ٹرانسجینڈر کمیونٹی اور ہمارا مہذب معاشرہ

منگل 15 جون 2021

Dr Hamza Siddiqui

ڈاکٹر حمزہ صدیقی

‏نہ میں پتر نہ،میں دھی آں
نہ میں دھرتی نہ، میں بی آں
ربا میں وی ،تیرا جی آں
توں ای مینوں دس، میں کی آں
دین اسلام نے سب انسانوں کو مساوی حقوق دیئے ہیں چاہے وہ مرد ہو ،عورت ہو ،یا ٹرانسجینڈر کمیونٹی اسلام کی نظر میں سارے انسان برابر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ سب ایک آدم علیہ السلام اور ایک حوا ؑکی اولاد ہیں اور اس رشتے سے آپس میں بھائی بھائی ہیں۔

سب ایک اللہﷻ کے بندے ہیں اور وہی سب کا پرودگار ہے۔ اللہﷻ کی رحمتیں سب کے لیے عام ہیں اور اس کی ہدایت بھی سارے انسانوں کے لیے یکساں ہے ، مگر ہمارے معاشرے سے آدمیت اور اخلاق سمیت تمام انسانی اقدار شاید فنا ہو چکے ہیں کیونکہ اس معاشرے میں مرد و عورت کے حقوق کی باتیں تو ہوتیں ہیں مگر  ٹرانسجینڈر کمیونٹی
کے بارے میں بات چیت کرنا بھی معیوب سمجھا جاتا ہے،  ٹرانسجینڈر کمیونٹی کی زندگی دہکتے انگاروں پر گھسٹتی ہے ۔

(جاری ہے)

شاید ہم اس قدر بے حس ہو گئے ہیں کہ ہمیں ان تڑپتی زندگیوں کے دکھ درد کا ادراک ہی نہیں بلکہ ہم کسی نہ کسی طرح ان انگاروں میں تپش بڑھانے کا سبب بن رہے ہیں
ٹرانسجینڈر کمیونٹی اسی اللہ رب العزت کی وہ مظلوم مخلوق ہیں، جنہیں خود ان کے والدین نہیں اپناتے ،تو اور کون اپنائے گا۔ ایسی صورتحال میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر وہ جائیں تو جائیں کہاں ؟ یہ دُکھ کے مارے ، کم عُمری ہی سےاپنی بقا کی جنگ خود لڑنی شروع کر دیتے ہیں۔


قران پاک میں اللہ پاک ﷻ سورت الشوری کی آیت نمبر ٤٩ اور ٥٠ میں ارشاد فرما رہے ہیں
اللہ کے لئے آسمان و زمین وە جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے جسے چاہتا ہے بیٹیاں دیتا ہے جسے چاہتا ہے بیٹے دیتا ہے جسے چاہتا ہے ملا جلا کر دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے بے اولاد رکھتا ہے بے شک وە علم والا ہے قدرت والا ہے
مجھے افسوس ہوتا ہے ایسے والدین پر جہنیں اگر اللہ نے اولاد جیسی نعمت دی ہے وہ انہیں دھتکاریں صرف اس  وجہ سے کہ وہ ٹرانسجینڈر ہیں ہمارے معاشرے کا الميہ ہے کہ وہ ٹرانسجینڈر کمیونٹی کو تیسری جنس سمجھ کر انکے حقوق چھین لیتی ہے مگر ٹرانسجینڈر کوئی تیسری جنس نہیں بلکہ ایک بیماری کا نام ہے جیسے  کلِنفیلٹر سنڈروم کہا جاتا ہے۔

چونکہ اس کے نام سے ہی ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ایک سنڈروم یعنی بیماری ہے تو اس کا الگ سے جنس کا تعین کرنا سواٸے جہالت کے کچھ نہیں ہے ٹرانسجینڈر کمیونٹی بھی ہماری طرح انسان  ہیں بس انکے اندر کروموسوم کی کمی بیشی کی وجہ سے انہیں  معاشرے کے ماتھے کا کلنک سمجھا جاتا ہے مگر سچ تو یہ ہے کہ  معاشرے کے ماتھے کا کلنک  ٹرانسجینڈر کمیونٹی نہیں بلکہ وہ بہن بھائی اور والدین ہیں جو معاشرے کے خوف سے انہیں خود سے جدا ہونے پہ مجبور کرتے ہیں۔


ہمارا معاشرے اور اسکے مہذب شہروں  نے سائنس کو صرف دیکھا ہے پڑھا نہیں ہے اگر ہم اسکی تفسیر میں جاٸے تو   می اوسس ۱ میں جب کروموسومز کا تبادلہ ہوتا ہے تو نارملی مرد کا" x" یا "y"کروموسوم عورت کے "x" کروموسوم کو فرٹیلائز کرتا ہے۔ اگر" xx "مل جائیں تو عورت اور "xy" ملیں تو مرد ہوتا ہے مگر بغض اوقات اس سنڈروم میں کسی وجہ سے می اوسس کے دوران کروموسومز الگ نہیں ہو پاتے۔

اس وجہ سے مرد کا "xy" کروموسوم عورت کے x کو یا مرد کا y عورت کے "xx "کو فرٹیلائز کر سکتا ہے جس سے" xxy" کروموسوم والا جاندار بنے گا۔ اس بیماری کو ہیری کلِنفیلٹر نے دریافت کیا جس کی بنا پر اس کا نام رکھا گیا۔  ای میڈیکل میں اس کو ایک بیماری کے طور ہر رجسٹر کیا گیا ہے جس کا نمبر Ped/1252 ہے۔ یہ صرف پانچ سو میں اسے ایک شخص یا ہزار میں سے ایک شخص کو ہوتی ہے۔


اب بات کرتے ہیں مہذب معاشرے کی جہاں ٹرانسجینڈر کمیونٹی کھل کے سانس نہیں لے سکتے۔ مر مر کے جیتے ہیں۔ ان کے پیچھے درد ناک کہانیاں ہیں جن کا تذکرہ کرنا بھی ہم گوارا نہیں کرتے۔ ہم ان کے دکھ درد کا بوجھ اٹھانے سے قاصر ہیں۔ معاشرے میں انہیں کمزور سمجھا جاتا ہے۔انہیں زندگی گزارنے کے لیے کس کرب سے گزرنا پڑتا ھے اسکا اندازہ ہمیں معلوم نہیں ،ٹرانسجینڈر کمیونٹی میں کوٸی ٹرانسجینڈ بیمار ہو جائیں تو ان جیسے ٹرانسجینڈر کے علاوہ کوئی ان کی مدد کو نہیں آتا، اگر وہ مر جائیں تو ان کی لاش تک وصول کرنے سے انکار کر دیا جاتا ہے۔

اگر یہ باہر نکلیں تو طرح طرح کے طعنوں سے ان کا جینا دوبھر کیا جاتا ہے ہمارا معاشرے میں انہیں قبول نہیں کیا جاتا۔ ان کی فیملیاں ان کو اپنے لیے باعث شرمندگی محسوس کرتی ہیں اور پڑھائی کی جگہ سے لے کر جاب کے مقام تک ہر جگہ ان کو عجیب و غریب نظروں سے دیکھا جاتا ہےمگر پھر بھی ان کے حوصلے اس قدر بلند ہیں کہ اس کرب کے باوجود وہ زندگی کی مشکلات کا ڈٹ کر سامنا کرتے ہیں حالانکہ ہم اس کرب سے گزریں تو ممکن نہیں کہ سکت بھی باقی رہے
اللہ ﷻ نے ان کی جسمانی ساخت میں جس طرح چاہی بنا دی لیکن ان کو دماغ دو ہاتھ اور دو ٹانگیں باقیوں کی طرح ہی دئیےان کے منہ میں زبان بھی ہے اور سر میں ایک دماغ بھی ہے جس کو استعمال کر کے یہ  ڈاکٹر ،پاٸلٹ ، انجینئر بن سکتے ہیں ۔

سوال یہ ہے کہ کیا ٹرانسجینڈر کمیونٹی ہمارے معاشرے کا حصہ نہیں ہیں؟ یہ سوال ہمارے اذہان پر جمی گرد کو کریدتا ہے۔ یہ بھی انسان ہیں جو دل رکھتے ہیں۔ ان کے بھی جذبات و احساسات ہیں۔ کون ہے؟ وو لوگ جو ان کو کچرے میں پھینکتا ہے؟ حقارت اور ذلت کی نظر سے کون دیکھتا ہے؟ راہ چلتے ان پر فقرے کون کستا ہے؟ انہیں اسکول کالج کوئی کیوں نہیں بھیجا جاتا ؟ کوئی باعزت نوکری کیوں نہیں دی جاتی؟ والدین اپنے بچوں کو یہ کیوں نہیں بتایا جاتا کہ یہ بھی ہم ہی جیسے انسان ہیں، ان کا بھی دل ہے اور یہ بھی محسوس کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں
کب یہ معاشرہ ان کے وجود کو برداشت کرنے اور انہیں عزت دینے کے قابل ہو گا،کب ہم ان کو بھی اللہﷻ کی تخلیق سمجھ کر ان کے غم کم کریں گے بجائے انہیں اور دینے کے،کب تک ہماری زہر آلود زبانوں سے نکلنے والے طنز کے نشتر ان کی روح کو زخمی کرتے رہیں گے،کب سے ان کے جسموں کو سگریٹوں سے جلایا جائے گا،کب تک ان کی تشدد زدہ لاشیں ملتی رہیں گی،اب بس کرو،اب بس کرو،اب بس کروکب ہم ان کو اپنائیں گے،ان کو عزت دینا سیکھیں گے ہمارے معاشرے میں جانوروں، پرندوں کے حقوق پر بات کی جاتی ہے مگر ٹرانسجینڈر کمیونٹی کے بارے میں اجتماعی طور پر کوئی حقوق یاد نہیں کروائے جاتے حتی کہ جمیع اکثریت ان کا ذکر کرنا بھی معیوب سمجھتی ہے
قارٸین! ہم  سب ملکر ٹرانسجینڈر کمیونٹی کو معاشرے میں ایک اچھا مقام دلوا سکتے ہیں۔

انھیں جینے کا حق دلوا سکتے ہیں۔ مگر اس کے لیے ہمیں اپنی سوچ بدلنی ہوگی۔ ہمیں منفی سوچ کو اپنے دل و دماغ سے نکال کر مثبت سوچ سوچنا ہوگی اسی طرح حکومت پاکستان کو چاہیے کہ وہ ان کےلیے بہتر تعلیم اور روزگار فراہم کرے اور جس طرح لڑکیوں اور لڑکوں کےلیے علیحدہ تعلیمی مراکز بنائے جاتے ہیں، ان کےلیے بھی بنائے جائیں تاکہ یہ بھی باقاعدہ طور پر تعلیم حاصل کرسکیں حکومت کو  چاہیے کہ انکی مالی معاونت بھی کرنی چاہیے اور ان کے لیے ملازمت کے مواقع اور کاروبار کے مواقع  فراہم کیاجاٸے کیونکہ ریاست کے ہر شہری کی ،بشمول
ٹرانسجینڈر کمیونٹی بنیادی ضروریات کی تکمیل حکومت کی ذمہ داری ہے
آخرمیں  بس اتنا  کہنا چاہوگا کہ انھیں قبول کر لیجیے یہ بھی ہمارے اپنے ہیں۔

ہمارے جیسا بھی انکا دل ہے۔جو دھڑکتا بھی ہے ، جس میں درد بھی ہوتا ہے ، انکو اپنی نظروں حقیر مت کیجیے ۔خدارا!!! ان پر عرصہ حیات تنگ نہ کریں،ان کی مدد کریں،ان کی عزت کریں،ان سے پیار کریں ، انہیں  بھی معاشرہ کا حصہ تسلیم کیجئے اور ان سے برابری کا انسانی سلوک کیجئے۔جب تک  ٹرانسجینڈر کمیونٹی کے ساتھ معاشرے میں ایک عام انسان جیسا سلوک نہیں کیا جاتا اس وقت تک ان کو اس دلدل سے نکالناکیسے ممکن ہے؟
ﷲ ﷻپاک ہم سب کو اچھے اعمال کرنے اور ٹرانسجینڈر کمیونٹی  کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی توفیق عطا فرماٸیں آمین!۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :