محمد علی جناح، ملت کا پاسباں

جمعہ 24 دسمبر 2021

Dr Hamza Siddiqui

ڈاکٹر حمزہ صدیقی

ملت کے لیے غنیمت ہے آج تیرا دم، اے قائداعظم
شیرازہِ ملت کو کیا تونے فراہم، اے قائد اعظم
تاریخ میں گاہ بہ گاہ ایسی شخصیات جنم لیتی رہی ہیں،جنہوں نے دنیا سے جانے کے بعد بھی اپنی رفعت و عظمت کا سکّہ جمائے رکھا۔ قاٸد اعظم محمد علی جناح کا شمار ان نڈر، بے باک، بے لوث، سچائی کے پیکر، نظم و ضبط کی اعلیٰ مثال، مخلص، اصول پسند، محنتی، انتہائی خوش اخلاق، ملنسار اور خدا ترس شخصیات میں ہوتا جن کا سراغ تاریخ میں بہت کم  ملتا ہے جہنوں نے قوموں کی تقدیر کا دھارا بدل کے رکھ دیا، وہ ایک آفرین شخصیت، عظیم لیڈر، بااصول سیاستدان ،بلند پایہ مدبر، ممتاز قانون دان، بے باک و نڈر رہنما فقید المثال دانشور تھے۔

جو اصولوں پر کبھی سودے بازی نہیں کرتے نفاست، شاٸستگی، تدبر قاٸد کی شخصيت میں شامل تھے، ان میں غیر معمولی قوت عمل اور غیر متزلزل غرم، ارادے کی پختگی کے علاوہ بے پناہ صبر و تحمل اور استقامت و استقلال تھا، وہ برصیغر کے مسلمانوں کے دلوں میں بسے ہوۓ تھے۔

(جاری ہے)

انہوں نے اپنی طلسماتی شخصیت کے سحر سے ایک منتشر قوم  کے بکھرے ہوۓ شیرازے کو جمع کیا، شہر شہر جاکر قوم کو جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر جگایا،انہیں متحد کیا اور ایک پرچم کے سایہ  تلے جمع کیا، انہوں نے اتحاد، یقین، تنظيم، اور  ایمان کی شمع لے کر منزل کی طرف بڑھے،اور اسلامی جہوریہ پاکستان کا قاٸداعظم محمد علی  جناح کی ولولہ انگریز اور جرات مندانہ قیام کا اعجاز ہے۔


معجزہ دنیا میں ابھرتی نہیں قومیں
جو ضرب کلیمی نہیں رکھتا وہ ہنر کیا
قاٸداعظم محمد علی جناح 25 دسمبر 1876ء کو پاکستان کے شہر کراچی کے قدیم علاقے کھارا در میں وزیر مینشن کی عمارت میں پیدا ہوئے، جناح کی جائے پیدائش پاکستان میں ہے لیکن یہ اس دور میں بمبئی کا حصہ ہوا کرتا تھا،ان کا تعلق ایک متوسط آمدنی والے گھرانے سے تھا، ان کے والدگرامی کا نام پونجا جناح تھا،وہ ٹھیاواڑ گجرات کے رہاٸشی تھے،لیکن کاروباری شغف انہیں کراچی لے آیا وہ کراچی میں چمڑے کا کاروبار کرتے تھے اور وہ وہاں کے بڑے تاجروں میں ان کا شمار ہوتا تھا،ان کی والدہ محترمہ کا نام مٹھی بائی تھا۔


جناح کا اپنے بہن بھائیوں میں دوسرا نمبر تھا، ان کے تین بھائی اور تین بہنیں تھیں، ان کے بہن بھائیوں میں رحمت، مریم،احمد علی، بندے علی،شیریں اور فاطمہ جناح شامل تھے۔ ان کی والدہ مٹھی بائی نے اپنے بیٹے کانام محمد علی رکھا۔ جناح  کی پرورش بڑے ناز ونعم سے ہوٸی،والدین نے ان کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دی۔ جناح نے ابتدائی تعلیم کا آغاز 1882 میں کیا، جناح کو چھ برس کی عمر میں کراچی کے ایک مدرسے میں داخل کروا دیا گیا، اس کے بعد جناح اپنی خالہ کے ہاں بمبئی میں بھی کچھ عرصہ رہے تھے جہاں انہوں نے گوکال داس تیج پرائمری اسکول میں پڑھے، بعد میں انہوں نے کیتھڈرل اینڈ جان کینون اسکول میں تعلیم حاصل کی۔

اور پھر وہ کراچی واپس آگٸے اور سندھ مدرسۃ الاسلام ہاٸی سکول اور پھر کرسچن مشنری سوسائٹی ہاٸی اسکول میں داخل رہے۔ 1891ء میں انہوں نے میٹرک جامعہ بمبئی کے مشن ہاٸی سکول میں داخلہ لیا  اور یہاں سے انہوں نے سولہ برس کی عمر میں میڑک کا امتحان اچھے نمبروں سے پاس کیا۔۔پھر 1892میں وکالت کا امتحان پاس کیا اس کے بعد 1893 میں اعلی تعلیم کے حصول کے لئے انگلستان روانہ ہوگئے جہاں اعلیٰ تعلیم حاصل کی، وہاں جناح نے لنکن ان ادارے سے 19 سال کی عمر میں بیرسڑی کا امتحان پاس کیا۔


1896میں بیرسٹر بنے، پھر جناح نے خود کو بمبے ہائیکورٹ میں بطور وکیل خود کو رجسٹرڈ کروایا اور 1896میں اپنی عملی زندگی کا آغاز لندن گراہم ٹریڈنگ کمپنی میں اپرنٹس شپ کرکے کیا انہوں دنوں آپ کی کی والدہ ماجدہ کا انتقال ہوگیا اور آپ کے والد گرامی کے مالی حالات خراب ہوگٸے تھے اور وہ کٸی مقدمات اور مشکلات میں پھنس گٸے جس کے بعد آپ ولایت سے کراچی واپس تشریف لے آۓ،آپ نے واپس آکر کراچی میں وکالت شروع کردی، سب سے پہلیآپ نے اپنے والد گرامی کے مصائب دور کیا، کافی عرصہ یہاں وکالت کی کوٸی صورت نظر نہ آٸی ، پھر 1902 میں وکالت کے سلسلے میں آپ بمبئی چلے گئے۔

وہاں ابتدائی تین سالوں میں آپکو کوٸی مقدمہ نہ ملا،  آپ نے  کوبڑی سخت مشکلات کا سامنا کرنا لیکن لیکن اس کے باوجود آپ نے بہت حوصلہ اور بہادری کے ساتھ کام کیا، اور ہمت نہ ہاری، آخر کچھ عرصے کے بعد آپکو پریزیڈینسی مجسٹریٹ کے عہدے کی پیش کش ہوٸی، آپ کی کارکردگی سے خوش ہوکر سرکار نے پندرہ سو روپے ماہوار تنخواہ کی پیش کش کی آپ نے شکریہ ادا کرتے ہوۓ کہا کہ ”میں تو اتنی رقم روز کمانا چاہتا ہوں“۔

آپ چھ ماہ تک پریزیڈینسی مجسٹریٹ کی آسامی پر فاٸز رہے،تو اس مختصر سی مدت ملازمت میں بھی اپنے دائمی نقوش ثبت کر دیتے۔ انہوں نے جلد ہی اس منصب سے استعفیٰ دے کر سبکدوشی اختیار کر لی، پھر وکالت کی پریکٹس شروع کردی اور جلد ہی چوٹی کے وکیلوں میں شمار ہونے لگا آپ نے پیشہ ورانہ، اخلاقیات اور دیانت کو مدنظر رکھا جس کے باعث  کامرانی و کامیابی ان کے قدم چوم رہی تھی۔

بعد ازاں قائداعظم نے دسمبر 1904میں بمبی میں کانگریس کے بیسویں سالانہ اجلاس میں شرکت کر کے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز کیا، وہ ابتدا ہی سے عملی سیاست میں دلچسپی لیتے رہے اور امپیریل قانون ساز کونسل کا رکن بننے سے پہلے میونسپل کارپوریشن کمپنی کے ممبر رہے۔ ان کی باقاعدہ سیاسی زندگی کا آغاز 1906 ء سے ہوا جب انہوں نے آل انڈیا نیشنل کانگریس میں شمیولیت اختیار کی اور 1906 ء سے 1948 ء تک وہ برصغیر کی سیاست پر چھائے رہے۔

کانگریس میں شمولیت کے بعد انہیں عملی سیاست میں اپنی منفرد سوچ اور خیالات میں پختگی  کی بدولت ایک اہم مقام حاصل کرتیگٸے پھر  وہ 60 رکنی امپیریل مشتاورتی کونسل کے ممبر بن گے، جناح  اپنے اعتدال پسند خیالات اور جدید سیاسی تصورات کی وجہ سے مسلم حلقوں میں بھی مقبول رہیں اور 1909 ء میں صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب کر لئے گئے، جناح نے رکنيت کے چھ سالوں میں اپنی ذہانت اور لیاقت کا سکہ منوالیا اب تک جناح کو ہندومسلم  اتحاد کا سمجھا جاتا تھا، بعدازاںجب انہوں نے گاندھی اور دوسرے ہندو رہنماؤں کا مسلمانوں سے متعصبانہ رویہ دیکھا تو وہ کانگریس سے بد دل ہوگٸے چنانچہ آپ نے کانگریس کے ساتھ سات سالہ طویل رفاقت کے بعد قائد اعظم نے ہندو رہنماؤں کی چالوں کو بھانپتے ہوئے 1913 میں مسلم رہنماؤں سر آغا خان سوئم، علامہ اقبال اور چوہدری رحمت علی کی درخواست پر مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی خود کو مسلم لیگ اور مسلمانوں کیلئے وقف کر دیا۔

جو خالصتاً مسلمانوں کی سیاسی جماعت کے طور پر 1906 میں قائم ہوئی تھی۔1914کو کانگریس کے وفد کی سربراہی کرتے ہوئے انگلستان گئے واپسی کے بعد چند سالوں کیلئے کانگریس اور مسلم لیگ کے درمیان حسن تفاہم اور اتفاق باہمی کیلئے کوشاں رہے اور جناح نے 1916ء میں آل انڈیا مسلم لیگ اور آل انڈیا کانگریس کے مابین ہونے والے میثاق لکھنؤ کو مرتب کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔

جلد ہی قائد اعظم محمد علی جناح مسلمانوں میں نہایت مقبول ہو گئے اور 1916ء میں آپ کو مسلم لیگ کا صدر منتخب کرلیا گیا، جس سے تحریک آزادی میں ایک نئی روح پڑ گئی، آپ نے نو جوانوں کو متحرک کیا اور اسکولوں، کالجوں میں نظریۂ پاکستان کی ترویج کی اور ساتھ ہی ساتھ ستمبر 1916 میں ہندوستان کے عوام کو حکومتِ خود اختیاری دلانے کے لیے قائم کی جانے والی جماعت ہوم رول لیگ میں انہوں نے جون 1917 میں شمولیت اختیار کی اور بمبئی ہوم رول لیگ کے صدر منتخب ہوئے۔

اس سال الٰہ آباد میں ہوم رول لیگ کے ایک جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے عوام سے اپیل کی کہ وہ مسلم لیگ اور کانگریس کے مشترکہ مطالبات کی حمایت کریں کیوں کہ ہوم رول لیگ کا مقصد بھی انہی مطالبات کا حصول ہے اور اسی دَور میں اُن کو ’ہندو مسلم اتحاد کے سفیر‘ کے خطاب سے بھی یاد کیا گیا۔ بعدازاں 1919ء میں محاکمے کے بغیر بغاوت کے مقدمے کی سماعت کے لئے قانون ساز کونسل میں رولیٹ بل کی منظوری کے بعد آپ نے اس کونسل سے استعفا دیا۔

جناح کی یہ جدوجہد ایک طویل عرصہ تک جاری رہی اور دونوں اقوام کو نزدیک لانے کی کوششیں کرتے رہے مگر آہستہ آہستہ اُن پر واضح ہوتا چلا گیا کہ کانگریس کے ہندو راہ نما ہندوستان کی آزادی تو چاہتے ہیں لیکن مسلمانوں کو اُن کے جائز حقوق کسی طور پر بھی دینے کو تیار نہیں بلکہ وہ ہندوستان کی آزادی کے بعد ہندوستان میں ’ہندو راج‘ قائم کرنا چاہتے ہیں۔

ایسا راج جس میں مسلمان ایک پسماندہ اور محکوم اقلیت کے طور پر زندگی بسر کریں،کانگریس کی ہندو نواز پالیسیوں سے تنگ آکر بالآخر 1920 میں قائداعظم نے کانگریس کو خیرآباد کہہ دیا اور آخری سانس تک مسلمانوں کی نمائندہ جماعت مسلم لیگ سے وابستہ اختیار کر لی۔
بعدازاں تحریک خلافت بعد ملک میں فسادات کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوگیا۔ ان حالات سے قائداعظم دلبرداشتہ ہوگئے۔

انہوں نے1926ء میں کہا کہ، ’اس حقیقت سے راہِ فرار ممکن نہیں کہ فرقہ واریت اس ملک میں موجود ہے۔ محض جذبات اور امتداد زمانہ سے یہ رفع نہیں ہوسکتی‘۔ اس دوران نہرو رپورٹ نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ نہرو رپورٹ برطانوی راج کی جانب سے جاری کی گئی سائمن کمیشن کے جواب میںتیار کی گئی تھی۔ سائمن کمیشن کو ہندوستان کی تمام سیاسی جماعتوںنے مسترد کردیا تھا، جس کے بعد 8مارچ1928ء کو نہرو کو نیا آئین تیار کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔

نہرو رپورٹ کے ردِعمل میں 1929ء میں مسلمانوں کی آل پارٹیز کانفرنس کلکتہ میں منعقد ہوئی، جہاںقائداعظم نے اپنے 14نکات پیش کیے، جن کو انتہا پسند ہندوئوں نے نہ صرف رد کردیا بلکہ قائد اعظم پر مزید طعن و تشنیع کی گئی۔یہ وہ موقع تھا، جب قائد اعظم ؒ کا دل ہندوئوں سے بیزار ہوگیا۔ انہوں نے کلکتہ سے روانہ ہوتے ہوئے، جمشید جی نوشیروان کا ہاتھ پکڑا اور کہا، اب جدائی کا آغاز ہے۔


سن 1930ء میں آپ نے چید سال لندن‌ میں قیام کرنے کا فیصلہ کیا۔ پھر پھراسی اثناء  آپ نے گول میز کانفرنس میں شرکت کی یوں آپ نے 1931 سے 1934ء تک لندن میں وکالت کی ملازمت اختیار کی۔ اس دوران کبھی کبھار ہندوستان بھی جایا کرتے تھے۔ 1935ء کو آپ علامہ اقبال اور لیاقت‌ علی‌ خان‌ کی اصرار پر ہندوستان واپس لوٹ آئے اور مسلم‌ لیگ‌ کی قیادت سنبھالی جو اس وقت اندرونی اختلافات کا شکار ہو گئے۔

جناح  نے اپنی انتھک  محنت اورکوششوں کے باوجود اسے نٸے سرے سے منظم کیا،اور جلد ہی  مسلم لیگ  برصغیر کے افق پر مسلمانوں کی ایک منظم اور مضبوط سیاسی جماعت کے کیطور پر ابھری۔اسی جماعت کی چھتری تلے ہی قائداعظم نے برصغیر کے مسلمانوں کے لیے علیحدہ وطن حاصل کرنے کی جدوجہد شروع کردی  بعدازاں مسلم لیگ کی تنظیم سازی اور اسے منظم کرنے کے باوجود بھی اسے قانون ساز کونسل کے انتخابات میں کامیابی نصیب نہیں ہوئی یوں عملی طور پر کانگریس برسر اقتدار آئی اور کسی بھی مسلمان لیڈر کو حکومت میں شامل نہیں کیا۔

1937 سے 1939ء کے درمیان ہندؤوں اور مسلمانوں کے درمیان خشونت‌ اور درگیری‌ میں شدت آگئی۔ اس کے ساتھ ساتھ جن ریاستوں میں کانگریس کی حکومت قائم ہوئی وہاں مسلمانوں پر ہندؤوں کی حکومت کے تلخ اور ناگوار تجربے نے آپ کو علامہ اقبال کے دو قومی نظریے کو قبول کرنے پر مجبور کیا اور آپ اس نتیجے پر پہنچے کہ اگر مسلمان اپنی دینی اور ثقافتی اقتدار کے ساتھ زندگی گزارنا چاہیں تو انہیں ضرور ایک علیحدہ وطن کی ضرورت ہے 1939 میں آخر کار کانگریس خود ہی منہ پھلا کر حکومت دے بیٹھی اور مسلمانوں اور لیگ نے شکر کی نوافل ادا کیے۔

23 مارچ 1940ء کو مسلم لیگ نے آپ کی قیادت میں قرارداد پاکستان منظور کی جس کا مقصد نئی مملکت کے قیام کا مطالبہ تھا۔1945ء اور جنوری 1946ء کے انتخابات میں مسلم لیگ نے مسلمانوں کی بیشتر نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ آخر کار برطانیہ کو مسلم لیگ کے مطالبہ پر راضی ہونا پڑا اور ایک علیحدہ مملکت کا خواب شرمندہ تعبیر ہوا۔ 14 اگست 1947 کو پاکستان معرضِ وجود میں آگیا۔

بلاشبہ قائداعظم محمد علی جناح کی ایک ایسی کامیابی تھی جس نے اُن کو دُنیا کے عظیم مدبروں کی صف میں کھڑا کردیا، جناح جنہوں نے برصغیر کے مسلمانوں کو علیحدہ وطن دِلایا پاکستان کے لیے بہت کچھ کرنے کے خواہش مند  تھے لیکن ان کی بیماری نے ان کے تعمیری منصوبوں کو پایہ تکمیل تک نہ پہنچنے دیا اور مسلمانانِ ہند 11 ستمبر 1948 کو اپنے اس عظیم رہنما کی قیادت سے محروم ہوگئے۔

اے قائد! ہم آپ سے شرمندہ ہیں ہم پاکستان کو ویسا نہ بنا سکے جیسا آپ نے سوچا تھا، جو تعبیر آپ نے دیکھی تھی۔ نہ یہ قوم آپ کے قول و عمل سے کچھ سیکھ سکی، نہ آپ کی سیاست کے طریقے کو اپنا سکی،نہ کوئی ایسا لیڈر پیدا کر سکی جسکی شخصیت آپ کا مظہر ہو۔ لیکن آج اس قوم کو ایک بار پھر قائد اعظم جیسے با اصول، بے باک، نڈر اور باصلاحیت رہنما کی ضرورت ہے۔ جو یہاں کے لوگوں کو ایک قوم کے طور پر متحد کرسکے۔ جو اس پاک سر زمین کو ترقی پذیر ملک سے ترقی یافتہ ملک بنا سکے۔ جو قائد اعظم کی ان امیدیوں کو پورا کرسکے جو انھوں نے پاکستان کے لوگون سے وابستہ کی تھیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :