاں پہلے سے چبائی ہوئی کوئی بات نہ ہوتی بلکہ ہر روز نوع بنوع معانی اپنے گرد اسرار کی چادر اتارتے اور نگاہِ ِبصیرت کے سامنے بے حجاب جلوہ نما ہوتے.... یہاں ہمہ دم نت نئے معانی کا ایک سیلِ رواں موجزن رہتا جو شعور کی فصیلوں کو ہلا کر رکھ دیتا۔ حیرت کسے کہتے ہیں‘ کسی قلندر کی بارگاہ میں اذنِ باریابی ملے تو ہی پتہ چلتا ہے۔ حیرت وہ مقام ہے جہاں عقل سوچنا بھول جائے، روح کسی یادِ قدیم کے سفر پر روانہ ہوجائے ....اور دل محوِ عبادت ہوجائے!!
بہرکیف بات ہورہی تھی" بھرے بھڑولے" کی، میں آپ کے سامنے بیٹھا ”بھرے بھڑولے“ کے مسودے کا ایک ایک کاغذ سیدھا کرتا اور ساتھ ہی ساتھ آپ کو "اطلاع" بھی فراہم کرتا”سر! یہ تو1970ء کا کاغذ ہے ، سر! یہ 1971ء میں لکھا ہوا ہے“۔

میری اکثر اطلاعات پر آپؒ مسکرایا کرتے۔ مٹیالے رنگ کے ملجگے خستہ کاغذوں کے پلندے میں ہر کاغذ کے اوپر دائیں کونے پر سن ِ تحریر بھی درج ہوتا اورسنِ تحریر کے نیچے ایک خط کشیدہ ۔ "بھرے بھڑولے" آپ کا بھرپور روحانی تعارف ہے، لیکن زندگی بھر آپ ؒ یہ کلام چھپوانے کی بجائے چھپاتے رہے۔ یہ طرِز فکر و عمل درحقیقت "کشف المحجوب" میں درج اس کلیے کا عملی مظاہرہ تھا کہ "نبی پر اپنی نبوت کا اظہار فرض ہے اور ولی پراپنی ولائت کا اخفا فرض ہے"۔

آخر وقتوں کی ایک نجی محفل میں آپؒ نے ایک مرتبہ فرمایا تھا "میں نے سب سے بڑا کام یہ کیا ہے کہ خود کو چھپانے میں کامیاب رہا".... لیکن اللہ اپنے دوستوں کو کہاں چھپا رہنے دیتا ہے.... ان میں سے اکثر کو ” فاذکرونی اذکرکم“ کا مصداق کر دیتا ہے.... بعد از وصال ان کے نام کا ڈھول بجا دیتا ہے.... اور زبانِ خلق پر یہ ڈھول نقارہ خدا بن جاتا ہے۔

"بھرے بھڑولے" کا پنجابی کلام دیکھیں تو ایسے معلوم ہوتا ہے جیسے بابا بلھے شاہ ؒکے کلام کا دوسرا ایڈیشن پڑھ رہے ہیں۔ بھڑولے اناج کو ذخیرہ کرنے والا مٹی سے بڑے سے برتن ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ صاحبِ کلام کے سارے بھڑولے معارف سے بھرے ہوئے ہیں۔
”شب راز" باقیاتِ واصف ؒہے، بعد ازوصال سخن شناسی کے مرکز سے دُور بیٹھے کچھ عقیدت مندوں نے آپؒ کے متروک کلام کو یکجا کیا اور شائع کر دیا۔

اس میں”شب چراغ“ میں موجود بعض غزلیات کا تواتربھی ہے۔ ”ذکرِ حبیبﷺ“ آپؒ کے نعتیہ کلام کا مجموعہ ہے۔ خوبی اس میں خاص یہ ہے کہ آپؒ کا لکھا ہوا بہت سا نعتیہ کلام جو نعت خوانوں کی ڈائری اور دوشِ آواز پر موجود تھا ‘ وہ ایک جگہ محفوظ کر لیا گیا۔
کلامِ واصفؒ بالخصوص ”شب چراغ“ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ آپؒ کی شاعری میں ”تدریجی ارتقا“ نام کی کوئی چیز نہیں پائی جاتی، ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے آپؒ نے فکر و سخن کی معراج پانے کے بعد قلم اٹھایا ہو۔

یہی اندازِ ِسخن ہمیں دیگر صوفیا کی شاعری میں بھی ملتا ہے۔ حق اور حقیقت ایک حتمی سچائی ہے‘ جسے پانے کے بعد مزید کسی ”ارتقا“ کی ضرورت نہیں رہتی۔ حق کی ایک تعریف یہ بھی ہے کہ حق‘ حق کو قطع نہیں کرتا۔ یہی وجہ ہے ‘ صوفیانہ شاعری میں ایک ہی فکر کا تسلسل نظر آتا ہے۔ قصور کے بابا بلھے شاہؒ ہوں ، لاہور کے شاہ حسینؒ ہوں ، بھٹ کے شاہ عبدالطیف بھٹائیؒ ہوں، شور کوٹ کے سلطان العارفین حضرت سلطان باہوؒ ہوں‘ یا پھر بنگال کے ”لالن فقیرؒ “.... سب کا کلام موضوع کے اعتبار سے ایک دوسرے کے اس قدر قریب ہے کہ پڑھنے والے فراخدلی سے ان کے کلام میں گرہ لگاتے ہیں اور سننے والوں کو یہ موہوم سا اشارہ بھی نہیں ملتا کہ ان کی سماعتیں کب ایک شاعر سے دوسرے صوفی شاعر کی طرف منتقل ہو گئی ہیں۔

مذکور صوفیا کا زمانہ کم و بیش ایک ہے، ملاقات ثابت نہیں ہے، زبان اور علاقائی ثقافت کا فرق ہے لیکن کلام ایک ہے ٗ کیونکہ اُس دور کے فکری طلب اور تقاضے ایک سے تھے ۔ حضرت واصف علی واصفؒ کا کلام جن معروف مغنیوں نے گایا ہے‘ ان میں مہدی حسن ، عابدہ پروین اور استاد نصرت فتح علی خان شامل ہیں۔ مغنیوں کا کسی کلام کی طرف مائل ہونا اس کلام میں غنایت کی دلیل ہوا کرتی ہے۔


حضرت واصف علی واصفؒ نے دیگر صوفیا کی طرح اپنے پیغام کی ترسیل اور ابلاغ کیلئے شعر کو ایک ذریعہ بنایا ہے۔ ایک صوفی کا پیغام گو کائناتی اور آفاقی ہوتا ہے لیکن ہر دور میں اُس دَور کے مخصوص طلب اور تقاضوں کی سیرابی کا سامان بھی کرتا ہے۔ آپؒ کے 1960ء کے عشرے کے ایک دیرینہ شاگرد مرحوم حسن محمد سوہلوی بتایا کرتے کہ 70 کی دہائی کے وسط تک آپؒ اپنی شاعری مکمل کر چکے تھے۔

اس طرح آپؒ کی نظم اور نثر کے دَور میں تقریباً بیس برس کا وقفہ ہے لیکن مضامینِ واصف ؒ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؒ نے جن موضوعات کو اشعار میں ایجاز کی صورت بیان کیا تھا ‘ نثری مضامین میں انہیں بالشرح کھول دیا۔ اس ضمن میں زیرِ بحث شعربھی ایک مثال ہے:
؎ واصف عبث ہے بحث امیروغریب کی
جب تک عبور فلسفہ خیر وشر نہ ہو
فلسفہِ حیات کو مادّیات اور مالیاتی جدلیات سے اٹھا کر خیر و شر کی روحانی بنیادوں پر استوار کرتے ہوئے اس شعر کی وضاحت آپؒ کے مضمون ” امیرغریب“میں بالتفصیل ملتی ہے۔

بیشتر مضامین میں آپ ؒنے اپنے ہی اشعار بغیر نام بتائے تحریر کیے ہیں۔ گفتگو کے دوران میں بھی آپ اکثر اپنے اشعار پڑھا کرتے .... جہاں تخلص ہوتا وہاں خود ہی لفظ بدل دیتے۔ مثلاً یہ شعر ملاحظہ کیجئے:
؎ اپنے اپنے مزار میں واصف
اپنی اپنی صفات کی خوشبو
اس شعر کو محفل میں وزن متاثر کیے بغیر آپ ؒ یوں پڑھا کرتے:
؎ اپنے اپنے مزار میں ہوگی
اپنی اپنی صفات کی خوشبو
آپؒ اپنی کتاب پڑھ کر سنا رہے تھے، اپنے بارے میں گفتگو فرمار ہے تھے.... اس لئے نام بتلانے اور جتلانے کی چنداں ضرورت نہ تھی!!
؎ ہوں چراغِ داغ بنا ہوا ٗ سرِ شام جلتا ہوں شوق سے
مرے پاس آئیں گے وہ کبھی جنہیں اک سحر کی تلاش ہے
( لمز یونیورسٹی میں بزمِ ادب کے زیرِ اہتمام ”کلامِ واصفؒ “ کے موضوع پر منعقد تقریب میں پڑھا گیا)

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :