سقوطِ ڈھاکہ، شیخ مجیب کا کردار

اتوار 19 دسمبر 2021

Dr Hamza Siddiqui

ڈاکٹر حمزہ صدیقی

شیخ مجیب الرحمٰن 17 مارچ 1920ء کو ضلع فرید پور میں پیدا ہوئے۔ 1947ء میں اسلامیہ کالج کلکتہ سے تاریخ اور علم سیاسیات میں بی-اے کیا۔ طالب علمی ہی کے زمانے سے انہوں نے سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینا شروع کر دیا تھا۔ 1943ء سے 1947ء تک وہ کل ہند مسلم لیگ کی کونسل کے رکن رہے۔ 1945ء تا 1946ء وہ اسلامیہ کالج کے طلبہ کی یونین کے جنرل سیکرٹری رہے۔

1946ء میں بنگال اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ 1947ء میں پاکستان بننے کے فوراً بعد مسلم لیگ سے مستعفی ہو کر پاکستان مسلم اسٹوڈنٹس لیگ قائم کر کے اردو کی مخالفت کرنا اس بات کو ظاہر کر دیتا ہے کہ شیخ مجیب شروع ہی سے مسلم قومیت کی بجائے بنگالی قومیت کے علمبردار تھے حالانکہ خود مجیب الرحمن نے ببانگ دہل جنوری 1972میں برطانوی صحافی ڈیوڈ فراسٹ کو ٹی وی انٹرویو میں کہا تھا کہ میں تو 1948سے 'آزاد بنگلہ دیش' کے قیام کے لئے کام کر رہا تھا۔

(جاری ہے)

اور انہوں نے مسلم لیگ کے بہت سے دوسرے رہنماؤں کی طرح مسلم لیگ کا ساتھ محض اس لیے دیا کہ وہ اس زمانے میں مقبول تحریک تھی۔ اور اس میں شامل ہو کر اقتدار حاصل کرسکے۔پاکستان کو دولخت کرنیوالوں میں سے ایک اہم کردار شیخ مجیب الرحمن کا تھا یہ بھارت کا ایجنٹ اور پروانڈین تھا۔ پاکستان توڑنے میں اس کا بنیادی کردار تھا اور بنگالیوں کو اسی نے میر جعفر کی طرح بھارت کو بیچ دیا تھا۔

شیخ مجیب ایسا تنگ نظر حکمران تھا جس کیلئے ذاتی مفاد اور پارٹی ہی سب کچھ تھا اور ایسے حکمرانوں کے نزدیک ملک وقوم کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی مجیب اقتدار کو ذاتی ملکیت سمجھتا ہے اس کے دور میں سینکڑوں افراد بھوک سے مر رہے ہیں اور سارا سرکاری خزانہ اس نے بیٹے، بھائی اور خاندان کے دوسرے افراد لوٹ رہے ہیں یہی وجہ تھی کہ اس نے اپنی وزارت عظمیٰ کے زمانے میں بھی ایک ڈمی صدر ابوسعید چوہدری رکھا تھا جو حقیقتاً کٹھ پتلی سربراہ تھا۔

اور اس کے علاوہ شیخ مجیب کے بیٹے جمال مجیب الرحمن نے پاک فوج سے مقابلے کیلئے ذاتی فوج ”راکھی باہنی“ کے نام سے تشکیل دی جس نے بنگلہ دیش میں مکتی باہنی اور دوسرے فسادی گروپوں سے زیادہ تباہی مچائی اور اپنی دہشت کو مختلف ہتھکنڈوں کے ذریعے پھیلا رکھا تھا اور انہی کی دہشت سازی کی وجہ سے بنگلہ دیش کے پہلے انتخابات میں 80 فیصد فوجیوں نے اس کے خلاف ووٹ دیئے جب جنرل ایوب خان کا دور حکومت آیا تو شیخ مجیب کو بھارت سے سازباز کرنے کے جرم میں گرفتار کیا اور ان پر اگرتلہ سازش کیس چلایا گیا جس کے جج جسٹس ایس اے رحمن تھے جو معروف صحافی راشد رحمن کے والد تھے۔

ایس اے رحمن کا موقف تھا کہ شیخ مجیب پر یہ کیس سو فیصد درست تھا لیکن اس وقت تک جنرل ایوب خان کے بطور آرمی چیف جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے اور برسوں تک صدر کے عہدے پر قابض رہنے کے باعث مشرقی پاکستان کے عوام میں سیاسی محرومی کا احساس بہت بڑھ گیا تھا اور مغربی پاکستان کی سیاسی جماعتیں مشرقی حصے میں برائے نام رہ گئی تھیں۔ شیخ مجیب الرحمن کو نوابزادہ نصراللہ خان، ممتاز دولتانہ، مولانا مودودی اور ولی خان وغیرہ نے اصرار کر کے پیرول پر رہا کروایا اور دس سالہ دورحکومت کے اختتام پر ایوب خان سے جو گول میز کانفرنس ہوئی اس میں شریک کروایا۔

یہاں شیخ مجیب نے چھ نکات کے نام پر مشرقی پاکستان کی نیم خود مختاری کا فارمولا پیش کر دیا۔ ایوب خان نے چھ نکات کے بارے میں کہا کہ میں پاکستان کے ڈیتھ وارنٹ پر دستخط کرنے کو تیار نہیں ہوں تاہم بعدازاں شیخ مجیب الرحمن 1970ء کے الیکشن میں بھاری اکثریت سے مشرقی پاکستان سے منتخب ہوئے اور پورے صوبے میں صرف دو سیٹیں عوامی لیگ کیخلاف سامنے آئیں جن میں ایک سیٹ پر نورالامین اور دوسری سیٹ پر چکمہ قبائل کے اقلیتی رکن راجہ تری دیورائے کامیاب ہو گئے، باقی تمام سیٹیں عوامی لیگ نے جیتیں جن پر فوجی صدر یحییٰ خان نے انہیں متوقع وزیراعظم کے طور پر مبارکباد بھی دی تاہم مغربی پاکستان سے تمام جماعتوں سے زیادہ سیٹیں حاصل کرنے والی پاکستان پیپلزپارٹی کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو نے اعلان کیا کہ جو شخص قومی اسمبلی کے پہلے اجلاس میں جو ڈھاکہ میں بلایا گیا تھا شرکت کرے گا اس کی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی۔

بھٹو صاحب کا طرزعمل جمہوری سوچ سے یکسر برعکس تھا کیونکہ پاکستان کے دونوں حصوں سے شیخ مجیب کی پارٹی قومی اسمبلی کی زیادہ سیٹیں لے کر جیتی تھی لیکن بھٹو صاحب نے یہ فلسفہ دیا کہ ہمارے بغیر آپ نہیں چل سکتے، لہٰذا ہم سے مذاکرات کریں۔ یہ مذاکرات ڈھاکہ میں ہوئے لیکن کامیابی نہ ہوئی اور بالآخر یحییٰ خان نے بھٹو صاحب کے ایما پر مشرقی پاکستان میں فوجی ایکشن کیا۔

متوقع وزیراعظم شیخ مجیب الرحمن کو گرفتار کر کے مغربی پاکستان لایا گیا اور مشرقی پاکستان میں اسلام آباد کیخلاف عوامی غیض و غضب کا سیلاب آ گیا۔ صرف مسلم لیگی اور جماعت اسلامی کے لوگوں نے حکومت پاکستان کا ساتھ دیا، بعدازاں اندرا گاندھی نے اپنی فوجیں ڈھاکہ میں داخل کر دی پاکستانی فوج کو بروقت کافی جگہ دشمنوں سے لڑ رہی تھی اور اپنوں کی جانوں کا ضیاع نہ ہو تو اس مشکل حالات میں انہیں ہتھیار ڈالنے پڑے۔

اس موقع پر بھٹوصاحب نے سلامتی کونسل میں پاکستان کے وزیرخارجہ اور نائب وزیراعظم کے طور پر جوشیلی تقریر کی تاہم انہیں کامیابی نہ ہوئی اور وہ پاکستان واپسی پر فلو کے باعث راستے میں رُک گئے اور جب اسلام آباد پہنچے تو یحییٰ خان کیخلاف ایک طوفان اٹھا ہوا تھا اور چند فوجی جرنیلوں نے ان سے زبردستی استعفیٰ لے لیا تھا۔ بھٹوصاحب کے کہنے پر شیخ مجیب الرحمن کو میانوالی جیل سے خفیہ طور پر واپڈا کالونی کندیاں کی ایک کوٹھی میں منتقل کر دیا گیا تھا۔

چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور عبوری صدر بننے کے بعد بھٹو صاحب نے شیخ مجیب الرحمن کو اسلام آباد سے نصف شب کے قریب لندن کی فلائٹ پر سوار کروا دیاکس طرح شیخ مجیب الرحمن نے بھٹو صاحب کے رخساروں پر بوسہ دیا اور پاکستان کو دولخت کرنے والے دونوں کردار آپس میں گلے ملے۔ شیخ مجیب الرحمن پہلے صدر اور بعدازاں بنگلہ دیش کے وزیراعظم بنے۔ اسلامی کانفرنس کے موقع پر بھٹو صاحب نے شیخ مجیب کو لاہور آنے کی دعوت دی اور بنگلہ دیش کو تسلیم کر لیا گیا،بعدازاں اگست 1975ء میں یعنی اقتدار میں آنے کے چار سال بعد صبح چھ بجے ڈھاکہ میں شیخ مجیب الرحمن کے گھر واقع دھان منڈی پر میجر فاروق الرحمن نے جو بنگلہ دیش آرمی کے افسر تھے چند دیگر افسروں کے ہمراہ سرکاری رہائش گاہ پر حملہ کیا۔

شیخ مجیب الرحمن، اس کی بیوی فضیلت النسائی، تین بیٹے شیخ کمال، شیخ جمال اور دس سالہ بیٹے شیخ رسل جن کا نام شیخ مجیب نے عالمی شہرت یافتہ فلسفی برٹرینڈ رسل کے نام پر رکھا تھا، دو بہوؤں اور دیگر اہل خانہ سمیت گولیوں سے بھون دیا گیا۔ شیخ مجیب کے بھانجے شیخ فضل الحق مانی بھی اپنی بیوی کے ہمراہ مارے گئے۔ برادرنسبتی عبدالرب 13 دوسرے افراد کے ساتھ منٹو روڈ والے مکان پر مارے گئے۔

شیخ مجیب کی بیٹہ شیخ حسینہ اس لئے بچ گئیں کہ وہ اپنی بہن شیخ ریحانہ کے ساتھ مغربی جرمنی کے دورے پر تھیں۔ شیخ صاحب اور انکے خاندان کی  لاشیں تین دن تک دھان منڈی والے گھر میں بے گوروکفن پڑی رہیں۔  عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ تین دن تک لاشیں کمروں کے باہر برآمدوں اور صحن میں پڑی رہی تھیں اور گوشت کی بو سونگھ کر بڑے بڑے خوفناک گِدھوں نے مکان کی چھت پر بسیرا کر لیا تھا بعدازاں کچھ لوگوں نے فوجی افسروں کی اجازت سے کیونکہ ملک میں فوجی حکومت آگئی تھی، شیخ مجیب الرحمن اور ان کے اہل خانہ کی لاشیں ڈھاکہ سے باہر ان کے گاؤں پہنچائیں اور گاٶں والوں کی مدد سے ان کی تدفین  ہوئی۔

مجیب کے قتل پر کسی نے کوئی احتجاج نہیں کیا بلکہ عوام خوش ہوئے۔  مجیب اور اہل خانہ کا انجام دُنیا دیکھ چکی ہے اب دیکھیں اس کی جانشینی کا کیا انجام ہوتا ہے؟۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :